اقوام متحدہ نے پاک بھارت کشیدگی پر ثالثی کی پیشکش کردی ڈالر کے بعد سونا بھی ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا پاکستان کمیونٹی ہیلتھ ورکرز فیڈریشن کا قیام عمل میں آگیا کیا 24نومبر جیسے دن ہی کے لئے، عالمی نقشہ پر عالم کی اولین مسلم مملکت کو وجود بخشا گیا تھا؟ 31 دسمبر کے بعد افغان شہری اسلام آباد کی حدود میں نہیں رہ سکیں گے: وزیر داخلہ دھرنا ایک تحریک ہے جو عمران خان کی کال تک جاری رہے گا: علی امین گنڈاپور کا اعلان مذاکرات بے نتیجہ ختم، پی ٹی آئی نے پریڈگراؤنڈ یا پشاور موڑ پر دھرنے کی حکومتی پیشکش مسترد کردی مہمند سیاسی اتحاد کے زیر اہتمام لوئر مہمند یکہ غنڈ بازار میں پشاور ٹو مہمند باجوڑ کے مرکزی شاہراہِ کی تعمیر میں تاخیر کے خلاف احتجاجی دھرنا بیلاروس کے صدر 3 روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچ گئے حکومت اور پی ٹی آئی میں مذاکرات، پشاور موڑ کو دھرنا پوائنٹ ڈکلیئر کیے جانے کا امکان تبدیلی اُوپر سے نیچے آئے گی ! ممکن ہی نہیں کوئی یہ نقش مٹا پائے
22

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کر دی

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک عدم اعتماد کی قرارداد مسترد کر دی

اپوزیشن کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پر ووٹنگ آج ہوگی جس میں یہ فیصلہ ہوجائے گا کہ عمران خان وزیراعظم کے عہدے پر رہیں گے یا فارغ ہوجائیں گے۔

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی سربراہی میں اسمبلی کا اجلاس ہورہا ہے جس میں وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرائی  جائے گی۔

اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لیے ارکان پیدل چل کر پارلیمنٹ لاجز پہنچے جب کہ منحرف ارکان بھی اپوزیشن کی لابی میں پہنچے۔

سابق صدر آصف زرداری، شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری بھی قومی اسمبلی میں موجودد ہیں۔

مسلم لیگ (ق) کے رہنما طارق بشیر چیمہ ،چوہدری سالک حسین اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ گئے۔

طارق بشیر چیمہ کا کہنا تھا کہ وہ ووٹ ڈالنے نہیں آئے بلکہ کسی اور کام سے آئے ہیں۔

اپوزیشن نے 176 ارکان پارلیمنٹ ہاؤس پہنچا دیے ہیں جب کہ حکومتی ارکان بھی سرپراز دینے کے دعوے پر قائم ہیں۔

مریم اورنگزیب کا کہناہےکہ پارلیمنٹ میں اس وقت موجود ہمارے 176 ارکان ہیں جب کہ پارلیمنٹ میں ٹی آئی ارکان کی تعداد 21 ہے۔

شہباز شریف کی پارلیمنٹ ہاؤس آمد

آصف زرداری اور بلاول کی پارلیمنٹ ہاؤس آمد

اجلاس کا ایجنڈا

قومی اسمبلی کے اجلاس کے ایجنڈے کے مطابق قائد حذب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے خلاف پیش کی گئی عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ کی جائےگی۔

وزیر اعظم عمران خان کےخلاف عدم اعتماد کی قرارداد پرووٹنگ ایجنڈےمیں شامل ہے۔ اس قرار داد میں کہا گیا ہے کہ ایوان وزیراعظم عمران خان پرعدم اعتماد کرتا ہے، عمران خان ایوان کا اعتماد کھوچکے لہٰذا وزیراعظم کے عہدے پر برقرار نہیں رہ سکتے۔

اجلاس کے حوالے سے وزیراعظم عمران خان کی حکمت عملی

وزیراعظم عمران خان نے تحریک عدم اعتماد پر ہونے والی ووٹنگ کے حوالے سے اپنی حکمت عملی تبدیل کرلی ہے۔

وزیراعظم عمران خان اور پی ٹی آئی کے ارکان بھی قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں شرکت کریں گے۔

ذرائع کا کہنا ہےکہ وزیراعظم عدم اعتمادکا ووٹ جیتنےکے لیے پر عزم ہیں، پی ٹی آئی ارکان آج اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے۔

اس سے قبل وزیراعظم عمران خان نے بطور پارٹی چیئرمین پاکستان تحریک انصاف تمام اراکین قومی اسمبلی کو خط لکھ کر تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کے دوران اسمبلی نہ جانے کی ہدایت کی تھی تاہم اب تمام ارکان اسمبلی شرکت کریں گے۔

وزیراعظم نے اب تک ہار نہیں مانی ہے اور انہیں پورا یقین ہے کہ وہ تحریک عدم اعتماد میں وہ سرخرو ہوکر نکلیں گے۔

وزیراعظم کا کہنا ہے کہ میں کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، سارا وقت پلان کرتا ہوں کیسے جیتنا ہے، اچھا کپتان کبھی ہارنے کا نہیں سوچتا، آج کی میری ساری حکمت عملی تیار ہے ۔

وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ بہت کم لوگوں کو میری حکمت عملی پتہ ہے، بات باہر نکل جاتی ہے۔

اپوزیشن کی حکمت عملی

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی زیرصدارت متحدہ اپوزیشن کا اجلاس ہوا جس میں سابق صدرآصف زرداری، بلاول بھٹو، اسعد محمود ، اختر مینگل، خالد مگسی، خالد مقبول صدیقی اور شاہ زین بگٹی سمیت ممبران شریک ہوئے جب کہ اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کی قانونی ٹیم بھی شریک ہوئی۔

ذرائع کےمطابق اجلاس میں قانونی ٹیم نے ممبران کو قانونی نکات پر بریفنگ دی جب کہ اپوزیشن نے آج کے قومی اسمبلی اجلاس کے لیے حکمت اعملی طے کرلی ہے۔

اپوزیشن نے حکومتی ارکان کے شور شرابے یا اشتعال کا جواب نہ دینے کا فیصلہ کیا۔

اپوزیشن نے فیصلہ کیاہے کہ کسی بھی صورت تحریک عدم اعتماد کی کارروائی روکنے کا موقع نہیں دیا جائے گا۔

ہنگامہ آرائی کا خطرہ

جیو نیوز کے سینیئر اینکر پرسن حامد میر کے مطابق فیصلہ کیا گیا ہے کہ اپوزیشن ارکان کو پہلے پارلیمنٹ لاجز میں ہی روکا جائے گا تاکہ وہ قومی اسمبلی نہ پہنچ سکیں، جو ارکانِ قومی اسمبلی پہنچنے میں کامیاب ہوجائیں گے انہیں زد و کوب کیے جانے کا خدشہ ہے۔

حامد میر کے مطابق منصوبہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاج کرنے والوں کو ڈی چوک سے آگے رسائی دے دی جائے۔ معلوم ہوا ہے کہ آج ووٹنگ کے عمل میں تاخیر کی تجویز کی اسپیکر نے مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ آج آخری دن ہے ، ووٹنگ کو مؤخر نہیں کرسکتے۔

سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے حکومت کو بتایا ہے کہ اس بات کے کوئی شواہد موجود نہیں ہیں کہ عدم اعتماد کی تحریک کوئی بین الاقوامی سازش ہے، اگر حکومت کے پاس اس بارے میں شواہد ہیں تو مہربانی کر کے فراہم کر دے۔

ووٹنگ کا طریقہ

تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا طریقہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی میں موجود وہ ارکان جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم کو عہدے سے ہٹا دیا جائے وہ اپنی نشستوں سے اٹھ کر ایک طرف ہوجاتے ہیں اور ان کی تعداد کو گِن لیا جاتا ہے۔

اسی طرح وہ ارکان اسمبلی جو چاہتے ہیں کہ وزیراعظم عہدے پر برقرار رہیں ان کے پاس یہ چوائس ہوتی ہے کہ وہ اپنی نشستوں پر براجمان رہیں۔ یہ اس لیے ہوتا ہے کہ اگر حکومت کا کوئی رکن اٹھ کر اپوزیشن کی جانب چلا جائے تو اس کی نشاندہی بھی ہوجائے۔ایسے رکن اسمبلی پر فلور کراسنگ کی کارروائی بھی کی جاسکتی ہے اور بات نا اہلی تک جاسکتی ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کیلئے جادوئی نمبر ’172‘ ہے جو کہ موجودہ ایوان کی کل تعداد کی سادہ اکثریت ہے۔ چونکہ تحریک عدم اعتماد اپوزیشن نے جمع کرائی ہے لہٰذا یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ رائے شماری والے دن وزیراعظم کیخلاف 172 ارکان کو پیش کریں۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی تو کیا ہوگا؟

اگر اپوزیشن 172 ارکان کی حمایت پیش کرنے میں ناکام رہی تو وزیر اعظم کیخلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوجائے گی اور وہ عہدے پر براجمان رہیں گے۔

تاہم اگر اپوزیشن 172 یا اس سے زائد ارکان کو سامنے لے آئی تو وزیراعظم کو عہدہ چھوڑنا پڑے گا ساتھ ہی ان کی پوری کابینہ بھی تحلیل ہوجائے گی۔ 

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں