46

سیاست میںعدم اعتماد کا جوڑتوڑ !

سیاست میںعدم اعتماد کا جوڑتوڑ !

تحریر :شاہد ندیم احمد

اپوزیشن کی جانب سے تحریکِ عدم اعتماد جمع کرائے جانے کے بعد حسبِ توقع حکومتی اور اپوزیشن حلقے زیادہ متحرک نظر آرہے ہیں،سیاسی قائدین میں رابطوں، دعوئوں، مشوروں، بیانات کا ایک سلسلہ جاری ہے ،جبکہ پارلیمان میں نمبر گیم کے حوالے سے اپنی فتح کے دعوے کارکنوں کے حوصلے بلند کرنے کا ذریعہ ہونے کے علاوہ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کے عزم کی نشاندہی کرتے ہیں،اپوزیشن اور حکومت کی

جانب سے ارکان پا رلیمان کی جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے ،فریقین ایک دوسرے کو ناکام بنانے کیلئے تمام حدود پار کررہے ہیں،اس تحریک عدم اعتمادکا نتیجہ کچھ بھی نکلے ،فریقین کو بہر طور مد نظر رکھناچاہیے کہ جمہوریت چلتی رہے ،اگر سیاسی قائدین کی محاذ آرئی کے باعث جمہوریت ایک بار پھر اپنی پٹری سے اُتر گئی تو کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔اس میں شک نہیں کہ تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اپوزیشن کا آئینی حق ہے، جبکہ اس کا دفاع کرنا حزب اقتدار کا آئینی استحقاق ہے، یوں یہ معاملہ

اس حد تک قانونی اور جائز ہے کہ دونوں فریق اپنے اراکین کی تعداد ظاہر کر کے اپنے جمہوری کردار کا تعین کر سکتے ہیں،جمہوریت کی خوش کن صورت حال اس وقت تک برقرار رہتی ہے کہ جب حزب اقتدار اور حزب اختلاف دونوں ہی آئین کی پاسداری کرتے ہوئے جمہوری روایات کی پاسداری کرتے رہیں ،اگرجمہوریت کے علمبر دارہی اپنے مقاصد کے حصول میں جمہوری روایات کی دھجیاں اُڑائیں گے

توجمہوریت کا برقرار رہنا مشکل ہو جائے گا، اپوزیشن سیاست کرتے وقت جہاںملکی مفاد کو پیش نظر رکھے ،وہیں عوام بھی جمہوری عمل کو پٹڑی سے اتارنے والوں سے ہوشیار رہیں، کیو نکہ سیاسی قوتیں ہی جب اپنے فرائض سے کوتاہی کا ارتکاب کرتی ہیں تو پھرجمہوریت کیلئے خطرے مزیدبڑھ جاتے ہیں۔
اس ملک کی سیاسی تاریخ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے ،یہاںپر سیاسی حکومتیں فطری طریقے سے اپنی آئینی مدت پوری نہیں کرتی رہی ہیں،نوے کے عشرے میں پی پی اور مسلم لیگ (ن) ایک دوسرے کی حکومت گرانے کے لئے اتحاد بناتی اور جوڑ توڑ کرتی رہی ہیں،اس دور اقتدار میں ہی ہارس ٹریڈنگ کا عفریت سامنے آیا، چھانگا مانگا میں مخالف پارٹی کے منحرف ارکان کو چھپا کر رکھا گیا،

مری میں دوسری پارٹی نے ایسا ہی کیمپ لگا لیا اوراراکان پا رلیمان کی سرعام خرید و فروخت کرکے جمہوریت کا قتل کیا گیا اور آج بھی اسی روایتکو دہرانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں ہی جمہوریت کے قتل میں ملوث رہی ہیں،اس روش کی مذمت کی گئی نہ عوام سے عہد کیا گیا کہ آئندہ ایسے جرم کا ارتکاب نہیں کیا جائے گا،سیاسی قائدین کی جانب سے زبانی کلامی ضرور کہا جاتا رہا ہے کہ ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائیں گے ،

مگر عملی طور پر آج بھی وہی غلطیاں دانستہ طورپر دہرائی جارہی ہیں، سینٹ الیکشن میں ووٹوں کی خرید و فروخت اور اب تحریک عدم اعتماد کیلئے ارکان پارلیمان کی ہارس ٹریڈنگ کی خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاسی رہنما ماضی سے سبق سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں،ایک بار پھر ارکان پارلیمان کے جوڑ توڑ کے

ساتھ عساکرے پا کستان کو بھی زبردستی سیاست میں ملوث کیا جارہا ہے۔اس وقت ملک کی سلامتی کو درپیش اندرونی و بیرونی چیلنجوں کے تناظر میں حکومت اور اپوزیش کو اپنے سیاسی ایجنڈے میں عساکر پاکستان کی معاونت حاصل ہونے کا تاثر نہیں دینا چاہیے ،ترجمان عساکر پا کستان بار ہا واضح کر چکے ہیں

کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ،اس کے باوجود سیاسی قیادت اپنے مقاصد کے حصول کیلئے فوج کو سیاست میں الجھانے سے بازنہیں آرہی ہے اور تحریک عد اعتماد میں بھی عساکر پا کستان کو گھسیٹا جارہا ہے ،جبکہ اس تحریک
عد م اعتماد سے آئین کے تقاضے کے تحت ہی عہدہ براہونا چاہئے ۔تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اپوزیشن اور حکومت نے اپنی اکثریت دکھانی ہے ،اپوزیشن پارلیمان میں ارکان پارلیمان کی بجائے رضا کاروں کے جتھوں سے کا میاب ہو سکتی ہے نہ حکومت زور زبر دستی سے ارکان پارلیمان کو روک کر تحریک عدم اعتماد ناکام بناسکتی ہے ،اس کیلئے حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی ملکی

و قومی سلامتی کے تقاضوں کے مد نظر دوراندیشی اور فہم و ادراک کا مظاہرہ کرنا ہو گا ، اگر حکومت اور اپوزیشن کے مابین جاری چپقلش اور محاذآرائی سے سیاسی فضا مزید مکدر ہوتی ہے تو پھر انکی باہمی کھنیچا تانی ماضی جیسے کسی ماورائے آئین اقدام کے ذریعے جمہوریت کا مردہ خراب کرنے پر منتج ہو سکتی ہے ، اس ممکنہ صورتحال سے جمہوریت کوبچانا حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ہی ذمہ داری ہے،

حکومت اور اپوزیشن تحریک عدم اعتماد پر اپنے اپنے نتائج کے حصول کیلئے پورا زور لگائے، مگر سیاست میں عدم اعتماد کا جوڑ توڑ نہیں کرنا چاہے،سیاسی قیادت کا کوئی بھی غیر جمہوری فیصلہ یا اقدام جمہوریت کو ٹریک سے اتارنے کا باعث بن سکتا ہے ،اس وقت سیاسی قائدین کو جتنی انتشار سے گریز کرنے کی ضرورت ہے ،شاید پہلے کبھی نہ تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں