36

کرناٹک مسلم طالبات حجاب متنازع فیصلہ

کرناٹک مسلم طالبات حجاب متنازع فیصلہ

نقاش نائطی
۔ +96656267707

سپریم کورٹ بار ایسوسئیشن،سابق صدر و سینیر ایڈوکیٹ کا کرناٹک ہائی کورٹ حجاب متنازع فیصلہ پر، بے لاگ تبصرہ کرناٹک ہائی کورٹ مسلم طلبہ حجاب فیصلے پر،دی وائر میڈیا ہاؤس، سینیر جرنلسٹ،جناب کرن تھاپر کے ساتھ، انٹرویو دیتے ہوئے،جناب دشیانت دوے، سینئر ایڈوکیٹ اورسپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر، تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “کسی بھی جج کو کسی بھی متنازع موضوع پر،

کافی وقت سے چلے آرہے معمولات سے پرے، کوئی بھی معرکتہ الآراء فیصلہ سنانے سے پہلے، دو باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اولا جس موضوع پر فیصلہ سنایا جانے والا ہے اس موضوع پر،اس سے منسلک عوام کے، مذہبی عوامل کیا کہتے ہیں؟ اور اس موضوع سے عوام کے جذبات کتنے پختہ ہیں؟

اور اس موضوع پر، عمل پزیری سے، معاشرے پر پڑنےوالے منفی اثرات، کتنے گہرے ہیں، اگر ان باتوں کا خیال رکھتے ہوئے، کوئی فیصلہ سنایا جائے تو اسے قبول کرنے یا کرانے میں آسانی پیدا ہوسکتی ہے”

“کرناٹک مسلم طالبات حجاب تنازع پرکیا کرناٹک ہائی کورٹ ججز نےدونوں فریق کے دلائل کو سنتے ہوئے،اس موضوع پر اپنا فیصلہ صادر کرنے سے قبل، ان آصولی باتوں کا خیال بھی رکھا تھا؟ اگر اس پر سنجیدگی سے دیکھتے ہیں تو ہمیں لگتا ہے، مسلم طالبات حجاب مسئلہ پر فیصلہ صادر کرتے ہوئے، کرناٹک ہائی کورٹ جج صاحبان سے، اس حجاب موضوع پر،عوامی رجحان اور اس پر انکے مذہبی اثرات کو سمجھنے میں ایک حد تک تساہلی یا کوتاہی ہوئی ہے”

کرناٹک ہائی کورٹ ججز نے، مسلم طالبات حجاب کو، عملی مذہب اسلام کا حصہ نہ مانتے ہوئے، حکومتی دائرے میں کسی بھی تعلیمی ادارےکےوضع کئے ڈریس کوڈ کو ہی ماننا ضروری قرار دے، اپنا متنازع فیصلہ جو سنایا ہے،اس سمت یہ دیکھنا ضروری ہے کہ آیا کہ، کسی بھی معاشرے میں، موجود مختلف المذہب سماج،کیا اپنے اپنے مذہبی اقدار پرعمل پیرا ہیں؟ اور کیا صرف ان کے ان مذہبی اقدار پر عمل پیرا رہنے یا نہ رہنے سے, اسے مذہبی اقدار کا حصہ مانے سے ہی انکار کیا جانا، صحیح بھی ہے؟

اس سمت تمثیلا عرض ہے کہ ناگا سادھو یا جین مڈہب کا ایک فرقہ، بے لباس رہنے کو نہ صرف اپنے مذہبی عقیدے مطابق مانتا ہے،بلکہ صدیوں سے، اس پر عمل پیرا رہتا ہوا بھی پایا جاتا ہے،تو کیا ان کے صدیوں سے عمل پیرائی، ایسے نازیبا برہنہ رہنے کو، مہذب معاشرہ قبول بھی کریگا؟ اور صرف اسلئے کہ کسی مذہبی اکثریت میں، کسی خاص مذہبی معاملے پر، مذہبی عمل پیرائی کوتاہی کے سبب،کسی بھی فرقہ کے مذہبی اقدار کو، سیکیولر بھارتیہ معاشرے میں غیر ضروری قرار دیا جائے گا؟ کیا اس پر غور و تدبر کرنا وقت کی اہم ضرورت نہیں ہے؟

سب سے اہم اس نکتہ کو بھی ملحوظ ضروری ہوتا ہے کہ، کیا معاشرے کے کسی بھی حصہ یا فرقے کے، اپنے مذہبی اقدار عمل آوری سے، کسی دوسرے کے مذہبی جذبات مجروح بھی ہوتے ہیں یا نہیں؟ جیسے گؤماس کھانا، مذہب اسلام کے اقدار کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی، مسلم معاشرے میں صدیوں سے چلا آرہا ایک معاشرتی عمل ہے، لیکن یہی گؤ ماس کھانے کے لئے، گؤماس یا بیف فراہم کرنے، کی جانے والی گؤ کشی،

کسی دوسرے فرقے کے مذہبی اقدار کا حصہ نہ ہوتے ہوئے بھی، صدیوں سے چلے آرہے مذہبی عقیدے کے خلاف ،انکے جذبات مجروح کرتا عمل لگتا ہے، اس لئے حکومت وقت کا گؤ کشی امتناع قانون، اس اعتبار سے صحیح لگتا ہے، لیکن کسی فرقے کے صدیوں سے چلے آرہے مذہبی عقیدے کے خلاف، سرکاری سرپرستی میں گؤ کشی برقرار رکھتے ہوئے، بیرون ملک گؤ ماس یابیف برآمد یا ایکسپورٹ کرنے کی اجازت دیتے

پس منظر میں، موجودہ امتناع گؤ ماس یا بیف کھانے سے، بھارت کی عام عوام کو محروم رکھنا، گؤ کشی قانون ہی پر سوال اٹھانے کی راہ ہموار کرتا ہوا، بی جے پی، آرایس ایس سنگھی مودی کے، ایک خاص فرقہ کو زک پہنچانے لائق، متنازع قانون لگتاہے۔رہا مسلم طالبات حجاب معاملہ، یہ نہ صرف مسلم سماج کے دینی اقدار کا حصہ ہے، بلکہ سناتن ھندو دھرم سمیت تمام آسمانی مذاہب کے اقدار کا اہم حصہ ہوتے ہوئے، ہزاروں سالہ بھارتیہ گنگا جمنی تہذیب کا بھی حصہ ہے۔ اور اپنے مذہبی اقدار کے ساتھ ہی ساتھ،

بابا بھیم راؤامبیڈکر کے ترتیب دئے، آزاد بھارت کے سیکیولر دستور العمل کے تمہید یا پریمبل میں، ہربھارتی کو اپنے مذہبی آزادی کے ساتھ ہی ساتھ،شخصی آزادی کے زمرے کے عین مطابق عمل بھی ہے،اور اپنے مسلم کلچر میں صدیوں سے اپنائے گئے، گھروں میں قید و بند تصور کئے جانے والے پس منظر میں، مسلم اقدار حجاب پہنتے ہوئے، مسلم طالبات کا عصری علوم حاصل کرتے دیکھا جانا ضروری لگتا ہے۔

اور خصوصا” عالمی سازش کے تحت 9/11 امریکی دہشت گردانہ حملے بعد، عالمی سطح پر،جس اسلامو فیوبیہ مرض سے عالم کو دوچار کیا گیا تھا،اس سے باہر آتے ہوئے، عالمی طاقت آمریکہ و روس سمیت، انیک ملکوں میں مسلم نساء حجاب کو، معاشرتی حصہ کے طور تسلیم کئے جاتے پس منظر میں، مسلم طلبہ حجاب کے، کسی بھی منفی اثرات معاشرے پر نہ پڑتے تناظر میں، اسلامی شریعت کی غلط ترجمانی کرتا کرناٹک ہائی کورٹ ابھی آیا حجاب فیصلہ، صرف اور صرف ان سات سالہ سنگھی مودی اور انکے بی جے پی، آرایس ایس مسلم دشمنی، نفرتی حکومتی دباؤکے تحت لیا گیا متنازع فیصلہ لگتا ہے

۔ کرناٹک ہائی کورٹ اس متنازع فیصلے کے خلاف نہ صرف متاثرہ مسلم طالبات دیش کی عدلیہ عالیہ سپریم کورٹ کا دروازہ انصاف کے لئے کھٹکھٹانے کا فیصلہ لے چکے ہیں ، اور چونکہ اس متنازع حجاب فیصلہ سے، پوری 30 کروڑ مسلم برادری کی نصف آبادی بھارتیہ مسلم نساء متاثر ہورہی ہیں، اس لئے بھارت کے

مسلمانوں کی نیابت کرنے والے مرکزی ادارے مسلم پرسنل لاء بورڈ کو بھی، سیکیولر دستور ھند مہارت رکھنے والے،اپنے سینیر وکلاء کی ٹیم کے ساتھ اس کرناٹک مسلم طالبات کے خلاف آئے،اس متنازع حجاب بل کے خلاف، دیش کی عدلیہ عالیہ سپریم کورٹ سے انصاف کو گوہاڑ لگاتے ہوئے، بھارت کے تیس کروڑ مسلمانوں کو اپنے مذہبی اقدار کا پاس و لحاظ رکھنے ہوئے، اعلی عصری علوم سے بہرور ہونے کا برابر موقع دیا جانا چاہئیے۔ وما علینا الا البلاغ

حجاب کیس:- ہائی کورٹ نے SC کے 1954 کےفیصلےکو غلط سمجھا، غلط طریقے سے اس کا اطلاق بھی کیادی وائر کے لیے کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں، سینئر وکیل دشینت دوے نے حجاب کے تنازع پر کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے پر گفتگو کی۔ہندوستان کے سپریم کورٹ کے سب سے زیادہ معزز وکیلوں میں سے ایک نے کہا ہے کہ سوال پر “نام نہاد” لازمی ٹیسٹ کو لاگو کرتے ہوئے، کیا حجاب اسلام کا ایک لازمی حصہ ہے، کرناٹک ہائی کورٹ نے سپریم کورٹ کے 1954 کے شرور مٹ کے فیصلے کو غلط سمجھا ہے (جو ٹیسٹ قائم کیا) اور اس لیے اس ٹیسٹ کو غلط طریقے سے لاگو کیا۔
دشینت ڈیو، جو سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر بھی ہیں، کہتے ہیں کہ 1954 کے فیصلے میں مذہب کی ایک تعریف بھی ہے جو اتنی وسیع اور ہمہ گیر ہے کہ اس میں مختلف قسم کے کھانے اور لباس شامل ہیں جنہیں مومن اپنے عقیدے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ . ان کا کہنا ہے کہ اگر مسلمان لڑکیاں حجاب کو اپنے ایمان کا لازمی جزو سمجھتی ہیں تو ایسا ہے۔ حجاب واضح طور پر 1954 کے فیصلے کی مذہب کی تعریف میں شامل ہے۔دی وائر کے لیے کرن تھاپر کو 28 منٹ کے انٹرویو میں،

ڈیو نے سپریم کورٹ کے 1954 کے شرور مٹ کے فیصلے میں موجود مذہب کی تعریف پڑھ کر سنائی:یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ مذہب ایک نظریہ یا عقیدہ کے سوا کچھ نہیں ہے۔ کوئی مذہب نہ صرف اپنے پیروکاروں کو قبول کرنے کے لیے اخلاقی ضابطوں کا ضابطہ وضع کر سکتا ہے، بلکہ وہ ایسی رسومات اور تقاریب، تقاریب اور عبادت کے طریقے تجویز کر سکتا ہے جن کو مذہب کا لازمی حصہ سمجھا جاتا ہے، اور یہ شکلیں اور تعطیلات ان معاملات تک بھی پھیل سکتی ہیں۔ کھانا اور لباس۔”
ڈیو نے نشاندہی کی کہ اگر کرناٹک ہائی کورٹ نے 1954 کے شرور مٹھ کے فیصلے میں موجود ضروری ٹیسٹ کو لاگو کرنے کی کوشش کی ہے، تو اسے اسی فیصلے میں موجود مذہب کی تعریف کو بھی لاگو کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ فیصلہ سنائے جانے کے تقریباً 70 سالوں کے دوران سپریم کورٹ نے مذہب کی اس تعریف کو بار بار قبول کیا ہے۔وہ اپنے استدلال کی مثال کے طور پر ایک بہت ہی واضح نکتہ پیش کرتے ہیں

اگر سیکولر ہندوستان اپنے سرکاری دفتر میں بھگوا [یا زعفرانی] رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے وزیر اعلی کو قبول کرسکتا ہے تو پھر وہ اسکولوں میں حجاب پہننے والی نوجوان مسلم لڑکیوں کو کیوں قبول نہیں کرسکتا؟حجاب کیس:- ہائی کورٹ نے SC کے 1954 کےفیصلےکو نہ صرف غلط سمجھا، بلکہ غلط طریقے سے اسکا اطلاق بھی کیادیکھئے “اگر مسلمان لڑکیاں حجاب کو ان کے ایمان کا حصہ سمجھتی ہیں تو ججوں کو اسے قبول کرنا چاہئے”

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں