گیاوقت پھر ہاتھ آتا نہیں
حکومت مانے نہ مانے اور جتنا مرضی امریکی میمو ٹالنے کی کوشش کرتی رہے، لیکن امریکی میمو کامعاملہ تین ماہ سے ملکی سیاست کا محور بنا ہوا ہے ،اس معاملے پر قومی سلامتی کے دو اجلاس منعقد ہو چکے اور ان کے اعلامئے بھی آچکے ہیں ،اسکے باوجود معاملہ حل ہوتا دکھائی نہیں دیے رہا ہے ،حکومت نے
بیرونی سازش کے الزام پر اب انکواری کمیشن بنانے کا اعلان بھی کردیا ہے ،لیکن تحریک انصاف نے امریکی مراسلے پر حکومت کے کمیشن قائم کرنے کے اعلان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ صرف آزاد عدلیہ کی جانب سے بنائے گئے کمیشن کو ہی تسلیم کرے گی ،پی ٹی آئی کی جانب سے حکومتی تحقیقاتی کمیشن مسترد کرنے کے بعد اس تنازعہ کا اُونٹ کسی درست کروٹ بیٹھتا دیکھائی نہیں دیے رہا ہے۔
اس میں شک نہیں کہ عمران خان اپنی حکومت کے خلاف جس امریکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں، وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ،یہ ایک کھلا راز ہے کہ امریکہ کیلئے پاکستان کو نظرانداز کرنا یا اسے آزاد چھوڑ دینا، ان کے اسٹرٹیجک مفاد میں نہیں ہے،اس خطے میںپاکستان کے بغیر امریکا کبھی اپنی بالادستی قائم کرسکتا ہے نہ ہی مسلمان ملکوں پر اپنی گرفت مضبوط کرسکتے ہیں،
اگر پاکستان مضبوط و مستحکم اور خود مختار ہوگا تو وہ دوسرے مسلمان ملکوں کو بھی شہ دے گا اور انہیں امریکا سے بغاوت پر آمادہ کرے گا، اس لیے ضروری ہے کہ پاکستان کو کس کر رکھا جائے، اِسے آئی ایم ایف کے ذریعے معاشی طور پر مفلوج بنادیا جائے، اس پر ایف اے ٹی ایف کی گرفت برقرار رکھی جائے اور اندرون ملک سیاسی اکھاڑ پچھاڑ کے ذریعے اسے مسلسل سیاسی بحران میں مبتلا رکھا جائے، اس مقصد کے لیے پاکستانی سیاستدانوں پر سرمایہ کاری کرتا ہے اور انہیں آپس میں لڑواکر اپنا مقصد حاصل کرتا ہے۔
یہ پا کستان میں امریکی سازش سے مداخلت تک پہلی بار نہیں ہوئی ہے ،اس سے قبل بھی متعددبار ہوتی آ رہی ہے ، اس کاپا کستان نے بار ہا سامنا کیا ہے ،اس طرح کے بہت سے معاملات میں سے ایک معاملہ پیپلز پارٹی حکومت میں بھی پیش آیا تھا ،اس میں بھی امریکہ کا ہی نام آیا تھا اور اس وقت کے اپوزیشن لیڈر میاں نواز شریف معاملہ سپریم کورٹ لے گئے تھے ،اس پر سپریم کورٹ نے عدالتی کمیشن بنایا تھا ،
اس عدالتی کمیشن نے تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی تھی اور اسے عوام کیلئے بھی جاری کیا گیا تھا ،اگر ماضی کی روایت دہراتے ہوئے موجودہ میو کا معاملہ بھی حکومت سپریم کورٹ کے پاس بھیج دے اور چیف جسٹس سے عدالتی تحقیقاتی کمیشن بنانے کی درخواست کی جائے تو اس کا حل نکلے کی اُمید پیدا ہو سکتی ہے ،ورنہ یہ معاملہ اپوزیشن اور حکومت کے درمیان فٹبال بنارہے گا،
اس معاملے کو مزید الجھانے کی بجائے سلجھانے کی کوشش کرنی چاہئے۔پا کستان کے خلاف سازش کے بعد مداخلت کا معاملہ کوئی عام نہیں ،انتہائی سنجیدہ نوعیت کا معاملہ ہے ،کیونکہ اس میں ایک دوسرے بڑے ملک کانام آرہاہے ،اس میں جہاں سفارتی نزاکتیں ہیں ،وہیں اپنے مفادات بھی کار فرما ہیں ،تاہم یہ کسی ایک سیاسی جماعت یا کسی فرد واحدکا معاملہ نہیں ،پا کستان کا معاملہ ہے ،اس پر فریقین کو محض سیاست کرنے کی بجائے ،
اس کی تحقیقات کے قابل عمل حل کی جانب بڑھناچاہئے ،یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس کی وجہ سے جہاں ریاست کی آزادی دائو پر لگی ہے ،وہیں معاشرے میں سیاسی تقسیم بھی بڑھتی جارہی ہے ،سیاسی معاملات بیان بازی سے لڑائی جھگڑوں تک پہنچنے لگے ہیں،یہ صورت حال ملک کے مستقبل کیلئے کسی طور اچھی نہیں ہے ،اس سے اندرونی اور بیرونی طاق میں بیٹھے دشمن بہت زیادہ فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔
یہ وقت ملک میں انتشار کا نہیں ،اتحاد و یک جہتی دکھانے کا ہے ،لیکن سیاسی محاز آرائی میں ملکی سلامتی کو دائو پر لگایا جارہا ہے ،تحریک انصاف کا حکومت سے عدالتی کمیشن کامطالبہ ناجائز نہیں ہے ،اگر حکومت کسی سازش یا مداخلت میں کہیں ملوث نہیں ہے تو پھر عدالتی کمیشن بنانے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیوں کیا جارہا ہے ، عدالتی کمیشن بنا کر دودھ کا دودہ اور پانی کا پانی کردینا چاہئے ، تاہم اس دوران تحریک انصاف کو بھی چاہئے کہ قومی مفاد میں سیاسی تقسیم سے گریز کرے
محاذ آرائی سے اجتناب کریںاور ملک کو ناخوشگوار صورت حال سے نکالنے کے لیے افہام و تفہیم کا مظاہرہ کریں، اگر ملک کی سیاسی قیادت معاملات سلجھانے کی بجائے مزید بگاڑنے میں ہی لگے رہے تو وقت ہاتھ سے نکل جائے گا اور پھر پچھتاوے کے سوا کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آئے گا۔