64

ایک عہد وفا جو تمام ہوا

ایک عہد وفا جو تمام ہوا

از کومل شہزادی،سیالکوٹ

الوداع عمران خان الوداع!!

کہانی ختم ہوئی اور ایسے ختم ہوئی
کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

‏عمران خان تاریخ میں سرخرو ہو گیا – وہ ڈٹا رہا وہ کھڑا رہا اور پاکستان کے وقار کی جنگ میں ہر محاذ پر لڑتا رہا۔امت مسلمہ کا عظیم لیڈر الوداع عمران خان ۔کاش یہ قوم اس عظیم نگینے کی عزت کرتی ۔

ڈھونڈوگے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم

ایک اچھا لیڈر ہمیشہ شعور دیتا ہے وہ عوام کو غفلت کی نیند سے بیدار کرتا ہے۔اپنی عوام میں غلامی کی زنجیروں سے آزاد ہونے کی سوچ منتقل کرتا ہے۔جبکہ قوم کی بیداری محض ایماندار،نڈر اور اپنے ملک سے وفادار لیڈر ہی پیدا کرسکتا ہے۔عمران خان کرکٹ سے سیاست کا سفر اور سازشی انتشار کا شکار ہوکر استعفیٰ دے دیا۔ایک بہادر اور ایمان دار شخص جو سیاست کے ذریعے اقتدار میں آئے ’’چوروں اور لٹیروں‘‘ کے مقابلے میں ڈٹ کر کھڑا ہوگیا۔مذکورہ مداحین لیکن محض اپنی قوت کے بل بوتے پر عمران خان صاحب کے انتخابی سیاست کے تمام مراحل سے گزرکر اقتدار میں لانے کے قابل نہیں تھے۔ ‏ساری قوم گواہ ہے کہ صرف ایک مردِ مجاہد اس قوم کی خاطر ڈٹ گیا اور جھکنے سے انکار کیا ، قوم کا سودا نہیں کیا۔

جنگ تو یزید نے بھی جیت لی تھی۔۔۔
مگر آج بھی چرچا ہے ہمارے حسین کا۔۔

تاریخ یاد رکھے گی کہ ایک ایسا وزیر اعظم بھی گزرا جس کو گرانے کے لیے قانونی اصول بھی بدلے گےچھٹی کے دن اور رات کے وقت عدالتیں لگائی گئیں۔قائداعظم،بھٹو ،بے نظیر کے بعد یہ واحد لیڈر سے عوام کو نوازا گیا جس نےاقتدار میں رہ کر سب غداروں کو ننگا کیا اور ایسا کیا سربازار بدنامی انکا مقدر ہی رہے گی

۔باہر کے ممالک میں اپنی عدالتوں اور ملک کا امیج جتنا خراب کیا گیا ان سب کے قصور وار شائد کپتان کو گرانے والے ہی ہیں۔آج ایک انگریزی اخبار کے اوپر کارٹون بنے دیکھے جس پر پاکستان کو ایک برے امیج میں دیکھایا گیا یہ ہمارے ملک کے لیے شرمندگی کا باعث ہے کہ باہر کے ممالک کے ذہنوں میں پاکستان اور اس کی قوم وسیاست کا کیا نقشہ ہے ۔یہ وہ لیڈر جس نے اپنا خزانہ نہیں بھرا بلکہ بیت المال ہی بھرتا رہا سابقہ وزیر اعظم نواز شریف گزرے تو خزانہ خالی تھا لیکن کپتان کے جانے کے بعد دیکھا جائے

تو وہ جو چھوڑ کر گیا وہ سب اُس کی عوام وملک سے وفاداری کا ثبوت ہے۔یہ لیڈر ایک ڈائری لے کر نکلا لیکن عوام کے دلوں میں بہت کچھ چھوڑ گیا۔یہ عوام کی طاقت سے اقتدار میں آیا اور اس کے لیے بے شمار مشکلات کھڑی کی گئیں لیکن ہارا نہیں بلکہ چلتا رہا۔عالمی سازش کو چوروں و لٹیروں کے ساتھ مل کر کامیاب بنایا گیا۔

ضمیر فروشوں کو ہماری نسل لازم یاد رکھے گی اور تاریخ کےان سیاہ لفظوں میں لکھا جائے گا کہ ایک وزیراعظم آیا تھا جو جاتے جاتے ملک کے سارے غدار اور گند کو اکٹھا کرگیا تھا۔تاریخ یہ بھی یاد رکھے گی کہ کیسے پیسوں کے داموں پر سب بک گئے محض نڈر لیڈر کو ہٹانے کے لیے کہ وہ کہیں ضمیر فروشوں کو اُن کے انجام تک نہ پہنچادے۔تاریخ بتائے گی عمران خان نے کرسی گنوا دی لیکن امریکہ اور مغرب کی

غلامی کو لات ماری اور کھلے دل سے بولا کہ ہم آپکے غلام نہیں ہیں تعلقات دوستی کی بنیاد پر رکھیں. لیکن پاکستان کی سیاسی اشرافیہ جو نسل در نسل ہمیں اپنی غلامی میں لیے ہوئے ہے. ن لیگ، فضلو، اور زرداری نے امریکہ سے دوستی کی بجائے غلامی کا پٹہ گلے میں ڈالنے کو مناسب سمجھا. امریکی غلام مبارک جس کو خان کی سمجھ نہیں آرہی وہ بس بھارتی چینلز لگا کر دیکھ لے کہ کیسے خان کے الوداع ہونے پر بھارت میں جشن کا سماں ہے. بھارت کیوں پاکستان میں کسی محب الوطن کو برداشت کرے گا.
تمام اتحادی پارٹیوں نے عمران خان کا ساتھ چھوڑ دیا تحریک عدم اعتماد میں اپوزیشن کو واضح برتری حاصل رہی۔عدالت نے پاکستان کو اسی غلامی اور کرپشن کی زنجیر میں جکڑ دیا جسے عمران خان نے بہت دلیری اور غیرت سے توڑا تھا۔

‏‎جس دیس کی کورٹ کچہری میں
انصاف ٹکوں پر بِکتا ہو

جس دیس کا منشی قاضی بھی
مجرم سے پوچھ کہ لکھتا ہو

اُس دیس کے ہر ایک لیڈر پر
سوال اٹھانا واجب ہے

اس دیس کے ہر ایک حاکم کو
سولی پہ چڑھانہ واجب ہے

وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی۔ اپوزیشن کے 174 ارکان نے ان کے خلاف ووٹ دیا۔عمران خان ملکی تاریخ کے پہلے وزیراعظم ہیں جن کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی ہے۔اسپیکر اسد قیصر کے مستعفی ہونے کے بعد ایوان ایاز صادق کے حوالے کرگئے جس کے بعد ان کی

صدارت میں اجلاس کی کارروائی شروع ہوئی۔اس دوران 174 ارکان نے عدم اعتماد کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا اور یوں عمران خان عدم اعتماد کے ذریعے ہٹائے جانے والے ملک کے پہلے وزیراعظم بن گئے۔عمران خان تین سال 8 ماہ وزیراعظم کے عہدے پر رہے۔فیض صاحب نے ایسی ہی سیاسی صورت حال پر کیا خوب کہا تھا مصرعہ ملاحظہ کیجیے:

چلی ہے رسم کہ کوئی سر اٹھا کر نہ چلے

ہماری یہی بد قسمتی ہے کے ہم روٹی کپڑا مکان کیلئے اپنا سب کچھ بیچ دیتے ہیں اتنی خبر تک نہیں کے جب باشعور قوم بنتی ہے تو یہ سب کچھ با آسانی حاصل کیا جاسکتا ہے صبر اور عقل کی کمی اس مقام تک لے آئی ہے۔خان اس قوم کے لیے کھڑا ھوا جو آزادی کی بجائے غلامی کو پسند کرتی ہے افسوس کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔بقول حبیب جالب:

یہ دیس ہے غلاموں کا
اے چاند یہاں نہ نکلا کر

‏قوم کو ضمانتوں پر رہا ہونے والے قومی مجرموں اور گیارہ جماعتوں کی امپورٹڈ حکومت مبارک ہو، اقتدار کا بھوکا یہ مکس اچار پاکستان کو بھیڑیوں کی طرح نوچ ڈالے گا، پاکستان ایسی سیاسی قیادت کا مستحق کبھی نہ تھا۔کیا علامہ محمد اقبال نے خواب میں وہ ملک دیکھا جس میں ٹماٹر سستے ہوں کیا

قائد اعظم نے سستی سبزی کے لیے ساری جدوجہد کی کیا ہمارے اجداد نے قربانیاں سستی روٹی کے لیے دیں اگر نہیں تو کہاں ہے وہ ملک جسے آزاد ہونا چاہیے تھا افسوس ہمارے حکمرانوں نے برطانیہ کے بعد امریکا کی غلامی میں پہنچا دیا جو ہمیں سالانہ چند ڈالرز کے عوض جب چاہتا ہے ہمارے سر میں جوتے مارنے لگ جاتا ہے اس لیے خدارا نکلو اپنی آزادی کے لیے کیوں کے روٹی تو بیغیرتوں کو بھی مل جاتی ہے مگر عزت نہیں ملتی۔بقول احمد ندیم قاسمی:

خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

عمران خان تو پہلے بھی جا سکتا تھا، لیکن حکومت گرانے میں کس کا کتنا حصہ تھا، کون ملوث تھا، تمام کرداروں کو قوم کے سامنے لانے کے کیے ضروری تھا، کہ آخری بال تک کھیلا جائے۔ اپنی طرف سے اعلی لیول کی سازش تیار ہوئی، خان ایسا خلاصہ کر کے گیا ہے کہ نرسری کا بچہ بھی سمجھ جائے۔اپوزیشن نے رٹ لگا رکھی تھی کہ خزانہ خالی ہے
معیشت تباہ ہےاور آج ہی سے کم سے کم تنخواہ 25 ہزارپنشن میں 10 فیصد اضافی اور تنخواہوں میں بھی 10 فیصد اضافے کا اعلان کر دیا۔اگر خزانہ خالی اور معیشت تباہ تھی تو کیا یہ اپنے باپ کے اکاؤنٹ سے دیں گے ۔۔۔۔۔؟
بقول سٹیٹ بینک کے عمران خان پاکستان کے خزانے میں اس وقت 22 ارب ڈالر چھوڑ کر گیا۔ چار سال بعد کسی حکمران نے آفس چھوڑا تو جاتے ھوئے اسکی کل مال و متاع ایک ڈائری تھی اپنی ذاتی گاڑی نکالی ڈرائیو کرتے ہوئے

چلا گیا۔کپتان کی حکومت میں بہت سی ناکامیاں بھی رہیں لیکن دوسری طرف بہت سے جرات مندانہ فیصلے بھی ہوئے جو بحیٹیت قوم و مسلمان کے حق میں تھے جو اس سے پہلے لیڈر کرنے میں خوف محسوس کرتے تھے۔‏عمران خان الوداع!!یہ قوم کبھی نہیں بھولے گی عمران خان تم آخری وقت تک لڑے۔ کامیابی ناکامی اللہ کے ہاتھ میں ہے۔بقول سدیم عارض:

مجھ کو اتنا بھی اکیلا نہ سمجھ بستی میں
کوئی میرا بھی طرف دار نکل آئے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں