ایک نیاء میثاق جمہوریت 124

دہشت گردی کے مرکزکا خاتمہ ضروری !

دہشت گردی کے مرکزکا خاتمہ ضروری !

تحریر :شاہد ندیم احمد
ملک میں ایک بار پھر دہشت گردی کی لہر سر اُٹھانے لگی ہے اور اس کا خصوصی طور پر سر حدی علاقے نشانہ بن رہے ہیں ،گزشتہ روز پشاور کے تاریخی قصہ خوزنی بازار کی جامع مسجد میں میں ہونے والا المناک وقوعہ بھی بیرونی دہشتگردی کی ایک کڑی ہے، اس دہشتگردانہ کاروائی کی تاحال کسی تنظیم نے ذمہ داری قبول نہیں کی ہے، تاہم انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اندازہ ہے

کہ ایسی سفاکانہ کارروائی کے پیچھے کون ہو سکتا ہے،اس دہشت گردانہ کاروائی میںایک خاص مسلک کی عبات گاہ کو نشانہ بنایا گیا ہے ،اس حملے کا مقصدان افراد کو مشتعل کرنا اور احتجاج پر مجبور کرنا بھی ہو سکتا ہے،اس نوع کی کارروائیاں اتحاد بین المسلمین کی فضا کو آلودہ کرسکتی ہیں،اس دھماکے کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایک طرف دہشت گردوں کی کمر توڑنے والے بیانئے کو ناکام ثابت کیا جارہاہے ،

تو دوسری جانب افغان سر زمین کو پا کستان کے خلاف استعما ل کرکے طالبان مواقف کی بھی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جارہی ہے۔اس میں شک نہیں کہ افغا نستان سے امریکی انخلا کے بعد پاکستان میں انتشار اور دہشت گردی کی خواہاں ملک دشمن طاقتوں کو بڑی حد تک اپنے ٹھکانے چھوڑنا پڑے ہیں،پا کستان حکومت کی بھی کوشش رہی ہے کہ ملک مخالف قوتوں کے آلہ کار بننے والے ناراض لوگوں کو واپس ا پنے دھارے میں لایا جائے ،

اس مقصد کے تحت تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ پاکستان حکومت نے امن معاہدے پر آمادگی ظاہر کی تھی ،لیکن اس امن کی خواہش کو ٹی ٹی پی ریاست کی کمزوری سمجھ بیٹھی اور یہ معاملات ایک ماہ کی عبوری فائر بندی کے بعد مزید آگے نہ بڑھ سکے ،اس کے بعد سے پاکستانی حکومت نے سختی سے ملک مخالف عناصر کوکچلنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پا کستانی حکومت کے سخت فیصلے کے بعد سے ٹی ٹی پی اور بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے مابین دوبارہ رابطے بڑھنے لگے ہیں،

اس رابطوں کا نتیجہ ہے کہ پا کستان کے سر حدی علاقوں میں دوبارہ دہشت گردانہ کارئیوں میں اٖضافہ ہواہے ،دہشتگردی کے ایسے خطرات سے بچائو کی موثر حکمت عملی یہی ہو سکتی ہے کہ دہشتگرد جہاں سے پنپ رہے ہیں ،وہیں پر انکا مکمل طور پرخاتمہ کردیا جائے ،اس کیلئے افغانستان حکومت کو پا کستان کا ساتھ دینا ہو گا ،یہ افغان حکومت کی علاقائی کے ساتھ اخلاقی ذمہ داری بھی بنتی ہے

کہ پا کستانی حکومت کا ساتھ دیا جائے ،کیو نکہ افغان طالبان نے برسر اقتدار آنے پر عہدکیا تھا کہ افغان سر زمین پا کستان کے خلاف استعمال نہیں ہو گی ،مگر افغان سر زمین مسلسل پا کستان کے خلاف دہشت گرانہ کار وائیوں کیلئے استعمال ہو رہی ہے۔
یہ امر کسی سے پو شیدہ نہیں ہے کہ پا کستان ہمیشہ سے خطے میں قیام امن کیلئے افغان حکومت کی مدد کرتا چلا آرہا ہے ،افغان حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر نا چاہئے اور اگر انہیں احساس نہیں تو پا کستانی حکومت کو باور کروانا چاہئے کہ طالبان نے ہی کا لعدم ٹی ٹی پی کی پا کستان حکومت سے باچیت کرواتے وقت انہیں دہشتگرانہ کاروائیوں سے دورکھنے کی نہ صرف ہامی بھری تھی ،

بلکہ یقین دھانی بھی کروائی تھی ،مگر عملی طور پر ٹی ٹی پی کے حملوں میں اضافہ ثابت کررہا ہے کہ وہ ماضی کی نسبت زیادہ بے دھرک ہو چکے ہیں ،ہمیں ان معاملات پر طالبان کے ساتھ انگیج ہونے کے ساتھ اپنے طور پر بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔اس وقت ملک میں ہونے والے پے در پے دہشت گردی کے واقعات نے بیرونی مداخلت کے ساتھ اندرونی سیکورٹی کے کمزور پہلوں کا پول کھول کررکھ دیا ہے ،پا کستان میں دہشت گردی کے پیچھے ایک طرف بھارتی سر پرستی کار فرما ہے

تو دوسری جانب اندرون ملک مخالف عناصر کو استعمال کیا جارہا ہے ،حکومت کو ان دہشت گردی کے واقعات کے پس پردہ حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد ایسی واضح پالیسی اختیار کرنے کی ضرورت ہے کہ جس کے تحت سیکورٹی معاملات بہتر بنانے کے ساتھ بیرونی در اندازی کاقلع قمع کیا جا سکے، حکومت اور سیکورٹی معاملات سے نمٹنے والے اداروں کو سنجیدگی سے طے کرنا ہوگا

کہ کیا طالبان کو مسلسل پاکستان سر زمین کو نشانہ بنانے اور اس کے شہریوں کو ہلاک کرنے کا حق دیا جاتا ر ہے گا،کیا طالبان حکومت کے لئے پاکستان کی سفارتی بھاگ دوڑ کا یہی بدلہ دیا جارہا ہے کہ افغان سر زمین پا کستان میں دہشت گردی کیلئے استعمال ہو رہی ہے ؟ہمیںسوچنا ہوگا کہ کیا طالبان کے طرز عمل پر خاموشی اور مفاہمانہ رویہ ہی مسئلہ کا حل ہے یا اب وقت آگیا ہے کہ کابل کو متنبہ کیا جائے

کہ اب بہت ہوچکاہے ؟پا کستان میں دہشتگردی، تخریب کاری اور عام شہریوں کو ہلاک کرنے کی کسی کو بھی مزید اجازت نہیں دی جاسکتی، اس ضمن میںوزیر اعظم کا کہنا بجا ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ دہشت گردی کہاں سے آرہی ہے ، تاہم اس دہشت گردی کے مرکز کا صرف جننا ہی ضروری نہیں،بلکہ اس کا پوری طاقت سے خاتمہ بھی انتہائی ضروری ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں