سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 33

سیاست میں بکھرتے ترپ کے پتے !

سیاست میں بکھرتے ترپ کے پتے !

تحریر :شاہد ندیم احمد

تحریک عد اعتماد پیش کئے جانے کے پہلے روز سے ہی سیاسی کشیدگی عروج تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جارہی ہے، ایک دوسرے کو ایسے ایسے القابات سے نوازا جارہا ہے اور ایسی ایسی دھمکیاں سننے میں آرہی ہیں کہ جن کا تصور تک کسی جمہوری معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا، لیکن یہ ساری دھماچوکڑی جمہوریت ہی کے نام پر مچائی جارہی ہے، خاص طور پرسندھ ہائوس اسلام آباد سے

تحریک انصاف کے بارہ باغی ارکان قومی اسمبلی کے منظر عام پر آنے کے بعد حالات تیزی سے نہ صرف بگاڑ کی جانب بڑھنے لگے ہیں،بلکہ سیاست میں چھاتیوں سے لگائے ترپ کے پتے بھی بکھرنے لگے ہیں۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ عام انتخابات سے عدم اعتماد تک ارکان پارلیمان اپنی وفاداریاں بدلتے آئے ہیں ،اس بار بھی سر عام ضمیر کی آواز پر وفاداری بدلنے کے اعلانات کیے جارہے ہیں،

وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی جانب سے بھی حزب اختلاف پر ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کے الزامات عائد کئے گئے ہیں، تاہم مسلم لیگ(ق) کے سربراہ چودھری شجاعت حسین نے الزام کو بے بنیاد قرار دیا ہے اور خود باغی ارکان نے بھی بھاری رقوم کے عوض اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے الزامات کی تردید کی ہے اور حکومت سے اپنے گلوں شکووں اور خصوصاً ’’ضمیر‘‘ کی بیداری کو وفاداری تبدیل کرنے کا سبب بتایا جا رہاہے۔
سیاست میں بدلتی صورت حال کے بعد حالات نے جو پلٹا کھایا ہے، اس نے حکومتی وزراء کو بڑی حدتک بوکھلا دیا ہے، کیونکہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے، حزب اختلاف کے اپنے ارکان کی تعداد63 1 ہے، راجا ریاض کے چوبیس ارکان کے دعوے کو درست نہ بھی تسلیم کیا جائے

،تب بھی بارہ ارکان کھل کر اپنی جماعت سے بغاوت کا اعلان کر ہی چکے ہیں، اگر انہیں شامل کیا جائے تو حزب اختلاف کے حامیوں کی تعداد 175 تک پہنچ جاتی ہے، حکومتی اتحادی بھی کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کر تے ہوئے حکومت کی حمایت سے دست بردارہونے کا واضح تاثر دے رہے ہیں،اس کے باعث حکومتی وزراء گھبرائے نظر آتے ہیں۔
حکومتی وزراء کی گھبراہٹ اور بوکھلاہٹ بلا جواز نہیں ہے، اس کے باعث ہی وفاقی وزیر داخلہ شیخ نے وزیر اعظم کو سندھ میں گورنر راج لگانے کی سفارش کر دی ہے،جبکہ کابینہ کے ارکان کی جانب سے تجویز کی مخالفت کی گئی ہے

،سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی شیخ رشیدکی سفارش پر اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کا انتباہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے عوام ایسے کسی بھی اقدام کا ایسا جواب دیں گے کہ جس کی مثال نہیں ملے گی، حکومت کا ایسا کوئی بھی اقدام غیر آئینی ہو گا کہ جسے کسی صورت قبول نہیں کیا جائے گا۔
اس تلخ ماحول میں حکومتی وزراء نے باغی ارکان کے خلاف کارروائی کرنے اور آخری دم تک مقابلہ کرنے کا عندیہ دیا ہے، وزیر اعظم پہلے ہی ستائیس مارچ کو اسلام آباد کے ڈی چوک میں عظیم الشان اجتماع ا اعلان کر چکے ہیں ،پی ٹی آئی چیلنج دیے رہی ہے کہ دیکھیں گے کہ عوام کے سیلاب میں سے گزر کر پارٹی ارکان کیسے تحریک عدم اعتماد کے حق میں رائے دیتے ہیں،جبکہ دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعتوں نے بھی اپنے کارکنوں کو 25 مارچ کو اسلام آباد پہنچنے کی ہدایت دے دی ہے ،

دونوں جانب سے طاقت کے بھر پور مظاہرے اور عوام کو سڑکوں پر جمع کر کے باہم متصادم ہونے کا ہر ممکن سامان کیا جا رہا ہے۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جمہوریت کے علمبر دار خودہی جمہوریت کو گہری کھائی میں دھکیلنے کا بندوبست کررہے ہیں، حکومت اور حزب اختلاف کو ہوش کے ناخن لیتے ہوئے جمہوری مفاد میںاپنے اجتماع اور احتجاج کی منسوخی کا اعلان کرنا چاہئے، تاکہ حالات کو مزید بگاڑ کی جانب بڑھنے سے بچایا جا سکے

،تحریک عدم اعتماد جمہوری روایات کا حصہ ہے، اس سے جمہوری انداز ہی میں نمٹا جانا ہی بہتر ہو گا ،ورنہ کسی کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔اس وقت سیاست کا جھکڑ پورے زور کے ساتھ حکومت کے خلاف چل رہاہے،اس جھکڑ کو ترپ کے پتوں اور عوامی جلسے جلوسوں سے ناکام نہیں بنایا جا سکتا،وزیراعظم کے مشیروں نے تحریک عدم اعتماد کے بعد جلسوں کی حکمت عملی اختیار کرنے کا مشورہ دے کر کپتان کے شوقِ خطاب کی

تسکین کا تو اہتمام کر دیاہے،مگروزیر اعظم پر واضح نہیں کیا ہے کہ ان کے جلسوں میں شرک بڑی تعداد اد پر منحرفین کی قلیل تعدادبھاری ہے، حکومت کے سارے ترپ کے پتے بکھرنے لگے ہیں،اس لیے جلسوں کی بجائے ناراض ارکین واپس لانے کا بندوبست کرنا چاہے، ورنہ وہ اشاروں کے اسیر حکومت کا دھڑن تختہ کر نے میں دیر نہیں لگائیں گے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں