56

تاریخ ساز فیصلہ اور سیاسی منظر نامہ !

تاریخ ساز فیصلہ اور سیاسی منظر نامہ !

تحریر :شاہد ندیم احمد

قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی طرف سے وزیراعظم عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد پیش کئے جانے کے بعد سے ملکی سیاسی فضا میں جو ارتعاش پیدا ہوا تھا،وہ ایک طوفان کی شکل اختیار کرگیا ہے،اس افراتفری اور انتشار کی کیفیت میں قوم کی نظریں اعلیٰ عدلیہ کی طرف مرکوز رہیں،

سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی رولنگ کو غیر آئینی ٹھراتے ہوئے وزیر اعظم کی جانب سے قومی اسمبلی تحلیل لرنے کی سفارش سے لے کر صدر مملکت کے نگران حکومت کے قیام تک کے احکامات اور فیصلوںکو کالعدم قرار دے دیا ہے ،سپریم کورٹ نے نظریہ ضرورت کو دفن کر تے ہوئے

ٹھوس حقائق کی بنیاد پر ایک ایسا فیصلہ دیا ہے کہ جو پاکستان کی آئینی اور قانونی تاریخ میں تو یاد گار رہے گا،لیکن اس فیصلے سے پارلیمانی سیاست پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا ، وہ عدم استحکام کا ہی شکار رہے گی۔
یہ حقیقت ہے کہ وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے پیدا ہونے والے سیاسی بحران کو پورا ایک ماہ ہوچکا ہے ،اس دوران حکومت اپنے آپ کو بچانے اور اپوزیشن اسے گرانے میں لگی رہی ہے ،اس کے سواکچھ بھی نہیں ہوا ،مگر اس دوران سیاست کی ہر صورت جو سننے میں آتی تھی ،دیکھنے میں بھی آئی ہے

،حزب اقتدار اور حزب اختلاف نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے ہر جائز و ناجائز حربوں کا آزادانہ استعمال کیا ہے ،اس سے سیاسی بحران میں مزید اضافہ ہوا ،تاہم عدالت اعظمیٰ کے فیصلے کے بعد اس بحران کے خاتمے کی اُمید کی جارہی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ پا لیمان ایک سپریم ادارہ ہے اور پا رلیمانی معاملات پارلیمان میں ہی حل ہونے چاہئے ،مگر سیاسی قیادت کا انتشار پارلیمانی معاملات عدالت عظمیٰ میں لانے کا باعث بنا ہے

،اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ملک کی سیاسی قیادت اپنے سیاسی معاملات ایوان میں مل بیٹھ کر آئینی طریقے سے حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی تو سپریم کورٹ کا مداخلت کرتے ہوئے صورت حال کو قابو کرنا پڑا ہے ،اس عدالتی فیصلے کے بعد پا رلیمان میں تحریک عدم اعتماد کا رزلٹ کچھ بھی آئے ،اس سے قطع نظر سیاسی قیادت کو دیکھنا چاہئے

کہ کیا ہمارا سیاسی طرز عمل جمہوری رہا ہے اور کیا ہم عدم برداشت کی آخری سیڑھی پر جا کھڑے نہیں ہوئے ہیں ؟ ہم ایک دوسرے کے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہیں نہ اپنی آئینی مدت پوری کرنے دیتے ہیں ،کیا نئی منتخب حکومت کے خلاف پہلے روز سے ملک گیر احتجاجی تحریک کا آغاز کرنا اور اسے گرانے کیلئے ہرآئینی اور غیر آئینی حربہ استعمال کرنا ہی جمہوریت کا حسن کہلاتاہے ؟
اس تحریک عدم اعتماد میں بہت سی دوسری باتوں کے ساتھ ایک چیز بڑی واضح طور پر سامنے آئی ہے

کہ حزب اختلاف نے جہاں اپنے ساتھ حکومتی اتحادیوں کو ملایا ،وہیں حکومتی ارکان پارلیمان کی بھی کچھ تعدادحزب اختلاف کے ساتھ جا بیٹھی ہے،یہ فلور کراسنگ کے زمرے میں آتا ہے ،حکمران جماعت کی جانب سے ارکان پارلیمان کی خریدو فروخت کے الزامات لگائے جارہے ہیں ،اس ملک میں ارکان پارلیمان کی وفادریاں بدلنا کوئی نئی بات نہیں،یہاں ضمیروں کے سودے پہلے بھی کیے جاتے رہے ،آج بھی ہورہے ہیں

،لیکن اس کا سد باب ہو نا چاہئے ،عدالتی حکم پر جب ایوان میں کاروائی کا آغاز کیا جائے تو اس معاملے پر سبھی سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر کسی نتیجے پر پہنچنا چاہئے ،ورنہ یہ روایت آئندہ آنے والی ہر حکومت کیلئے بھی خطرناک ثابت ہو گی ۔اس حوالے سے سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس زیر سماعت ہے،لیکن سیاسی قیادت کو اپنے ذمے کے کام خود بھی کرنے چاہئیں،کیو نکہ ہماری ملکی سیاست میں فلور کراسنگ کیسے کی جاتی ہے اور اس کے پیچھے کیسے محرکات ہوتے ہیں

،وہ کسی سے اب ڈھکے چھپے نہیں ہیں ،یہ بروقت مفاد پرست عناصر کے ضمیر کیسے جگتے ہیں یا جگائے جاتے ہیں ،اس کا تدارک کرناضروری ہو گیا ہے ، اس بار حزب اختلاف نے اپنے مفاد میں انہیں اپنے ساتھ شامل کیا،کل کلاں دوسروں کے ساتھ جا بیٹھیں گے اور منتخب حکومت گرانے کا باعث بنتے رہیں گے ، یہ ضمیر فروش اور ضمیر کے سوداگرصرف عوام کی منتخب حکومت ہی نہیں گرتے ، بلکہ ملک کا استحکام اور ملکی معیشت بھی دائو پر لگادیتے ہیں ،اس لیے ان کا سد باب نا گزیر ہو گیا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اپوزیشن کاتحریک اعدم اعتماد کے پیچھے مقصد حصول اقتدار رہا ہے ،تاہم متحدہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ اقتدار میں آکر انتخابات سے قبل اصلاحات لانا چاہتے ہیں ،تاکہ دھاندلی کا راستہ بند کیا جاسکے ،اس پر کسی پا کستانی کو کوئی اعتراض نہیں ،لیکن سیاسی قیادت کو اصلاحات کے ساتھ اپنے رویوں پر بھی نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ،کیو نکہ پی ٹی آئی نے اپنے دور اقتدار میں انتخابی اصلاحات کی جتنی بھی کائوشیں کیں ہیں ،حزب اختلاف کی جانب سے انہیں یکسرنظر انداز کیا گیا

اور کسی بھی موقع پر مشاورتی عمل میں شامل نہیں ہوئے ہیں،حزب اختلاف کی جانب سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین اور اور سیز پا کستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کی سخت مخالفت کی جاتی رہی ہے ،تحریک عدم اعتماد میں کا میابی کے بعد عام انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ مشن کا استعمال اور اور سیز پا کستانیوں کے ووٹ کا حق ختم کیا جاسکتا ہے
،لیکن اس پر پی ٹی آئی بھر پور مزحمت کرے گی اور یوں مخالفت برائے مخالفت کی کبھی نہ ختم ہونے والی سیاست جاری رہے گی ،اس وقت ملک کو مخالفت کی بجائے مفاہمت کی ضرورت ہے، سیاسی مفاد کی بجائے قومی مفاد کو پیش نظر رکھ کر سوچنے اور عمل کرنے کی ضرورت ہے ،اگر یہ جذبہ سیاست میں ایک با رایج ہو جائے تو ملک کے بہت سے مسائل جو ایک مدت سے چلے آرہے ہیں ،ان کا حل مشکل نہیں رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں