ایک نیاء میثاق جمہوریت 93

سیاست میں بکنے والوں کا بازار!

سیاست میں بکنے والوں کا بازار!

تحریر :شاہد ندیم احمد
ملک میں تحریک عدم اعتماد کے حوالے خبریں رکنے کا نام نہیں لے رہی ہیں ،آئے روز ایک نیا زاویہ دکھائی دیتا ہے ،ایک طرف اپوزیشن تحریک عدم اعتماد کا میاب بنانے کیلئے حکومتی اتحادیوں سے مدد مانگ رہی ہے تو دوسری جانب ارکان پارلیمان کی مطلوبہ تعداد پورے ہونے کے دعوئے بھی کررہی ہے ،حکومت کی طرف سے بھی جوابی دعوئے کئے جاتے ہیں کہ اپوزیشن کل تحریک عدم اعتماد لانے کی بجائے

آج لے آئے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا ،جبکہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید کا کہنا ہے کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کے نام پر خرید و فروخت کا بازار لگارکھا ہے ،لیکن سیاست کے بازار میںبکنے والے کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے، عمران خان ایسا ڈرون مارے گا کہ یہ سب سیاسی طور پر نیست و نابود ہوجائیں گے۔
یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن نے حکومت کے ساڑھے تین سالوں میں عوام کی بجائے اپنے مفاد کے حصول کی جد وجہد کی ہے ،عوام کل بھی اپنے درینہ مسائل کے ساتھ زندگی گزارنے پر مجبور تھے ،آج بھی انتہائی مشکل میں زندگی گزار رہے ہیں ،جبکہ اپوزیشن حکومت گرانے کیلئے یک بعد دیگرے شاطرانہ چالیں چلنے میں لگی ہے، اس کا مقصد اپنے غیراخلاقی اور غیر آئینی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے سوا کچھ نہیں،اپوزیشن کی چیخ وپکار اور رونے دھونے کی وجہ ان کے طویل اقتدار کے دوران کی گئی

لوٹ مار کی حساب طلبی ہے، اپوزیشن قانون کے شکنجے سے بچنے کے لئے ہنگامہ آرائی برپا رکھنا چاہتی ہے، تاکہ اسے احتساب سے بالاتر سمجھا جائے، اپوزیشن کے مفاد پرست ٹولے کو ڈر ہے کہ اگر حکومت کے خلاف کچھ نہ ہوا تو ان کی کھال اتر جائے گی۔اپوزیشن لانگ مارچ کرنے کے ساتھ تحریک عدم اعتماد کا میاب بنانا چاہتی ہے ،مگر اپنے تمام تر دعوئوں کے بعد ابھی تک طے نہیں کرپارہی کہ کب اور کیسے لائی جائے ،اپوزیشن کو اپنے اندر تقسیم کا حل ڈھونڈنے کی ضرورت ہے ،

جبکہ وہ حکومت گرانے کے خواب دیکھ رہی ہے ،اپوزیشن کبھی مقتدر قوتوں کی مدد کے بغیر تحریک عدم اعتماد پیش نہیں کرسکتی ،جبکہ انہوں نے صاف طور پر واضح کردیا ہے کہ منتخب حکومت کے ساتھ ہیں ،اپوزیشن کی حکومتی اتھادیوں کو ساتھ ملانے کے ساتھ مقتدر قوتوں سے مدد حاسل کرنے کی کوششیں جاری ہیں ،اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم کو اقتدار سے الگ کرنے کیلئے بے چین ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انہیں اپنا سیاسی مستقبل تاریک نظر آرہا ہے،کیو نکہ ان میں سے بیشتر نے ملک وقوم کو بیدردی کے ساتھ لوٹا ہے اور یہ سب جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جا سکتے ہیں ۔
اگر اپوزیشن تیاری کے ساتھ تحریک عدم اعتماد لاتی ہے تو ناکام ہونے کی صورت میں بھی حکومت پر دباؤ کا باعث بن سکتی ہے، کیونکہ اس کے لیے حکومت کو اپنے اتحایوں کی سپورٹ اور نمبر حاصل کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنی پڑے گی، البتہ اگر اپوزیشن بغیر تیاری کے تحریک عدم اعتماد لائی تو حکومت کے لیے بے ضرر ہو گی،اس لیے میاں نواز شریف کی سر پرستی میں میاں شہباز شریف اور آصف علی زر داری خاصے متحرک نظر آتے ہیں ،سیاسی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ،اپوزیشن کو یقین ہے کہ حکومتی اتحادیوں کو ساتھ ملانے کے ساتھ مقتدر قوتوں کی سپورٹ حاصل کر نے بھی کا میاب ہو جائے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ اپوزیشن ماردو یا مر جائو کی پوزیشن میں آئی ہو ئی ہے ،اپوزیشن اپنی سیاسی بقا کی آخری جدوجہد کررہی ہے ،وہ اپنے مقصد میں کا میاب ہو تی ہے کہ نہیں ،آنے والا وقت ہی بتا ئے گا ،تاہم اس وقت ملک اندرونی اور بیرونی حالات کسی انتشار کے متحمل نہیں ہو سکتے ،لیکن اپوزیشن کی

ترجیح ملکی مفاد کی بجائے ذاتی مفادات ہیں،اس لیے وقت سے پہلے حکومت گرانا اپوزیشن کیلئے اتنا ضروری ہو گیا ہے کہ اس کیلئے کچھ بھی کر گزرنے کو تیار نظر آتی ہے ،حکومت بھی جواب میں اپوزیشن کے تمام حربے ناکام بنانے میں کو شاں ہے ،حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میں نقصان
جمہوریت کاہو گا اور دونوں کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپو زیشن کی تمام تر جدجہد کے باوجود تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات محدود ہیں ،جبکہ حکومت نہ صرف پر اعتماد ہے ،بلکہ اپوزیشن کی ناکامی کے بعد مزید مضبوط بھی ہو جائے گی ،اس لیے اپوزیشن کیلئے بہتر ہو گا کہ لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد میں اپنی طاقت ضائع کرنے کی بجائے آئندہ انتخابات کیلئے تیاری کرے ،

اپوزیشن آئندہ انتخابات کی تیاری کرنے کی بجائے لانگ مارچ اور تحریک عدم اعتماد کی تیاریاں کر رہی ہے، کیا اس کے پاس ملک کے بڑے مسائل کا حل موجود ہے اور کیا اقتدار ملنے پر ملکی مسائل کے حل کی طرف بڑھنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اپوزیشن کے پاس کوئی متبادل حکمت عملی نہیں ،وہ سیاست میںبکنے والوں کا بازار لگا کر صرف حکومت گرانا چاہتی ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں