ایک نیاء میثاق جمہوریت 83

سیاست میں عدم اعتماد کا بحران !

سیاست میں عدم اعتماد کا بحران !

تحریر :شاہد ندیم احمد

حکومت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی میںایک بڑی سیاسی غلطی پورے نظام کو لپیٹ سکتی ہے، اس کا اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی ادراک نہیں کررہے ہیں، اپوزیشن کا ایک ہی مقصد حکومت گرانا ،جبکہ وزیر اعظم عمران خان لگتا ہے کہ کوئی بڑا فیصلہ کرچکے ہیں اور کسی بھی وقت کوئی بڑا اعلان کر سکتے ہیں،

اگر چہ وزیر اعظم نے اپنے ارکان پا رلیمان سے کہاں ہے کہ گھبرائیں نہیں ،اس بار گھبرانے کی باری اپوزیشن کی ہے ،تاہم حکومت نے گھبراہٹ کے بغیر بھی چوہدریوں سے مدد مانگ لی ہے ،چودھری برادران سے تعاون ملنے کے بعد ایسا لگنے لگا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان فائنل رائونڈ کھیلنے کے لیے تیار ہیں۔
یہ امر واضح ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے نام پر وقت سے پہلے فائنل رائونڈ کھیلنے کی تیاریاں ہونے لگی ہیں ، وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے بظاہر کچھ زیادہ ہلچل نظر نہیں آتی، لیکن زیر زمین ایک طوفان برپا ہے ،اپوزیشن قیادت کی پس پردہ دھوڑ دوپ اپنے زوروں پر ہے ،میاںشہباز شریف پندرہ سال بعد چودھری برادران کی خدمت میں حاضر ہوگئے ہیں، یہ وہی چودھری برادران ہیں کہ جن سے میاں برادران نے وعدہ خلافی کی تھی تو انہوں نے جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیاتھا ،

میاں نواز شریف جلاوطنی کے بعد واپس آئے تو صلاح صفائی کی بڑی کوشش ہوئی، لیکن میاں نواز شریف راضی نہ ہوئے، انہوں نے جنرل پرویز مشرف کے متعدد ساتھیوں کو گلے لگالیا، مگرچودھری برادران اب تک اُن کی نظر وں میں معتوب ہی رہے ہیں۔یہ حقیقت ہے کہ سیاست میں وقت سدا یکساں نہیں رہتا ہے ،ایک وقت تھا کہ میاں برادران چودھری برادران کا نام سننے کے رودار نہیں تھے اور اب حالات کی ستم ظریفی دیکھیے

کہ شریفوں کو خود چودھریوں کے در پہ جا کر ماتھا ٹیکنا پڑا ہے ،میاںشہباز شریف نے اپنے برادرِ بزرگ کی ہدایت پر چودھری برادران کے گھر پر حاضر دی ہے، چودھریوں نے اپنی روایتی وضع داری کے ساتھ ان کا خیر مقدم ضرور کیا،مگر کوئی اُمید نہیں دلائی ہے،بلکہ انتظار کی سوی پر لٹکا دیا ہے ،چودھری برادران بڑے ہی زیرق سیاستدان ہیں ،وہ بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس وقت سب اُن کی بلائیںکیوں لے رہے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ میاںشہباز شریف کی طرح آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن کی مزاج پْرسی کے بہانے حاضری کا مقصد بھی تحریک عدم اعتماد کیلئے تعاون حاصل کرنا رہاہے،وزیر اعظم عمران خان بھی پیچھے نہیں رہے ہیںاور عرصہ دراز بعد چودھریوں کو گلے لگانا ضروری سمجھا ہے ،چودھریوں نے کسی کو مایوس کیا، نہ کسی کو اْمید دلائی ہے،البتہ وزیراعظم سے اتنا ضرور کہا ہے

کہ ہم آپ کے اتحادی ہیں اور آخری وقت تک آپ کے ساتھ رہیں گے ،یہ آخری وقت کب آئے گا؟ اس کے بارے میں شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ فی الحال تحریک اعتماد کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا ،لیکن یہ بات طے ہے کہ جب ’’اوپر‘‘ سے اشارہ ہوگا تو تحریک عدم اعتماد کسی رکاوٹ کے بغیر منظور ہوجائے گی ۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ جمہوریت کے دعوئیدار ہی جمہوریت مخالف اشاروں کے منتظر رہتے ہیں،تاہم فی الحال اوپر کے اشاروں کے آثار دور تک دکھائی نہیں دیے رہے ہیں ،اپو زیشن بھول بھلیوں میں پڑی ہے کہ اس نے تحریک عدم اعتماد کا شور مچادیا، لیکن اسے اشاروں کے بغیر کیسے ممکن بنائے گی اوراگر مقتدرہ نے تحریک عدم اعتماد کی راہ ہموار کردی تو پھر اس ڈولتی کشتی کو کون سنبھالے گا ؟

ڈیڑھ سال بعد عام انتخابات میںحساب کون دے گا؟ اس صورت حال میں بلاول بھٹو زرداری نے اپنا تْرپ کا پتا کھیلا ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہونے کی صورت میں نیا عبوری وزیراعظم مسلم لیگ (ن) کا ہونا چاہیے۔ مس،اگرمسلم لیگ (ن) اس جال میں پھنس گئی تو اگلا الیکشن اس کے لیے ڈرائونا خواب ہی بن جائے گا۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اپوزیشن نے تحریک عدم اعتماد کا بکھیڑاکھڑا کرکے خود اپنے لیے مصیبت مول لے لی ہے ، اپوزیشن کیلئے کا میابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں نقصان یقینی ہو گیا ہے،حکومت کا صرف ڈیڑھ سال رہ گیا تھا ،اپوزیشن کیلئے مناسب تھا کہ صاف وشفاف انتخابات کو یقینی بناتی اور پی ٹی آئی کو انتخابات میں ٹف ٹائم دیتی، لیکن انہوں نے سیانوں سے زیادہ سیانے بننے کی

کوشش میں خود کو تحریک عدم اعتماد کی بڑی مشکل میں پھنسا لیا ہے ،اپوزیشن کے گلے میں تحریک عدم اعتماد کی ہڈی ایسی پھنسی ہے کہ جسے نہ اگلتے بن رہی ہے نہ نگلتے بن رہی ہے،سیاست میں عدم اعتماد کابحران اپوزیشن کیلئے ہی نہیں ،حکومت کیلئے بھی خطرناک ہے جو کہ نظام اور جمہوریت کے لئے بھی خطرے کا باعث بن سکتاہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں