سیاسی تصادم میں آمریت کی آہٹ ! 37

سیاسی رسہ کشی اور عوام !

سیاسی رسہ کشی اور عوام !

تحریر :شاہد ندیم احمد

تحریک عدم اعتماد کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے،سیاسی‘ سماجی اور عوامی حلقوں میں ایک ہی موضوع زیربحث ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا رزلٹ کیا آئے گا،ایک طرف حکومت اپنی بقاء کیلئے تمام وسائل استعمال کررہی ہے تودوسری جانب اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اپنے اہداف کے حصول میں

ہر حربہ اور ہتھکنڈہ آزما رہی ہیں ،پارلیمانی معاملات سڑکوں پر آگئے ہیں ،سیاسی اعتبار سے گرما گرم صورتحال ملکی جمہوری نظام کیلئے بڑی حساس اور سیاسی قائدین کیلئے بڑا امتحان ہے ،اس صورت حال میں دیکھا جائے گا کہ ہمارے ملک وقوم کی رہنمائی کے دعوئیدار کس حدتک معاملہ فہمی کا ثبوت دیتے ہیں ۔
یہ امر واضح ہے کہ حکومت اور حزب اختلاف نے کسی موقع پر معاملہ فہمی کا ثبوت نہیں دیا ہے ،سیاسی معاملات پارلیمان میں بیٹھ کر حل کیے جاسکتے تھے ،مگر انہیں جان بوجھ کر سڑکوں پر لایا گیا ہے، سیاسی جماعتیں پارلیمانی معاملات کو عوامی سطح پر شو آف پاور کا مظاہرہ کرکے حل کرنا چاہتی ہیں،

مسلم لیگ (ن) کا مہنگائی مکائو مارچ لاہور سے شروع ہو چکا ہے ،جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) کے کارکنان جلوس کی شکل میں اسلام آباد پہنچ رہے ہیں، تحریک انصاف ایک بڑے عوامی اجتماعات کے ذریعے اپنے سر پرائز دیے رہی ہے ،تاہم حکومتی وزراء کے مطابق وزیراعظم کے پاس ابھی بہت سے ترپ کے پتے

موجودہیں کہ جنہیں آہستہ آہستہ ظاہر کرتے جائیں گے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحریک عدم اعتماد کا ان جلسوں ،احتجاجی ریلیوں سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،یہ ایک آئینی عمل ہے اور اْسے قومی اسمبلی کے اندر ہی مکمل ہونا ہے، سیاسی جماعتوں کے بڑے سے بڑے جلسے بھی اس آئینی عمل کا متبادل نہیں ہو سکتے،مگر اس کے باوجود سڑکوں پر اپنی عدد برتری ثابت کرنے کا جنون اِس وقت

اپوزیشن اور حکومت دونوں پر طاری ہے،حکومت اور اپوزیشن سب کچھ بے وجہ نہیں کررہے ہیں،اس کے پیچھے مقتدر قوتوں کو بتانا مقصود رہے کہ انہیں عوام کی ایک بڑی تعداد کی حمایت حاصل ہے ،حکومت اور اپوزیشن کے عوامی پاور شوز کے بعد حالات کسی حدتک تبدیلی آنے لگی ہے ، نیو ٹرل رہنے کی دعوئیدار مقتدر قوتیںمتحرک ہوتی نظر آرہی ہیں ،یہ اطلاعات بھی منظرعام پر آرہی ہیں

کہ موجودہ ابہام اور الجھن دور کرنے کیلئے پس پردہ کچھ معاملات پر بات چیت شروع ہو چکی ہے اور ایک ایسا فارمولا طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جس میں تمام فریقین اپنی جیت محسوس کریں گے،اس سلسلے میں جو فارمولا زیرغور لایا جارہا ہے‘ اس میں قبل ازوقت انتخابات کا آپشن بھی شامل ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ یہ معاملات الجھانے والے ہی انہیں سلجھا سکتے ہیں ،تحریک عدم اعتماد بظاہر آئینی معاملہ ہے اور اسے پارلیمان میں ہی حل ہونا ہے ،مگر اس کے پیچھے جو عوامل کار فرما رہے ہیں ،انہیں حل کرنے کیلئے مقتدر قوتیں ہی کوئی موثرکردار ادا کر سکتی ہیں ،حکومت ،اپوزیشن اور اتحادیوں کی نظریں اشاروں پر لگی ہیں کہ اُن کی جانب سے کس کی حمایت کا اشارہ ملتا ہے

،یہ جمہوریت کے علمبردار اور عوامی نمائندگی کے دعوئیدار سب ہی مقتدر قوتوں کے مرہون منت ہیں،یہ بظاہر بہت بڑے بڑے دعوئے کرتے ہیں ،مگر عملی طور پر انہیں کی حمایت کے طلبگار رہتے ہیں،حکومت اور اپوزیشن مقتدر قوتوں کی رضاومنشاء کے ؓبغیر چل سکتے ہیں نہ کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز رکھتے ہیں۔
عوام سے بھی حقائق ڈھکے چھپے نہیں ہیں،عوام جانتے ہیں کہ فیصلے کہیں اور ہی ہوتے ہیں،تاہم عوام آزمائے کو بار بار آزماکر مایوس ہوچکے ہیں اور کسی کو بھی دوبارہ آزمانے کیلئے تیار نہیں ہیں،عوام اچھی طرح جان چکے ہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں اور سیاسی قائدین انہیں اپنے ذاتی مفادات و حصول اقتدار کیلئے استعمال کرتے ہیں ،عوام کا جب سیاستدانوں اور جمہوریت سے اعتماد اُٹھ جائے

تو ایسی صورتحال ملکی سلامتی کیلئے انتہائی خوفناک ہوجاتی ہے ،اس کا مقتدر قوتوں کو بھی ادارک کرتے ہوئے اس جاری کھیل تماشے کا بخیر انجام کرنا چاہئے،تحریک عدم اعتماد میں کامیابی اور ناکامی سے عوام کا کوئی سروکار نہیں ، عوام سیاسی رسہ کشی سے بے زار ہیں،یہ احتجاجی جلسے

،جلسوں میں نظر آنے والے عوام نہیں ،سیاسی کار کنان ہیں،عوام کی اکثریت بھوک ،مہنگائی ،غربت اور استحصال کے ہاتھوں تنگ آچکے ہیں ،اس صورت حال کا بروقت ادراک نہ کیا گیا توحالات انتشار اور انارکی بدترین شکل اختیار کرسکتے ہیں ،اس کا فائدہ ملک دشمن ہی اُٹھائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں