36

یہ سازش ہے کہ مداخلت !

یہ سازش ہے کہ مداخلت !

تحریک عدم اعتماد کی کامیابی اور میاں شہباز شریف کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعدقائم مقام سپیکر قومی اسمبلی نے تحریک انصاف کے 123 اراکان پارلیمان کے استعفے منظور کر لیے ہیں،تحریک انصاف کے ارکان پارلیمان کی ایک بڑی تعدادمیں استعفوں کے بعد حکومت کا ایک بڑا امتحان شروع ہو رہا ہے،

اگر حکومت ان حلقوں میں انتخابات کروانے کی کوشش کرتی ہے تو ایک سو تئیس حلقوں میں اتنے ہی جلسے ہوں گے اور اتنے ہی دن پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان خطاب کرتے ہوئے پاکستان کے لوگوں کو خود مختار پاکستان کا سبق دیتے ہوئے متحرک رکھنے کی کوشش کریں گے،حکومت کیلئے سب کچھ اتنا آسان نہیں ،جتنا کہ ظاہر کیا جارہا ہے ،یہ سازش ہے کہ مداخلت، اس سے نکلنے کا واحد حل عام انتخابات کا انعقاد ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت فوری انتخابات کروانے کیلئے تیار نہیں ہے، یہ بات تحریک انصاف اچھی طرح جانتی ہے ،اس لیے ہی چیئرمین عمران خان نے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا ہے ،وہ ایک طرف عوام کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ ایک سازش کے تحت موجودہ حکومت

ان پر مسلط کی گئی ہے تو دوسری طرف عدالت عظمیٰ سے بھی پوچھ رہے ہیں کہ رات کے اندھیرے میں عدالتیں کیوں لگائی گئیں؟ میں نے آج تک قانون توڑانہ کبھی عوام کواداروںکے خلاف بھڑکایاہے ،میں نے کیا جرم کیا تھا کہ رات کے بارہ بجے عدالتیں لگائی گئیں،پی ٹی آئی چیئر مین عمران خان کا کہنا ہے

کہ عوام کواب فیصلہ کرنا ہے کہ انہیں غلامی چاہیے یا آزادی،آج باشعور اور سوشل میڈیا کا پاکستان ہے،اس میں چھ کروڑ پاکستانیوں کے پاس سمارٹ فون ہیں، عوام کے منہ اب کوئی بند نہیں کرسکتا، ماضی میں وزیراعظم کو ہٹانے پر مٹھائیاں بانٹی جاتی تھیں، مجھے ہٹانے پر لوگ باہر نکلے ہیں،اس ملک میںجب تک نئے الیکشن نہیں ہوتے تب تک اس حکومت کے خلاف آواز بلند کرتا رہوں گا۔
یہ بات تو طے ہے

کہ عام انتخابات سے پہلے عمران خان احتجاجی تحریک روکیں گے نہ اسمبلیوں میں واپس آئیں گے،اگر حکومت خالی حلقوں میں دوبارہ انتخابات کرانے کی کوشش بھی کرتی ہے تو پی ٹی آئی مخالفین کے لیے عوام کے پاس جانا بہت بڑا چیلنج ہو گا، ملک بھر میں اتنی بڑی تعداد میں ضمنی انتخاب اتناآسان ہدف نہیں ،جتنا کہ سمجھا جارہا ہے، اس مرتبہ تحریکِ انصاف کے خلاف الیکشن لڑنا انتہائی مشکل ہو گا،

کیونکہ اس مرتبہ عمران خان مکمل طور پر مختلف حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے ہوئے ہیں،تحریک انصاف کی خودداری کی تحریک کو مذہبی رنگ یا کوئی دوسرارنگ دیکر ختم کرنا انتہائی مشکل ہو گا، عالمی طاقتوں کو سب سے زیادہ خطرہ پاکستان کے لوگوں کی آزاد انہ سوچ سے ہی رہا ہے ،اس سے قبل مختلف حربوں سے ایسی تحریکوں کو دبایا جاتا رہا ہے ، لیکن اس مرتبہ عمران خان کی خود داری اور خود مختاری کی تحریک دبانا مشکل نظر آرہاہے ،عمران خان اپنے جلسوں میں جو سوالات اٹھا رہے ہیں اور جن کے بارے اٹھا رہے ہیں ، اس کا جواب تو پاکستان کے کروڑوں لوگوں کو دینا ہی پڑے گا۔
پا کستانی عوام ہر سازش کے بعد مداخلت کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں ،گزشتہ روز پرنس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر سے وہاں موجود سوال کرنے والوں نے اپنے تائیں سازش کو مداخلت میں بدلنے کی کوشش کی ہے ،اس کو شش کو بڑے اچھے انداز میں آئی ایس پی آر کی جانب سے ہینڈل کیاگیا ہے،تاہم بلاول بھٹو زرد اری اسے تازہ ہوا کا جھونکا قرار دیے رہے ہیں،یہ بریفنگ ان کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ضرور ہو گی،

کیونکہ اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ میاں شہباز شریف بھی کافی گھٹن کے ماحول میں رہ رہے تھے، اب انہیں تھوڑی آزادی ملی ہے ،وہ تازہ ہوا سے ضرورلطف اندوز ہوں گے،لیکن یہ تازہ ہوا زیادہ دیر تک نہیں ملنے والی ہے ،عمران خان کراچی کے بعد لاہور اور اسلام آباد کے جلسوں میں چلتی ہوائوں کے رخ بدلنے کا بندوبست کرکے ہی آئیں گے۔اس میں شک نہیں کہ ہوائوں کا رخ بدلتے دیر نہیں لگتی ہے ،

تاہم اس وقت سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا؟ کیا ملک میں اسی طرح بے چینی اور افراتفری رہے گی؟ کیا کوئی درمیانی راہ نہیں نکالی جائے گی؟ہم ایک سیاسی بے چینی ختم کر کے دوسری بے چینی اور انتشار میں داخل ہوتے رہیں گے ،موجودہ حکومت میں شامل ساری جماعتیں قبل از وقت انتخابات کا مطالبہ کرتی رہی ہیں تو پھر یہ کام اب کیوں نہیں کیا جارہا ہے، ایک بڑی سیاسی جماعت کو حکومت سے نکال کے خود چین سے حکومت کیسے کی جا سکتی ہے،ایک طرف حکومت آگے بڑھنے کی بات کرتی ہے

تو دوسری جانب توقع رکھتی ہے کہ کپتان چند روزہ جلسوں کا شوق پورا کر کے اطمینان سے بیٹھ جائے ، ایسا ہرگز نہیں ہو گا، کیا آگ پر پانی ڈالے بغیر اسے ٹھنڈا کیا جا سکتا ہے ،اگراپوزیشن اور حکومت کے درمیان اسی طرح ٹھنی رہی تو ملک میں سیاسی استحکام آئے گا نہ ہی عوام کو کوئی ریلیف مل سکے گا، یہ سازش ہوئی ہے کہ مدخلت، اس مسئلے کو سلجھانے آسمان سے فرشتے نہیں آئیں گے،اس زمین پر رہنے والوں کو ہی مل بیٹھ کرکوئی قابل قبول حل نکالنا پڑے گا ،یہ بظاہر مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں