42

جمہوریت میں غیر جمہوری روئیے!

جمہوریت میں غیر جمہوری روئیے!

کالم :صدائے سحر
تحریر :شاہد ندیم احمد

حکومت بدل گئی ،مگرسیاسی روئیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے ، ملکی سیاست کا درجہ حرارت کم ہو نے کی بجائے دن بدن بڑھتا ہی جارہا ہے ، اس وقت جمہوریت کی حفاظت اور عوام کی نمائندگی کرنے والے داروں کے اندر جو کچھ ہورہا ہے، اس سے ملک کے اندر اور باہر کوئی اچھا پیغام نہیں جارہا ہے،یہ جمہوریت میں غیر جمہوری رویئے واضح کررہے ہیں کہ ہمارے عوامی نمائندے اپنے حصول مفاد میںکچھ بھی کر گزر سکتے ہیں،

وہ پارلیمان کاتقدس پا مال کرنے کے ساتھ آئین وقانون کی دھجیاںبھی بکھیر سکتے ہیں، اگر ہر طرح کی مراعات اور سہولیات لینے والے عوامی نمائندوں کا حال ایسا ہے تو پھربچاری غریب عوام سے کسی اچھائی کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے؟اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاست میں شدت پسندی اور عدم برداشت کی لہر کو ہوا دینے میں کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں ،ساری سیاسی جماعتوں کا ہی ہاتھ رہا ہے

،یہ عوام کے نام نہاد نمائندے صرف عوام کو اپنے اقتدار کے حصول کیلئے استعمال کرتے آرہے ہیں ،یہ عوام کے نام پر پہلے ایوان اقتدار میں جاتے ہیں، بعدازاں ایوان اقتدار سے نکلنے پر ایک دوسرے کے خلاف عوام ہی کو بڑھکانے لگتے ہیں،یہ ہر دم جمہوریت اور جمہوری رویات کے نعرے بھی لگاتے ہیں اور جمہوریت میں غیر جمہوری رویئے بھی اپنا تے ہیں،انہوں نے عوام کو بے وقوف بنارکھا ہے

اور عوام بے وقوف بنی ہوئی ہے ،وہ بار بار آزمائے ہوئے کو نہ صرف آزمارہی ہے ،بلکہ نئے سرے سے اُمیدیں بھی لگارہی ہے کہ یہ لوگ اُن کی زندگی میں کوئی تبدلی ضرور لائیں گے ،جبکہ ایسا کچھ بھی ہونے والا نہیں ،کیو نکہ ان کی تر جیح عوام کی بجائے صرف حصول اقتدار ہی رہاہے۔
در اصل ہمارے ہاں شروع سے جمہوریت کا راگ ضرور الاپاجاتا رہا ہے،مگراس ملک میںجمہوریت پنپ نہیںپائی ہے،

اس پر ہمیشہ سے تجربات ہی ہوتے رہے ہیں،ہمیں یہ معلوم نہیں کہ پرکھنے والوں کی کسوٹی کیا تھی، ہاں ایک بات ضرور ہے کہ اس میں بہت سے لوگ استعمال ہوئے اورایک دوسرے کے خلاف ابھی تک مکافات عمل جاری ہے ،سیاست میں جمہوریت کے نام پرکچھ شطرنج کے ماہر ابھی بھی پنجے گاڑھ کے بیٹھے ہیںاور کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے، تابعداری کرنے والوں کی بھی ایک لمبی قطار لگی ہے،لیکن اب حالات کسی حد تک بدل گئے ہیں ، پہلے تمام فریقین ایک مقصد ہونے کے باوجود اکٹھے نہیں ہوتے تھے ،مگر اب مل بیٹھ کر ہاتھ آیا مال باہمی مشاورت سے آپس میں باٹنے لگے ہیں۔
سیاسی قیادت کا خیال ہے کہ عوام کچھ نہیں جانتے اور نہ سمجھتے ہیں ،یہ اُن کی خام خیالی ہے ،اس ملک کا ہرشخص جانتا ہے اور اچھی طرح سمجھتا بھی ہے کہ اس کے دائیں بائیں کیا ہورہا ہے، سازش ہے کہ مداخلت بکوبی آگاہی رکھتا ہے ،ایک عام آدمی اچھی طرح جانتا ہے کہ کن کی وجہ سے مہنگائی ،بے روزگاری کی چکی میں پس رہا ہے،اور وہ سب لوگ آپس میں وزارتوں کی بندر بانٹ کرنے میں لگے ہیں،

اس ملک میں طاقتور کیلئے آئین و قانون نام کی کوئی چیز نہیں ، وہ جب چاہتا ہے اسے موم کی ناک سمجھ کر اپنی لیے گھوما لیتا ہے ،اس ملک میںبڑے منصب پے بیٹھا ہر شخص اپنی مرضی کر رہا ہے، ادارے ، عوامی ہونے چاہیں تھے ،مگر وہ بھی خاندانی ہوگئے ہیں، پتہ نہیں کب تک سب کچھ ایسے ہی چلتا رہے گا اور پسی ہوئے غریب عوام اسی طرح مزید آزمایا جا تے رہیں گے۔
یہ غیر جمہوری رویے کسی بھی سیاسی جماعت یا فرد کے ہوں، وہ ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں،سیاسی
جماعتیں اور افراد جمہوری نظام کے اندر ہی اپنی اہمیت رکھتے ہیں اور اگر یہ نظام ہی باقی نہ رہے تو ان سب کی اہمیت بھی صفر ہو جائے گی،اس لیے سیاسی اختلافات کو حق و باطل کی جنگ بنا کر ایک دوسرے کے خلاف بر سر پیکار ہو جانا کسی بھی طور مناسب نہیں ہے،عوام نہ چاہتے ہوئے بھی سیاسی قائدین کے رویوں سے بہت کچھ سیکھتے ہیں ،

اگر پاکستان میں یہ روایت مستحکم ہوگئی کہ کسی دوسرے سے نظریاتی اختلاف کی بنیاد پر اس کے خلاف کچھ بھی کر گزرنا جائز ہے تو ہماری آنے والی آئندہ نسلیں اس شدت پسندی کی قیمت ادا کریں گی ،پا کستان ہے تو ہم سب ہیں ،پا کستان نہیں تو کچھ بھی نہیں ،ہم سب کو ذاتیات سے ہٹ کر ملکی مفاد میں سو چنے کی ضرورت ہے ۔
اس وقت پا کستان کیلئے معیشت اور معاشرتی ترقی انتہائی ضروری ہے جو سیاسی ہم آہنگی اور پا ئیداری کے بغیر ممکن نہیں ،اس لیے سبھی سیاسی جماعتوں کو عوام اور ملکی مفاد میں اپنی طرز سیاست پر نظر ثانی کرنا ہو گی ،جمہوریت میں غیر جمہوری روئیوں میں تبدیلی لانا ہو گی ،اپنے ذاتی مفاد پر قومی مفاد کو تر جیح دینا ہو گی

،آمرانہ طرز سیاست کی بجائے جمہوری سوچ اپنانا ہو گی ،سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی روش تبدیل کرنے کا ایک بہترین موقع ہے کہ اس تخریب سے ایک نئی تعمیر کی بنیاد رکھی جاسکے ،اگر سیاسی قیادت نے وقت کی نزاکت کا احساس کرتے ہوئے اپنی غیر جمہوری روش نہ بدلی توملکی سیاست رہی سہی جمہوری چمک سے بھی محروم ہو جائے گی اور سیاسی قیادت آمریت کے گھوپ اندھیرے میں جمہوریت ٹٹولتے پھریں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں