عدم اعتماد کی خالی ہنڈیا!
تحریر :شاہد ندیم احمد
اپوزیشن قیادت حکومت کیخلاف عدم اعتماد کے حوالے سے بہت پرجوش اور پراعتماد دکھائی دینے لگی ہے ،اس کا اندازہ اُن کے بیانات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے،مولانا فضل الرحمن 48 گھنٹوں میں بڑی خوشخبری دینے کا دعویٰ کررہے ہیں،جبکہ چیئر مین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری اگلے پانچ دن میں وزیر اعظم کا استعفیٰ مانگنے لگے ہیں ،قائد حزب اختلاف شہباز شریف بھی عدم اعتماد کو عوام کیلئے
ایک بڑا رلیف قرار دیے رہے ہیں ،جبکہ مسلم لیگ( ق) قیادت کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی اتنی بڑی ہا نڈی چڑھی ہے ، اس میں سے کچھ تو ضرور نکلے گا ،تحریک عدم اعتماد سے کی ہنڈیا سے کیا کچھ نکلے گا،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ،تاہم اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی اپنی کا میابی کیلئے پر اعتماد دیکھائی دیتے ہیں۔
یہ امر واضح ہے کہ اپوزیشن کیلئے تحریک عدم اعتماد گلے کی ہڈی بنتی جارہی ہے ،اپوزیشن تحریک عدم اعتماد لانا چاہتی ہے ،مگر ڈر بھی رہی ہے کہ کہیں مقتدر قوتیں بروقت دوسرے پیج پر نہ چلی جائیں ،اس لیے خدشات کا شکار ہیںاور اچھی طرح جانتی ہیں کہ مقتدر قوتوں کی اشیرباد کے بغیر تحریک عدم اعتماد کبھی کا میاب نہیں ہو گی ،دوسری جانب وزیراعظم اور انکی ٹیم مطمٗین ہے کہ سب ایک پیج پر ہیں،
اس لیے حزب اختلاف کے دعوئوں کے توڑ کیلئے پوری طرح مستعد اور فعال دکھائی دیتے ہیں، وزیراعظم جہاںمسلم لیگ (ق) قیادت سمیت دیگر اتحادیوں سے ملاقاتیں کررہے ہیں،وہیں انہوں نے اپنے ناراض ساتھی جہانگیر ترین سے بھی فون پر رابطہ کیا ہے،حکومت اور اپوزیشن تحریک عد اعتماد کو لے کر انتہائی سنجیدہ دکھائی دیتے ہیں ،کیو نکہ دونوں ہی اچھی طرح جانتے ہیں کہ ناکامی کی صورت میں بہت زیادہ سیاسی نقصان ہو نے والا ہے۔
اپوزیشن بخوبی احساس رکھتی ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد ناکام ہو گی تو حکومت بہت زیادہ طاقتور ہو کر اُبھرے گی ،بلکہ آئندہ انتخابات میں کا میابی بھی یقینی بنالے گی ، اپوزیشن کیلئے مرنے مارنے کی پوزیشن ہے ،اس کے باوجود اپوزیشن جماعتوں کی اندرون خانہ اپنے مفادات کی کشمکش جاری ہے، مسلم لیگ (ن )لیگ تحریک کی کامیابی کے بعد الیکشن کا انعقاد چاہتی ہے، جبکہ اس پرپی پی پی آمادہ نہیں ہے،
وہ آئینی مدت پورا کرنے پر اصرار کررہی ہے ،کیو نکہ وہ سندھ حکومت ایک دن پہلے بھی چھوڑنا نہیں چاہتی ہے،مسلم لیگ( ق )پنجاب کی وزارت اعلیٰ چاہتی ہے ، اس پر(ن) لیگ تیار نہیں ہے ،جبکہ مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ چاہے کہ عبوری حکومت میں ان کے بیٹے کو وزیر اعظم بنا دیا جائے،اپوزیشن قیادت بظاہر اتفاق رائے کی باتیں کرتے ہیں ،مگر اندرون خانہ اختلاف رائے تحریک عدم اعتماد میں بڑی روکاوٹ ہے اور یہ مفاداتی اختلاف رائے ہی عدم اعتماد کی ناکامی کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
اپوزیشن ایک طرف حکومت مخالف تحریک چلارہی ہے تو دوسری جانب تحریک عدم اعتماد کا میاب بنانے کیلئے جوڑتوڑ میںلگی ہے،لیکن اپنے اندر کے اختلاف رائے کا سد باب نہیں کرپا رہی ہے ، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اپوزیشن کی جماعتیں حکومت مخالف پھندے میں بری طرح جکڑ گئی ہیں کہ ان سب کو اپنی گردن چھڑانا مشکل ہو گیاہے،اپوزیشن کو سمجھ نہیں آرہی ہے کہ
اس تحریک اعتماد کے پھندے سے اپنی جان کیسے چھڑائے،اس وقت دہشت گردی کے اتنے زیادہ خطرات ہیںنہ یوکرین جنگ اتنی آگے بڑھتی نظر آرہی ہے کہ اس کے بہانے تحریک عدم اعتماد ملتوی یا موخر کرد ی جائے، اس لیے ایک عا م تاثر دیکھنے میں آرہا ہے کہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہو سکے گی
اور اگراپنی سبکی بچانے کیلئے پیش ہو بھی گئی تو ناکام ہو جائے گی ، اپوزیشن جماعتیں کے پاس ایک بار پھر اپنا وہی پرانا راگ آلاپنے کیلے ہو گا کہ ہمارے ارکان کے پاس نامعلوم خفیہ فون کالیں آرہی تھیں اور عین وقت پر خلائی مخلوق متحرک ہو گئی تھی، حالانکہ یہ بات واضح طور پر سامنے آچکی ہے کہ مقتدر قوتیں سیاسی کھیل میں بالکل غیر جانبدار ہیں۔بلا شبہ حکومت کیخلاف کسی بھی نوعیت کی احتجاجی تحریک چلانا یا تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا جمہوری اور آئینی حق ہے،
مگر اس تمام کد و کائوش میں آئینی اور قانونی حدود قیود کو ضرور پیش نظر رکھا جانا چاہئے،اپوزیشن کی جانب سے جمہوری نظام کو نقصان پہنچائے بغیر متعینہ اہداف تک پہنچنے میں کسی کو اعتراض نہیں ،مگر اپنے مفاداتی اہداف کے حصول میں ایسے غیر جمہوری رویئے اپنائے جارہے ہیں
کہ جو جمہوریت کیلئے خطرے کا باعث بن سکتے ہیں ، حکومت اور اپوزیشن کیلئے لازم ہے کہ کوئی غیرجمہوری‘ غیرآئینی اور غیرقانونی راستہ اختیار نہ کرے،ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا ، کوئی تیسرا سب کچھ لے جائے گا اور یہ دونوں عدم اعتماد کی خالی ہنڈیا کے ساتھ اپنے خالی ہاتھ ملتے رہ جائیں گے