حکومت نہیں، چہرے بدلتے ہیں!
کالم: صدائے سحر
تحریر:شاہد ندیم احمد
حکومت تبدیل ہو گئی اور نئی کا بینہ نے حلف بھی اُٹھا لیا ،لیکن عوام کے اندر کوئی اطمینان کی لہراُٹھتی دیکھائی نہیں دیے رہی ہے ،اس کی وجہ نئی حکومت کا آتے ہی طرز عمل ہے کہ جس کے باعث بے یقینی کم ہو نے کی بجائے بڑھنے لگی ہے ،حکومت ایک طرف آئی ایم ایف کے پاس جانے کا عندیہ دیے رہی ہے
تو دوسری جانب عوام کو رلیف دینے کی بجائے دی جانے والی سبسڈی کا بھی خاتمہ کرنے جارہی ہے ،اگر نئی حکومت نے کشکول پکڑے آئی ایم ایف کے در پر ہی کھڑا ہونا تھا اور عوام کوبڑھتی مہنگائی کی دلدل میں مزید دھکیلنا تھا تو یہ سب کچھ جانے والی حکومت بھی کررہی تھی ،اس حکومتی اتحاد کی نئی تبدیلی کہاں ہے
کہ جس کے دعوئے کرکے اقتدار حاصل کیا گیا ہے ؟اس وقت ملک کو کئی محاذوں پر بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے ،اس میں بعض چیلنج ایسے ہیں کہ کسی صورت نظر انداز کیے جاسکتے ہیں نہ تاخیر کے متحمل ہو سکتے ہیں ،اس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے ،تیزی کے ساتھ بالکل درست انداز سے کرنا پڑے گا،ملک کو در پیش ہر چیلنج بہتر منصوبہ سازی کا متقاضی ہے ،تاکہ جو کچھ بھی کیا جائے ،بڑے منظم انداز سے کیا جائے ،لیکن ہماری آنے والی حکومت کے پاس کوئی بہتر حکمت عملی ہے نہ ہی کوئی واضح نیا پلان ہے ،اس کا ایجنڈا توحکومت گرانا اور اپنی حکومت بنانا ہی رہا ہے ۔
در حقیقت ہمارے سیاستدانوں کی ہمیشہ سے تر جیح ملک وعوام نہیں ،حصول اقتدار رہا ہے ، ملک وعوام کو کیا مسائل در پیش ہیں ،ان مسائل سے کیسے نمٹاجارہاہے ،کون سی پا لیسی میں سقم ہے اور اسے دور کرکے کیسے عوام کو زیادہ سے زیادہ رلیف دیا جاسکتا ہے ،اس بارے سوچنا یا انہیں زیر غور لاناضروری ہی نہیں سمجھا جاتا ہے ،ہماری سیاست میں متبادل منصوبہ پیش کرنے کا کوئی رجحان نہیں ہے ،یہاں پر ہر سیاسی جماعت نیا پلان پیش کرنے کی بجائے اپنے مخالفین کے طرز سیاست کو تنقید کا نشانہ بنا کر ایک طرف اپنے اقتدار کو طول دینا اوردوسری جانب عوام کی نظروں میں بلند ہونا چاہتی ہے۔
اس ملک کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ہر سیاسی جماعت متبادل پلان اور حکومت میں آنے کی تیاری سے عاری دکھائی دیتی ہے ،یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی سیاسی جماعت یا کوئی سیاسی قیادت برسر اقتدار آئی ہے تویہی بیانات سسنے کو ملتے ہیں کہ ملک کا خزانہ خالی ہے ،گزشتہ حکومت کی ناقص پا لیسوں کے باعث عوام کو رلیف نہیں دیے سکتے ،ہمیں تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں
،موجودہ حکومت کے بیانات سنیں یا سابقہ حکومتوں کے بیانات پر غور کریں تو ان میں زرہ برابر بھی کوئی فرق دکھائی نہیں دیتا ہے ،ہر دور اقتدار میں حکمرانوں نے کبھی چھوٹے وعدوں ، دعوئوں کے ذریعے اور کبھی چھوٹے نعروں کے ذریعے عوام کوبے وقوف بناکرصرف استعما ل ہی کیا ہے ۔
اس میں سب سے زیادہ قصور وار عوام ہی رہے ہیں کہ جو ہر نئی آنے والی حکومت سے اپنی ساری اُمیدیں وابستہ کر لیتے ہیں ،
عوام کی بار ہا اُمیدیں ٹوٹی ہیں ،مگر وہ آزمائے کو آزمانے سے باز نہیں آرہے ہیں ، ملکی تاریخ کی ساڑھے سات دھائیاں شاہد ہیں کہ حکومت میں تبدیلی محض چہروں کی ہوتی ہے ،باقی سب کچھ ویسے ہی چلتا رہتا ہے ،ہر دور میں ایک جیسا حکمران طبقہ چہرے بدل کر مسند اختیار و اقتدار پر فائز ہوتا رہا اور اب بھی ہورہا ہے ،
عوام کی زندگی میں پہلے کو ئی تبدیلی آئی نہ آئندہ آنے والی ہے ،عوام جب تک غلامانہ زندگی گزراتے ہوئے آزمائی اشرافیہ کو خود پر مسلط ہونے کی اجازت دیتے رہیں گے ، اس وقت تک آزاد خوشحال زندگی کا خواب کبھی پورا نہیں ہو سکے گا۔
عوام کو بار بارسیاسی قیادت کی جانب دیکھتے رہنے کی بجائے اپنے روئیے میں تبدیلی لانا ہو گی ، عوام کو موروثی سیاست کے چنگل سے نکلنا ہو گا ،پاکستان کی مظلوم عوام پہلے ہی شدت پسندی، دہشت گردی اور تشدد کی تباہ کاریاںبھگت رہے ہیں،عوام کی ابھی تک ان قباحتوں سے جان نہیں چھوٹی ہے کہ سیاسی قیادت سیاسی جنونیت کا تڑکا لگانے کے درپے ہے،تاہم اب قوم ایسے کسی جھانسے میں آنے والی نہیں ہے ،
عوام پہلے ہی بہت سے دھکے کھا چکی اور بہت بڑی ذلت اٹھاچکی ہے،اس لیے اب نارمل انسانوں کی طرح ایک نارمل قوم بننا چاہتی ہے ، عوام بحیثیت قوم اپنے فیصلے اپنی ہی عدالت میں کرنا چاہتے ہیں،عوام چاہتے ہیں کہ اُن کی منتخب حکومت دھونس دھاندلی سے گرائی جائے نہ بیرونی اشاروں پر کوئی نئی حکومت بنائی جائے ، حکومت عوام کے ووٹ سے ہی آنی اور عوام کے ووٹ کے ذریعے ہی جانی چاہئے ،
لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب پاک فوج اور عدالت عظمیٰ قومی مفاد میں ایک بارمل بیٹھ کرسارے سیاسی بہروپیوں کا احتساب کردیے تو آئے روز حکومت کی تبدیلی کے نام م چہرے بدلنے کا کھیل تماشاختم ہوجائے گا اور پھر کوئی کسی سازش یا مداخلت پر اقتدار میں آنے کی جرأت نہیں کرپائے گا ۔