134

سیاست امکانات کا کھیل !

 سیاست امکانات کا کھیل !

تحریر :شاہد ندیم احمد

ملک میںسیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں ایک ایسامستقل عمل ہے کہ جسے معمول کی بات سمجھا جاتا ہے، مگر اس وقت ملکی سیاست جو رخ اختیار کررہی ہے، وہ معمول سے ہٹ کر فیصلہ کن مرحلے کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے،اپوزیشن رائے عامہ متحرک کرنے کے لیے لانگ مارچ، دھرنوں اور جلسے جلوسوں کے علاوہ پارلیمنٹ میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کی تیاریاں کررہی ہے،

جبکہ حکومت نے اپوزیشن کی مخالفانہ مہم اور ممکنہ تحریک عدم اعتماد کا مقابلہ کرنے کے لیے ملک بھر میں جلسے جلوس اور عوامی رابطہ مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اگرچہ قبل از وقت انتخابات کے کوئی امکانات ہیں نہ حکومت جاتی دکھائی دیے رہی ہے ،تاہم سیاست امکانات کا کھیل ہے ،اس میںجو کچھ کبھی نہ ہوتا دکھائی دے، وہ کسی بھی وقت ہو سکتا ہے۔
یہ امرواضح ہے

کہ حکومت اپنے دور اقتدار میں جہاں کارکردگی دکھانے میں ناکام رہی ہے ،وہیں اپوزیشن نے بھی کوئی مواثر کردار ادا نہیں کیا ہے ، تاہم اس کے باوجو حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کے اپنے اپنے پلیٹ فارم پر جو بھی سیاسی کھچڑی پک رہی ہے، وہ منتخب جمہوری نظام کو ماضی جیسا کوئی نقصان پہنچانے پر منتج نہیں ہونی چاہیے، وزیراعظم صدر مملکت کو مشورہ دے کر اسمبلیاں توڑنے کا جس طرح آئینی اختیار رکھتے ہیں، اسی طرح اپوزیشن کا تحریک عدم اعتماد پیش کرناآئینی اقدام ہے ،لیکن سوال یہ ہے کہ عدم اعتماد کے ذریعے ہائوس کے اندر سے تبدیلی لا کرکیا اپوزیشن ملک وعوام کو آئی ایم ایف سے نجات دلاسکیں گی ،کیا عوامی مسائل کا تدارک کر سکے گی ؟ اگر حکومت ملک وعوای مسائل کے تدارک میں ناکام رہی ہے تو اپوزیشن کے پاس بھی کوئی واضح ایجنڈا نہیں ہے ۔
اپوزیشن کا ایک ہی ایجنڈا ہے کہ حکومت بہر صورت گرائی جائے ،لیکن کیا اپوزیشن کسی اشارے اور اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی کے بغیر اپنے بل بوتے پر حکومت کو گرانے کے قابل ہے؟ اس کاجواب سو فیصد نفی میں ہے،میاں نواز شریف سے لے کر آصف علی زرداری اور مریم نواز شریف سے لے کر بلاول بھٹو تک یہ حقیقت جانتے ہوئے

تسلیم بھی کرتے ہیں،تبھی اپوزیشن ارکان اسمبلی کے استعفوں پر نہ طویل المیعاد دھرنے اور تحریک عدم اعتماد پر اتفاق ہو پایا ہے ،اس عدم اتفاق کے باعث ہی پی ڈی ایم ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی اور دوبارہ اب تک جڑ نہیں پائی ہے ،لیکن اب پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم کو بھی دوبارہ متحرک کیا جارہا ہے،اگر حکومت کے جملہ مخالفین اور سول بالادستی کے علمبرداروں کا تکیہ اسٹیبلشمنٹ پر ہے تو یہ ایک ایسی شاخ نازک ہے

کہ جس پر بننے والا آشیانہ انتہائی ناپائیدار ہو گا۔اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر دور اقتدار میں اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت کا شکوہ کرنے والے ہی اپنے مفادات کے حصول کیلئے اُنہی کے اشاروں کے منتظر رہے ہیں ،اپوزیشن قیادت ایک طرف حکومت پر مقتدر قوتوں کی سر پرستی کا الزام لگاتے ہیں تو دوسری جانب تحر یک عدم اعتماد لانے کیلئے ان کے تعاون کی طلب گارہیں،ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کا تعاون شریف خاندان اور زرداری خاندان کے سوکھے دھانوں پر پانی ڈال سکتاہے،

مگراس سے ملک و جمہوریت کو کیا حاصل اور اسٹیبلشمنٹ کو کتنے نفل کا ثواب ہو گا؟ساڑھے تین سال تک ایک سیاسی گروہ سے بے جا تنقید سننے کے بعد اگلے ڈیڑھ سال یا پانچ سال دوسرے‘ مُنہ پھٹ اور بڑ بولے طبقے کی ملاحیاں سننے کی آرزو کون عقلمند کر سکتا ہے؟ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ در حقیقت سول بالادستی کا علمبردار گروہ انتقامی جذبے سے سرشار اور ماضی کا سارا حساب چکتا کرنے کا شدید خواہش مند ہے۔
اس صورتحال میں عمران خان کو محلاتی سازشوں کے ذریعے محروم اقتدار کرنے کا کوئی منصوبہ اسٹیبلشمنٹ کے مفاد میں ہے نہ جمہوریت و ریاست کیلئے سازگارہو سکتا ہے،حکومت اور اپوزیشن دونوں کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ،اس وقت دونوں کو ایک دوسرے کو گرانے کی بجائے عوام سے خود کو بچانے کی حکمت عملی وضح کرنی چاہئے، آئندہ انتخابات کےمراحل کے دوران دونوں کوہی عوامی غصہ کا سامنا کرنا پڑے گا،حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کو آئندہ انتخابات کیلئے اپنی حکمت عملی ضرور طے کرنی چاہیے

،لیکن محاذآرائی کی سیاست میں منافرت اور ذاتی انتقام کا عنصر شامل کرنے سے گریز کرنا چاہیے، کیونکہ اس فضامیں ہی غیرجمہوری عناصر کو جمہوریت ڈی ریل کرنے کی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع مل سکتا ہے۔
بلا شبہ حکومت اور اپوزیشن کے نقطہ ہائے نظر میں اختلاف جمہوریت کا خاصہ ہے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور بحث مباحثے کا حق بھی دونوں کو حاصل ہے، مگر اس معاملے میں آئینی حدود و قیود کو لازماً ملحوظ رکھا جانا چاہیے،حکومت کی جانب سے کارکردگی کی بنیاد پر اپنی آئینی معیاد پوری کرنے پر اصرار بجا اور اپوزیشن کی جانب سے حکومت کی گورننس پر اعتراضات بھی درست،

مگر دونوں جانب سے ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھایا جانا چاہیے کہ جس سے ملک کا نظام درہم برہم ہو جائے ،سیاست امکانات کا کھیل ضرور ہے ،مگر ایسے امکانات سے بھی گریز کرنا چاہئے کہ جس سے جمہوری نظام ہی چلا جائے، اگر حکومت اور اپوزیشن کی سیا سی محاذ آرائی میں جمہوری نظام کو کوئی نقصان پہنچا تو پھر کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، بلکہ اس کا فائدہ کوئی اور ہی اُٹھائے گا ۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں