یوم حساب دور نہیں ہے !
تحریر :شاہد ندیم احمد
تحریکِ عدم اعتماد لے کر حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میںکھلبلی مچی ہوئی ہے دونوں دھڑوں سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت دن رات اس مقصد کے حصول میں محو دکھائی دیتے ہیں کہ فریقِ مخالف کو پچھاڑنا کیسے ہے،ایک دوسرے کے خلاف بیانات اور تقریروں میں جو کچھ کہا جارہا ہے، اسے سن کر اندازہ ہوتا ہے کہ قوم جنھیں اپنا قائد سمجھتی ہے ،انہیں ابھی خود تربیت کی انتہائی ضرورت ہے،سیاسی یوم حساب کچھ دور نہیں ہے ،یہ سیاسی طوفان آئندہ چند روز میں تھم ہی جائے گا ،لیکن اس کی وجہ سے معاشرتی سطح پر جو نقصانات ہورہے ہیں،اس کا آزالہ شاید آنے والی کئی دہائیوں میں بھی نہیں ہو پائے گا۔
اس بات کی حکومت اور اپوزیشن کو کوئی پروا نہیں ہے کہ دونوں کی محاذ آرائی میں ملک وقوم کا کتنا نقصان ہو رہا ہے ،تحریک عدم اعتماد کی سیاسی گرد میں عوام کے بڑھتے مسائل دب کر رہ گئے ہیں ، حکومت اوراپوزیشن نے عوام کو مہنگائی بے روز گاری سے نجات دلانے کی بجائے تحریک عدم کے پیچھے لگا دیا ہے،اور خود ایک دوسرے کو گرانے اور اپنی جگہ بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں
،فریقین کی ترجیحات میں عوام کہیں نہیں ہیں ،سیاسی قائدین جب بھی عوام کے مسائل کی طرف متوجہ رہے ہیں تو اشیاء نضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کا رحجان تھا نہ ذخیرہ اندوزی کرنے کی ہمت ہوتی تھی، ہر شے صارفین کی دسترس میں تھی کسی کی کیا مجال کہ کوئی بھی شے مہنگے داموں فروخت کرے،
کیونکہ ادارے اور حکمران متحرک ہوتے تھے اور اپوزیشن اپنا ذمے دارانہ کردار ادا کررہی ہوتی تھی ،لیکن اب اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہش اور ذاتی مفادات کے حصول نے پورے نظام کو ہی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔
اس نظام کو بدلنے کے سب ہی دعوئیدار رہے ہیں ،مگر اقتدار میں آنے کے بعد ہر کوئی اسی نظام کا حصہ بن جاتا ہے ،اس نظام میں کبھی روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ مستانہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا جاتا ہے تو کبھی کشکول توڑنے کے دلاسے پر عوام کو پیچھے لگایا جاتا ہے ،ہمارے حکمرانوں نے کبھی ا ن عوارض کو تلاش کرنے کی کوشش ہی نہیں کی ہے کہ جس کے سبب عوام دن بدن بد حالی کی دلدل میں دہنستے جارہے ہیں
،حکمرانوں نے عام عوام کیلئے تو کچھ نہیں کیا ،مگر اشرافیہ کی خدمت گزاری میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ،اس میں بیورو کریسی مکمل ساتھ دیتے ہوئے اپنی تنخوہوں کے ساتھ مرعات میں اضافہ کرواتی رہی ہے، لیکن ہمارے دانش مند حکمرانوں اور ان کے مصاحبین نے کبھی سوچنے کی کوشش نہیںکی ہے کہ اس طبقہ کی تنخواہوں اور مراعات میں اضا فہ کر کے کبھی عوام کے مسائل کا تدار کیا جاسکتا ہے نہ نظام مین کوئی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
اس ملک کے سرکاری اداروں کا حال یہ ہے کہ کسی بھی ادارے میں چلے جائیں،کہیں کوئی میرٹ کا نام و نشان نہیں ہے ،ہر ادارے میں سیاسی وغیر سیاسی سفارشی بھرتیوں کی بھر مار ہے، خاندان کے خاندان قومی خزانے سے استفادہ کر رہے ہیں ، کوئی روکنے والا ہے نہ کوئی ایسا نظام ہے کہ بلا امتیاز میرٹ پراپنی صلاحیتوں کے
مطابق قومی اداروں میں خدمات انجام دے سکے ،اداروں میں عام عوام کے نام پر نوکریوں کے اشتہارات ضرور دیئے جاتے ہیں ،ٹیسٹ انٹرویو بھی لیے جاتے ہیں ،مگرتعیناتی لسٹیں وزارت اعلی اور وزراء کی جانب سے بن کر آتی ہیں ،ملک بھر میں میرٹ کے دعوئیدار ہی میرٹ کی دھجیاں بکھیرتے نظر آتے ہیں۔
ہمارے ہاں کہیں بھی کوئی میرٹ نہیں ہے ،یہاں سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں لگے ہیں، ایک دوسرے کے خلاف بیان دینا، ایک دوسرے کو برا بھلا کہنا اور پھر اپنے مفاد میں ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھنا عام سی بات ہو گئی ہے ،اچھائی پر برائی تیزی سے حاوی ہوتی جارہی ہے ،بے شرمی اتنی عام ہو گئی ہے کہ شرم کو بے شرمی سے شرم آنے لگی ہے،ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگانے والے اکٹھے ہو کر پارسائی کے دعوئے کررہے ہیں ،لیکن عوام بخوبی جاننے لگے ہیںکہ وقت اور حالات کے مطابق اپنی جماعتیں تبدیل کرنے والے کون سی عوامی خدمت کر رہے ہیں اور
موقع پرست سیاستدانوں کو اپنی سیاسی جماعتوں میں شرکت کا موقع فراہم کرنے والے سیاسی قائدین عوام کے بارے میں کتنی فکر رکھتے ہیں ،عوام سے اب کچھ بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا ہے ،عوام کو بے وقوف بنانے والے خود ہی اپنے اعمال کے باعث عوام کے سامنے ننگے ہو گئے ہیں۔
ملک کے عوام کی اکثریت کی رائے ہے کہ اس قسم کے سیاسی کھیل تماشے اب بند ہو جانا چاہیے،آخر کب تک سیاسی قیادت ایک دوسرے کے احتساب کا نعرا لگائیں گے، ایک دوسرے کو چور ٹھیرائیں گے
اور پھر اپنے مفاد میں اکٹھے ہوکر عوام کو دوبارہ بے وقوف بناتے رہیں گے ، سیاسی قیادت کو اب اپنے روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،ملک کے بائیس کروڑ عوام کی حقیقی فکر کرنا ہوگی ، انہیں مسائل سے نجات دلانے کے لیے ایسے دورس اقدامات کرنا ہوں گے کہ جن سے عوام کا احساس محرومی دور ہو سکے، زندہ قومیں اپنے ماضی سے سبق سیکھ کر اپنے حالات میں سدھار پیدا کرتی ہیں،یوم حساب سے ڈرتے ہوئے
اپنی روش بدلتی ہیں، اگر ہماری سیاسی قیادت عوامی اور ملکی مسائل کو پس پشت ڈال کر صرف حصول اقتدار کے لیے یو نہی دست و گریباں رہے تو عوام کا جمہوری نظام پر سے اعتماد مکمل طور پر اٹھ جائے گا اور اس کا سب سے زیادہ نقصان ملک و عوام کا ہی اُٹھانا پڑے گا۔