72

وقت ہر گھاٶ بھر دیتا ہے

وقت ہر گھاٶ بھر دیتا ہے

تحریر : زمردسلطانہ

معصومہ سٹڈی روم میں بیٹھی قلم پکڑے ڈاٸری پر روز کا معمول لکھنے میں مشغول تھی کہ دروازے پر دستک ہوٸی۔

معصومہ چونکی پھر لکھنے میں مصروف ہو گٸی۔کنول لاٶنج میں بیٹھی ٹ۔وی دیکھنے میں مصروف تھی کہ دروازے پر دستک پر پوچھا کون ہے؟ احمد

دروازہ کھولا۔

کنول بولی،اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎ احمد بھاٸی

آپ آج کہاں سے رستہ بھول آۓ آپ کو تو اپنے سی ایس ایس کے امتحان کے بعد افسر کیا بنے ؟
اسے
ہمیں تو بھول ہی گٸے۔آٸیے تشریف لاٸیں۔

آپ ہی کا گھر ہے ۔ آپ بھی تو اس گھر کےہونے والے داماد بھی ہیں۔کیوں معصومہ باجی؟ دیکھٸے نہ کون آیا ہے؟اونچی آواز میں ڈراٸنگ روم میں بٹھاتے ہوۓ۔

احمد بھاٸی بیٹھیے میں امی کو بلاتی ہوں۔

آپ اخبار پڑ ھیے۔

امی ، امی دیکھیے نہ کون آیا ہے؟ احمد بھاٸی آۓ ہیں۔

آپ احمد بھاٸی کے پاس بیٹھیے۔ میں چاۓ بناتی ہوں اور آپی کو بھی اطلاع کر دیتی ہوں۔

ٹھیک ہےبیٹی۔

کیسے ہو احمد بیٹے؟

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎

الحَمْدُ ِلله

خالہ جان کیسی ہیں؟ الحَمْدُ ِلله بیٹا۔سناٶ کیسے آنا ہوا؟ میری گوجرانوالہ پوسٹنگ ہوٸی میں نے سوچا جاتے ہوۓ۔آپ کو یہ خوشخبری سناتا چلوں۔

اونہہ مٹھا ٸی تو میں گاڑی میں ہی بھول آیا۔ابھی لاتا ہوں۔

معصومہ آپی دیکھیں کون آیا ہے ؟ آپ سے ملنے ۔

دیکھیں تو۔ہاتھ پکڑ کر گھسیٹ کر لے جا تے ہوۓ۔

میں بچی تھوڑی ہوں۔چھوڑو میرا ہاتھ ۔

میں خود دیکھ لیتی ہوں۔کپڑے ٹھیک کر تے ہو ۓ۔

اچھا جی یہ بات ہے آٸیے تشر یف لاٸیے مسکراتے ہوۓ۔

اچھااچھا آپ اپنا کام کرو ۔ کنول بولی میں باورچی خانے میں ہوں۔ دل کرے تو آ جا ٸیے گا۔

کون ہے ؟ ڈراٸینگ روم میں داخل ہوتے ہوۓ۔ احمد سامنے ہی بیٹھا۔ دیکھ کر معصومہ نے آنکھیں جھکا لیں۔

معصو مہ کی والدہ بولیں۔آٶ بیٹا بیٹھو دیکھو احمد آیا ہے۔ اس کی پوسٹنگ اسی علاقے میں ہو گٸی ہے وہ یہی بتانے آیا ہے آٶ منہ میٹھا کرو۔

ٹھریں امی میں ابھی آتی ہوں۔کنول چاۓ تیار ہو گٸ۔

جی آپی میں لے کر آتی ہوں۔

ٹرے مجھے دے دو اور خود بھی آ جاٶ۔

ایسی کیا بات ہے؟ بڑی خوش دکھاٸی دے رہی ہو۔

آٶ نا۔

دونوں ڈراٸینگ روم میں داخل ہوٸیں۔

ٹرے میز پر رکھتے ہوۓ۔گرما گرم چاۓ اور دوسرے لوازمات کے ساتھ مٹھاٸی بھی لیجیے ۔

سب سے پہلے والدہ کو دیتے ہوۓ اس کی والدہ نے اٹھ کر وہی مٹھا ٸی احمد کے منہ میں ڈال دی۔

کنول بولی یہ کس خوشی میں ہے؟

پوسٹنگ ہو گٸی ہے میری اسی علاقے میں۔ احمد بولا۔

پھر تو میں ضرور منہ میٹھا کروں گی۔

اور آپی آپ بھی تو لے نا۔

پھر سب نے منہ میٹھا کیا۔ باتیں کیں اور پھر احمد جاتے جاتے خالہ سے کہہ گیا کہ کل امی آٸیں گی۔

صبح باضابطہ طور پر اس کی امی تاریخ طے کر کے

خوشی خوشی تیاریوں میں مصروف ہو گٸیں۔

اسی دوران کنول کی بات اس کے پھو پھی زاد بیٹے امجد سے طے ہو گٸی دونوں کے ایک ہی دن مقرر ہو ۓ اور پھر شادی ہو گٸی۔

وقت گزرتا گیا بچے ہوۓ پھرایک دن احمد نے اپنی بیوی کو اس کے بچوں ہی کے سامنے بڑی بے دردی سے مارا جس سے بچے خوف زدہ ہوکر رونے لگ گئے۔ بچوں کا یہ حال دیکھ کر ماں رنجیدہ ہوگئی، جیسے ہی اس کے شوہر نے اس کے چہرے پر مارا تو روتے ہوئے کہنے لگی میں بچوں کی وجہ سے رورہی ہوں۔

اور پھر اچانک کہا۔۔۔

میں جا کر کے تیری شکایت کروں گی…

احمد: تجھے کس نے کہ دیا میں تجھے باہر جانے کی اجازت دوں گا۔۔۔

معصومہ: کیا تیرا خیال ہے تو نے دروازے اور کھڑکیوں سمیت سارے رابطے کے دروازے بند کردیے ہیں؟.. اسی لئے تو مجھے شکایت کرنے سے روک لےگا۔۔

احمد: انتہائی تعجب کے ساتھ پھر تم کیا کروگی؟…

معصومہ: میں رابطہ کروں گی۔۔

احمد: تیرے سارے موبائل میرے پاس ہیں اب جو تو چاہے کر۔۔

جیسے ہی معصومہ حمام کی طرف لپکی، احمد نے سمجھا شاید یہ حمام کی کھڑکی سے بھاگنے کی کوشش کرے گی، اسی لیے احمد بھاگ کر کے جلدی سے حمام کے باہر کھڑکی کے پاس کھڑا ہوکر انتظار کرنے لگا، جب احمد نے دیکھا کہ معصومہ نکلنے کی بالکل کوشش نہیں کررہی ہے تو وہ واپس اندر آیا اور اور حمام کے دروازے کے پاس آکر کھڑا اس کے نکلنے کا انتظار کرنے لگا۔

جب وہ حمام سے باہر نکلی تو چہرہ وضو کے پانی سے تر تھا اور لبوں پر بہت ہی پیاری سی مسکراہٹ سجارکھی تھی۔

معصومہ نے کہا: میں تیری صرف اس سے شکایت کروں گی جس کے نام کی تو قسم اٹھاتا ہے اس سے مجھے تیری بند کھڑکیاں تیرے مقفل دروازے اور موبائلوں کی ضبطگی سمیت کوئی بھی چیز نہیں روک سکتی، اور اس کے دروازے کبھی بند نہیں ہوتے ہیں۔

احمد نے اپنا رخ بدلا اور کرسی پر بیٹھ کر خاموشی کے ساتھ گہری سوچ میں ڈوب گیا۔۔

اندر جاکر معصومہ نے نماز اداکی اور خوب لمبا سجدہ کیا، احمد بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا۔

جب وہ نماز سے فارغ ہوکر بارگاہِ ایزدی میں دعا کے لئے اپنے ہاتھوں کو اٹھانے لگی تو احمد اس کی طرف لپکا اور ہاتھوں کو پکڑ لیا۔

اور کہا کہ سجدے میں میرے لیے کی گئی بددعائیں کافی نہیں ہیں؟؟

عورت نے پرسوز لہجے میں کہا کہ تیرا خیال ہے کے میں اس سب کے بعد بھی جو تونے میرے ساتھ کیا ہے، اتنی جلدی اپنے ہاتھ نیچے کرلوں گی؟

پھر وہ اپنے بستر پر سونے کے لیے چلا گیا۔

وہ سوچتا رہا کہ وہ کیا مانگ رہی ہے؟ صبح ہوٸی اور

وہ میکے چلی گٸی۔

وہ سوتا رہ گیا۔ اور پیچھے اکیلا گھر خالی دیکھ کر اپنے آپ کو کوسنے لگا۔

معصومہ کے والدین سے ملنے آیا اور درخواست کی کہ اس سے ملنے دیں۔مگر ملنے کی اجازت نہ ملی۔

اسے اپنے کیے پر پچھتاوہ ہو رہا تھا۔

پھر اس نے کسی دانا انسان نثار کو بھیجا جس نے اپنی ذہانت سے یہ معاملہ سلجھایا۔اور صلح کرواٸی۔

معصومہ بچوں سمیت واپس آ گٸی۔

مگر وہ اس سے دور اور خاموش رہنے لگی۔

احمد اب اس سے اخلاق سے پیش آنے لگا اور بچوں کا خیال رکھنے لگا۔

ایک دن گلاب کا پھول لایا اور اس کے بالوں میں لگا دیا۔

وہ اس اچانک تبدیلی پر مسکراٸی۔ احمد اب معصومہ کے لیے تحفے لانے لگا۔

وہ اس کے قریب آنے لگی اور سکون محسوس کرنے لگی۔ وہ بچوں کو بھی پیار سے پڑھانے اور کھلانےلگا۔

دفتر سے واپسی پر اسے چاۓ اور اس سے محبت بھری باتیں کرتا اسے لگا جیسے اس کا دیا گھاٶ بھرنے لگا ہے۔

وقت گزرتا گیا۔اس سے پوچھا احمد نے اس دن تم کیا دعا مانگ رہی تھی۔اور

بخدا! ۔۔

اس دن سب مجھ سے غصہ میں ہوا ہے میں نے قصداً نہیں کیا ۔۔

معصومہ: اس دن میں تیرے لئے تھوڑی دعا پر اکتفا نہیں کرسکتی تھی۔مگر جو کچھ آپ نے کیایہ سب کرنا ضروری تھا۔مگر اس دن میں بددعائیں تو میں شیطان کے لئے کررہی تھی جس نے تجھے غصہ دلایا، میں اتنی احمق نہیں تھی کہ اپنے شوہر اور شریکِ حیات کے لئے بددعا کرتی۔۔۔

یہ سن کر شوہر کی آنکھوں سے آنسوؤں کی دھار لگ گئی اور اسنے بیوی کے ہاتھ کو بوسہ دیتے ہوئے کہا: میں آج آپ سے وعدہ کرتا ہوں کبھی بھی آپ کو برائی کے ارادے سے ٹچ تک نہیں کرونگا پھر

دونوں گلے ملے اور معصومہ بولی وقت ہر گھاٶ بھر دیتا ہے۔

https://www.youtube.com/c/FSMediaNetwork/videos

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں