30

سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

سپریم کورٹ: ڈپٹی اسپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ اور قومی اسمبلی کی تحلیل غیر آئینی قرار، قومی اسمبلی بحال

ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی  3 اپریل کی رولنگ، صدر مملکت کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل کرنے کے معاملے پر  سپریم کورٹ آف پاکستان نے از خود نوٹس کیس کا فیصلہ سنادیا۔

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے متفقہ فیصلہ دیا کہ تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کی ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی 3 اپریل کی رولنگ اور وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کی جانب سے قومی اسمبلی کو تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا جس کے بعد سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی بحال کردی۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلایا جائے۔

سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں مزید کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو  اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔

عدالت نے متقفہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا، تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔

سپریم کورٹ کے متفقہ فیصلے کے اہم نکات

  • ازخود نوٹس کیس کا فیصلہ پانچ صفر سے متفقہ طور پر سنایا گیا
  • 3 اپریل کی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ اور صدر کی جانب سے اسمبلی تحلیل کرنا آئین سے متصادم تھا، سپریم کورٹ
  • قومی اسمبلی بحال کی جاتی ہے، سپریم کورٹ
  • قومی اسمبلی کا اجلاس 9 اپریل کو بلایا جائے، سپریم کورٹ
  • تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہفتے کو صبح 10 بجے کرائی جائے، سپریم کورٹ
  • صدر کی نگران حکومت کے احکامات کالعدم قرار دیے جاتے ہیں، سپریم کورٹ
  • تحریک عدم اعتماد منظور ہوجائے تو اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے، سپریم کورٹ
  • کسی رکن قومی اسمبلی کو ووٹ کاسٹ کرنے سے نہ روکا جائے، عدالت عظمیٰ
  • تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے، سپریم کورٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل تھے۔

ہمیں حد بندی کرنی ہیں لہٰذا ہمیں 6 سے 7 ماہ چاہئیں، چیف الیکشن کمشنر کا سپریم کورٹ میں مؤقف

چیف جسٹس کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ فیصلہ سنانے کیلئے 8 بجکر 26 منٹ پر کمرہ عدالت میں پہنچا۔

سپریم کورٹ نے فیصلہ سنانے سے قبل چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کو سپریم کورٹ میں طلب کیا جس پر وہ فوری طور پر سپریم کورٹ پہنچے۔

پانچ رکنی بینچ عدالت میں پہنچا تو انہوں نے چیف الیکشن کمشنر سے الیکشن کے انعقاد کے حوالے سے استفسار کیا جس پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ ہمیں 90 روز میں الیکشن کرانے کیلئے تیار رہنا چاہیے، الیکشن کمیشن ہر وقت تیار ہے الیکشن کرانے کے لیے لیکن ہمیں حد بندی کرنی ہیں لہٰذا ہمیں 6 سے 7 ماہ چاہئیں۔

بلاول نے انتخابی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ میں معروضات جمع کروائیں

سپریم کورٹ کی جانب سے فیصلہ سنائے جانے سے قبل پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے انتخابی اصلاحات سے متعلق سپریم کورٹ میں معروضات جمع کروائیں۔ چیف جسٹس نے بلاول سے کہا تھا کہ ساڑھے 7 بجے سے قبل تفصیلات جمع کرائیں۔

فوٹو: پیپلز پارٹی
فوٹو: پیپلز پارٹی

آج کی سماعت کا مختصر احوال

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے آج کی سماعت میں ریمارکس دیے  کہ ایک بات تو ہمیں نظر آرہی ہے کہ اسپیکر کی رولنگ غلط ہے۔

سپریم کورٹ میں اٹارنی جنرل خالد جاوید خان بھی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنے سے دستبردار ہوگئے۔

سپریم کورٹ میں آج کی سماعت کا مکمل احوال یہاں پڑھیں

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ قومی مفاد اور عملی ممکنات دیکھ کر ہی آگے چلیں گے، آج روپے کی قدر گرگئی ہے، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قیمت 190 روپے تک پہنچ چکی ہے، اسٹاک مارکیٹ بھی نیچے گر رہی ہے،ایک شہری کے طور پرکہتا ہوں کمزور نہیں مضبوط حکومت چاہیے۔

سپریم کورٹ میں دورانِ سماعت چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیے کہ تحریک عدم اعتماد کے دوران اسمبلیاں تحلیل نہیں کی جاسکتیں، ایساکرنا آئین کے منافی ہے، اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو ممکن تھا اپوزیشن کچھ کرلیتی، اصل مسئلہ اسمبلی تحلیل ہونے سے پیدا ہوا، 172اراکین کی ضرورت تحریک عدم اعتماد پیش کرنےکیلئے نہیں، ووٹنگ کیلئےہوتی ہے، اسپیکر کی رولنگ نے اسمبلی توڑنےکا راستہ ہموار کیا، دیکھنا ہے یہ کوئی آئین کے مینڈیٹ کو شکست دینے کا گریٹر ڈیزائن تو نہیں؟ اگرکوئی بھی ناکام ہورہا ہو تو ایسے رولنگ لاکر  نئے الیکشن کرالے، انتخابات پر اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔

  • وزیراعظم عمران خان کیخلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی
  • 3 اپریل کو ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرتے ہوئے اجلاس ملتوی کردیا
  • کچھ دیر بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا اور کہا صدر سے اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ دیا ہے
  • تھوڑی ہی دیر میں صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کردی
  • اس صورتحال پر سپریم کورٹ نے 3 اپریل کو ہی ازخود نوٹس لیا
  • سپریم کورٹ کے 5 رکنی بینچ نے 5 روز تک اس اہم کیس پر سماعت کی

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے مکالمے میں کہا کہ آپ کہتے ہیں اسمبلی بحال ہوئی تو سڑکوں پر لڑائیاں ہوں گی؟ ہم چاہتے ہیں پارلیمنٹ کامیاب ہو اور کام کرتی رہے۔

سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کریں گے، وزیراعظم

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کریں گے، تحریک انصاف نئے انتخابات کیلئے تیار ہے— فوٹو: فائل
وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کریں گے، تحریک انصاف نئے انتخابات کیلئے تیار ہے— فوٹو: فائل

فیصلہ آنے سے قبل وزیر اعظم عمران خان نے کہا تھا سپریم کورٹ کا جو بھی فیصلہ آیا قبول کریں گے، تحریک انصاف نئے انتخابات کیلئے تیار ہے۔

وزیراعظم عمران خان نے قانونی ٹیم سے ملاقات میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ غیر ملکی سازش کو کسی طور پر کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔

اسمبلی تحلیل ہونے کا پس منظر

وزیراعظم عمران خان کیخلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی تاہم ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک کو آئین کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا— فوٹو: فائل
وزیراعظم عمران خان کیخلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی تاہم ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک کو آئین کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا— فوٹو: فائل

خیال رہے کہ وزیراعظم عمران خان کیخلاف 3 اپریل کو تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی تاہم ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی نے تحریک کو آئین کے خلاف قرار دے کر مسترد کردیا جس کے بعد وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں کہا کہ انہوں نے صدر کو اسمبلی تحلیل کرنے کا کہہ دیا ہے قوم الیکشن کی تیاری کرے۔

3 اپریل کو ہی عمران خان کے خطاب کے بعد صدر عارف علوی نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تاہم اپوزیشن نے اس سارے عمل کو غیر آئینی قرار دیا اور اسمبلی کے اندر ہی دھرنا دے دیا۔

قومی اسمبلی کی کارروائی پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا جس کی پانچ روز تک سماعت جاری رہی۔

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے اس اہم ترین کیس کی سماعت کی جس میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل بھی شامل ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں