50

کرناٹک حجاب متنازع عدلیہ فیصلہ، کیا مسلم قوم کو قبول کرنا چاہئے؟

کرناٹک حجاب متنازع عدلیہ فیصلہ، کیا مسلم قوم کو قبول کرنا چاہئے؟ 

نقاش نائطی
۔ +9665677707
2022 پانچ ریاستی انتخابات جیتنے کا بی جے پی کا راز

‏گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے
جسٹس زیب النساء ایم قاضی
کرناٹک حجاب معاملہ میں فیصلہ سنانے والے تین ججوں پر مشتمل بنچ میں ایک مسلم خاتون بھی شامل تھیں۔ اللہ ہدایت دے انکا نام ہے قاضی ایم زیب النساء یے
گھر کو لگی آگ گھر کے چراغ سے

اس سے زیادہ مذاق اور کیا ہوگا اپنی اولاد کے ساتھ کہ انھیں صحیح معنوں قرآن و احادیث کی تعلیم نہ دی جائے۔ صحیح معنوں اس لئے کہ پیشتہ وکالت میں “محمڈن لا” کےنام سے اتنا علم قرآن و دین اسلام، انہیں سکھایا جاتا ہے کہ جتنا ہم عام مسلمانوں کی تین چوتھائی اکثریت،اتنا علم دین نہیں رکھتی ہے۔ لیکن علم کا رکھنا اہم ہوتا تو کوئی ہمیں بتائے اللہ کی طرف سے، اپنے انبیاء کرام کو ودیعت کردہ علم سے پرے،علوم عصرحاضر ہوکہ علوم دین اسلام، کیا کوئی انسان، ابلیس رجیم سے زیادہ علم و فراست و منطق سے بہرور ہوسکتا ہے؟

علم کا جاننا اور اس کے اصل اقدار کے مطابق اس کی آگہی و عمل پیرائی الگ ہی بات ہوتی ہے۔ اور رہی بات اس مادی دنیا میں ہمارے درمیان جہاں صاحب ریش بھی، چند ٹکوں میں بکتے پائے جاتے ہوں یا سنگھیوں کے ہاتھوں یرغمال بنتے، ان کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے، ان سے اپنی مرضی کےکام نکلوائے پائے جاتے ہوں، ایسے میں، 2025 یوم تاسیس آرایس ایس صد سالہ تقریبات کے وقت، ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر آثاث، اس چمنستان بھارت کو ھندو راشٹر میں بدلتے پس منظر میں، شروع میں مسلم طالبات ہی کو مدارس پہناوا اقدار (ڈریس کوڈ) کے بہانے، بے حجاب کرنے،

رام مندر کیس فیصلے بعد جسٹس گوگوئی کو راجیہ سبھا تمکنت مقام پر براجمان کئے جیسے، مستقبل میں کسی بڑے ترقی پزیری لالچ کے ساتھ، انہیں استعمال کیا گیا ہو۔ اس لئے مسلم دشمنی سازش میں استعمال ہونے والے مہروں کے بجائے، 2025 ممکنہ ھندو راشٹریہ بنائے جاتے تناظر میں ہم 30 کروڑ بھارت واسی مسلمانون کو اپنے دین اسلام کے ایمان واقدار ہی ساتھ بھارت کے اس وقت کے ملکی قانون کے تحت کتنی کچھ قربانی دینی پڑیگی اس پر تدبر و تفکر کرتے ہوئے، اہل علم و فہم و ادراک و بصیرت، مسلم زعماء و علماء قوم کو اپنے مستقبل کے بارے میں لاحیہ عمل ترتیب دینا ہوگا

موجودہ سنگھی مودی یوگی حکومت، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت کےآزاد سمجھے جانے والے عدلیہ و انتخاب کمیشن کو یرغمال بنائے، جس اقسام کی انہونی کو ہوتا ہواعملا کربتا رہی ہے،چاہے وہ 500 سالہ ملکیتی کاغذات و پوزیشن والی بابری مسجد کو قاتل بابری مسجد کے ہاتھوں دئیے جانے والا تاریخی فیصلہ ہو،

یا نساء حجاب کے، قرآن و حدیث اقدار کے خلاف اب آیا عدلیہ فیصلہ ہو، یہ سب سو سالہ آرایس ایس بی جے پی کی، اپنے یوم تاسیس متجوزہ صد سالہ تقریبات 2025 کے موقع پر،ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث کو ختم کئے، عالم کی سب سے بڑی جمہوریت کو ھندو راشٹر میں تبدیل کئے جانے کی بہت بڑی سازش کے حصہ کے طور دیکھا جاتا چاہئیے

کرناٹک ہائی کورٹ فیصلے کے خلاف اپنا غم و غصہ ظاہر کرتے نارتھ کینرا کرناٹک کے بھٹکل میں 15 مارچ ایک دن پورا بازار بند رکھا گیا تھا اب تو کرناٹک مسلمانوں کے سب سے محترم شخصیت امیر شریعت نے کرناٹک کے مختلف مکتی فکر سے تعلق رکھنے والے تمام مسلم مرد و نساء اداروں انجمنوں مدرسوں کی طرف سے 17 مارچ بروز جمعرات ایک روزہ پرامن بند مناتے ہوئے، کرناٹک ہائی کورٹ کے حالیہ حجاب فیصلہ سے نااتفاقی ناراضی کا برملا اظہار کیا ہے، کرناٹک کے مسلمانوں سے نہ صرف اظہار یکجہتی کے لئے،بلکہ کرناٹک کے بعد دیگر سنگھی حکومتی ریاستوں میں، یکے بعد دیگرے،

اسلام مخالف فیصلے نادر کئے جانے سے قبل، ہم بھارت کی سب سے بڑی مسلم اقلیت 20 فیصد آبادی تناسب والے 30 کروڑ ہم مسلمانوں کو، کسی بھی صورت ہمارے اسلامی اقدار کے خلاف کوئی بھی حکم چاہے وہ عدالت ارضی کا حکم ہی کیوں نہ ہو، ہم مسلمانوں کو قبول نہیں ہے،یہ بی جی پی مودی حکومت پر واشگاف انداز درشانے کے لئے، ملک گیر سطح پر نہ طرف یک روزہ بند منایا جانا چاہئیے بلکہ عدلیہ عالیہ کو کرناٹک ہائی کورٹ ،حجاب متنازع فیصلہ رد کرنے، ملک گیر سطح احتجاج شروع کر اپنا غم و غصہ قبل از وقت بتانا چاہئیے

اسی لئے بھارت کی ھندو اکثریت مودی یوگی کی وناش کاری پالیسیوں سے تباہ و برباد ہوتی بھارت کی معشیت و خارجہ پالیسی باوجود، صرف اور صرف عالم کے نقشہ پرمعرض وجود ہونے والے، اکلوتے ھندو راشٹر کا خواب شرمندہ تعبیر ہوتے پس منظرمیں، ہم مسلمانوں پر کہ، عام بھارت واسیوں پر ہونے والے ہر ظلم وستم، تکلیف و پریشان کو برداشت کرتے ہم پاتے ہیں۔ تعجب ہوتا ہے جیسا کہ اپنے بکاؤ میڈیا کے ذریعہ یا لائیو ٹی وی شو پر تبادلہ خیال کرتے یا گفت و شنید میں حصہ لیتے،

ذہین وفہیم سمجھے جانے والے افراد کے توسط ہی سے، دلت برادری کے ووٹ ہی سے بی جے پی، یوپی اقتدار میں واپس آئی ہے یہ، نا سمجھےجانے والے یوپی انتخابی نتائج نظریہ،ہمیں قبول کرنے مجبور کرتے پس منظرمیں، کیا دلت برادری کو متجوزہ منو اسمرتی والے ھندو راشٹر یاکہ رام راجیہ میں ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے بھید بھاؤ چھوت چھات ظلم عظیم کو، وہ اپنے مستقبل کے لئے قبول بھی کررہے ہیں؟ یا ای وی ایم جن کی مدد جیتے انتخاب کو، ناراض برہمن اور دلت ووٹوں سے جیتے بتائے، 138 کروڑ بھارت واسیوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے، اور ہم علم عصر حاضر رکھنے والے،

عقل و فہم و ادراک سے بھرپور لاکھوں کروڑوں سول سوسائیٹی افراد، جانتے بوجھتے ان سنگھیوں کےووٹ جھوٹ کو، تسلیم کرتے 2024 بھی اسی ای وی ایم ووٹوں ہی کے بل جیتتے ھندو راشٹریہ بنائے کے لئے، جانے انجانے ان کی مدد کررہے ہوتے ہیں؟ یوپی حالیہ انتخاب میں اکلیش والی پارٹی سپھا امیدوار پوجا شکلا کا یہ پریس ریلیز الزام کے،بعد انتخاب 8 دن تک، اسٹرونگ روم میں بند رکھے تمام تر ای وی ایم، ووٹ گنتی والے دن کیسے صد فی صد چارج رہے؟ کیا ووٹ گنتی والی رات مقفل رکھے اسٹرونگ روم میں،انہیں چارجنگ میں لگائے،ان سے چھیڑ کر نتائج بدلے گئے تھے؟ پھر کیسے یہ ہوسکتا ہے

کہ سولہویں راؤنڈ تک بدستور آگے رہنے والی، اچانک بی جے پی ذمہ داروں کے ووٹ گنتی مرکز میں آتے ہی، ووٹ گنتی کچھ وقتی بندرکھے دوبارہ گنتی شروع ہونے کے بعد، وہ سترھویں راؤنڈ گنتی بعد ایسے پچھڑ جاتی ہیں کہ انہیں شکشت فاش نصیب ہوجاتی ہے؟ ہر طرف سے انتخابی دھاندلیوں کی خبر آتے، انہیں درکنار کر، ای وی چھیڑ موضوع پر سکوت اختیار کرنا، ہزاروں سالہ گنگا جمنی مختلف المذہبی سیکیولر اثاث بھارت کو ھندو راشٹر میں بدلتے تناظر میں، جانے انجانے میں

، ہم سیکیولر ذہن بھارت واسیوں کے، ان سنگھیوں کی مدد کئے جیسا ہمارا عمل ہوسکتا ہے۔ اسلئے سپھا، بھاسپا، جنتا دل، لوک دل سمیت کانگرئس نیشنل کانگریس جیسی نام نہاد سیکیولر پارٹیوں کو، مل بیٹھ کر،، ہزاروں سالا گنگا جمنی سیکیولر اثاث ملک، چمنستان بھارت کے سیکیولر دستور و سیکیولر اثاث کو بچانے، ای وی ایم طرز انتخاب کے خلاف اجتماعی احتجاج شروع کرنا ہوگا۔وما علینا الا البلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں