سیاسی بے یقینی میں استحکام کا راستہ
مسجد نبوی میں رونما ہونے والا واقعہ انتہائی قابلِ مذمت اور شرمناک تھا،مگر اس واقعہ پر حکومت آئے روزجس طرح زورو شور سے سیاست کررہی ہے ،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت کسی ایسے ہی واقعے کی منتطر تھی ،حکومت کی جانب سے ایک طرف جلتی پر تیل ڈالا جارہا ہے تو دوسری جانب اپنے مکالفین کی
گرفتاریوں کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے اس سے ملکی سیاست جہاں ایک بار پھر سیاسی انتقام کی جانب بڑھ رہی ہے وہیں تصادم کے خطرات بھی بڑھنے لگے ہیں ، ملک کی سیاسی قوتوں کو اپنے حصول مفاد میں اتنا آگے نہیں بڑھنا چاہئے کہ واپس پلٹنا مشکل ہو جائے،سیاسی قیادت جلتی پر تیل چھڑکنے کی بجائے آگ بجھانے کی کوشش کرے،ورنہ سیاست میں نفرت کی پھلتی آگ سے کوئی بھی بچ نہیں پائے گا۔
اس میں شک نہیں کہ ہماری سیاسی قیادت اپنے ذاتی مفاد کے حصول کیلئے سیاست میں مذہب کے استعمال کا بے دریغ استعمال کرتی آرہی ہے،ہر دور اقتدار میں کبھی اپنی سیاست چمکانے کیلئے اور کبھی مخالفین کو دبانے کیلئے مذہب کا استعمال کیا جاتا رہا ہے اور آج بھی کیا جارہا ہے ،اس کی تازہ مثال مسجد نبوی میں رونما ہونے والا واقعہ کی آڑ میں مخالفین پر قائم کیے جانے والے مقدمات ہیں، لیکن سیاسی مخالفت کی
بنا پر یا سیاسی احتجاج کی بنیاد پر توہین مذہب کی شقات کے تحت مقدمہ قائم کرنے سے پاکستان کے سیاسی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید الجھتے ہی جائیں گے۔وطن عزیز کو اس وقت سیاسی ہم آہنگی کی جتنی ضرورت ہے ،اتنی شائد پہلے کبھی نہیں تھی ،اس ہم آہنگی کے پیدا کر نے کی بہتر صورت یہی ہو سکتی ہے کہ ایک دوسرے کے وجود کو تسلیم کرنے کا اپنے اندر حوصلہ پیدا کیا جائے ،سیاسی جماعتیں
اپوزیشن میں ہوتے ہوئے اتفاق رائے اور ہم آہنگی کی باتیں بہت کرتے ہیں ،مگر اقتدار میں آتے ہی انتقام کی سیاست کرنے لگ جاتے ہیں،سیاسی رہنمائی کا فریضہ ہے کہ سوسائٹی میں ہم آہنگی ،اتفاق اور تحمل کے جذبات پید کرنے کیلئے اپنا مثبت کردار ادا کیا جائے ،پا کستان کی کثیر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے ، ایسے معاشرے میں عدم تحمل کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں ، یہ رہنمائی کا تقاضا ہے کہ سیاست میں ان پہلوئوں کو مد نظر رکھا جائے ،اس سے سیاست میں بہتری آنے کے ساتھ ملکی مسائل کے حل کی جانب بھی بڑھا جاسکے گا۔
اس وقت پا کستان کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے ،ایک طرف بیرونی قوتوں کی سازشیں کار فرماہیں تو دوسری جانب اندرونی محاذ آرائی عدم استحکام کا باعث بن رہی ہے ، اس صورت حال میں ملکی معیشت بحران کا شکار ہے ،ملک پر قر ضوں کا بوجھ روز بروز بڑھتا ہی جارہا ہے ،ملکی پیداوار میں کمی آرہی ہے اور بے روز گاری میں اضافہ ہو رہا ہے ،اس ملک کے نوجوانوں پر مشتمل آبادی کو روز گار کے مواقع چاہئیں
،صحت ، تعلیم وتربیت کی سہولیات چاہئیں ،بڑھتی مہنگائی سے نجات چاہئے ،مگر پا کستانی رہنمائوں نے عوام کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا رکھا ہے ،عوام کو کبھی ووٹ کو عزت دو کے نعرے کے پیچھے تو کبھی مہنگائی مکائو مارچ کے پیچھے لگا کر بے وقوف بنایا جاتا ہے اور اب مذہب کے نام پر استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،عوام کب تک مفاد پرست ٹولے کے ہاتھوں استعمال ہو تے رہیں گے ؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عوام آئے روز کی سیاسی محاذ آرائی سے تنگ آچکے ہیں ،عوام مزید استعمال ہوئے بغیر اپنے مسائل کا تدارک چاہتے ہیں ،عوام سیاسی محاذ آرائی کا کاتمہ چاہتے ہیں ،اس کے لیے سیاسی قیادت کو وسیع تر قومی مفاد میں باہمی ہم آہنگی پیدا کرنا ہو گی ،جو کہ سیاسی اعتدال اور برداشت کے بغیر ممکن نہیں ہے ،میاں شہباز شریف نے وزارت عظمیٰ کا حلف اُٹھانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں یقین دلایا تھا
کہ وہ کسی سے سیاسی انتقام نہیں لیں گے ،مگران کے ہی وزیر داخلہ اہنے مخالفیں پر مقدمات قائم کرنے اور گرفتار کرنے کی باتیں کررہے ہیں،اگر حکومت واقعی سیاسی انتقام نہ لینے کے نکتے پر قائم رہتی ہے تو وہ بہت سی ایسی روکا وٹیں دور کر سکے گی کہ جو اس کی راہ روکے کھڑی ہیں ،دوسری صورت میں انتقام کی دلدل میں خود بھی دھنس کررہ جائے گیاور اس دلدل سے کوئی نکال نہیں پائے گا۔
ہماری سیاسی قیادت نے ماضی کی غلطیوں سے نہ سیکھنے کی قسم کھارکھی ہے ،اس لیے بار بار وہی غلطیاں دہرائی جارہی ہیں ،ایک بار پھرتوہین مذہب کو سیاسی لڑائی کا حصہ بنا کر ایک افسوسناک اور خطرنا ک روایت قائم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے،سیاست میں مذہب کا ستعمال کرتے ہوئے اپنے مخالفیں کو نشان عبرت بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جو کہ نہ صرف کم ظرفی ہو گی ،
بلکہ سیاسی طور سے بھی غیر اخلاقی رویہ ہو گا، امید ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی کابینہ اس معاملہ پر ہوشمندانہ اور متوازن طرز عمل اختیار کریں گے اور فیصل آباد میں درج کروائی گئی ایف آئی آر کو نظر انداز کرکے ساری توجہ ملک میں ہم آہنگی، مفاہمت اور باہمی احترام کو فروغ دینے کی طرف مبذول کی جائے گی،
سیاسی قیادت کو اپنے اختلافات طول دینے کے بجائے ملک وقومی مفاد کے پیشِ نظر ختم کرنا ہوں گے، تاکہ موجودہ سیاسی بے یقینی کا خاتمہ ہوسکے، یہ سیاسی ا ستحکام کا بہترین راستہ ہے، اس راستے پر چلنے میںہی سب کی بہتری ہے۔