42

ماں اور میں

ماں اور میں

از قلم: ثناء اکرم ملہی

ڈوبتے سورج نے ہر روز ایک پیغام دیا کہ تقلید مغرب کی تو ڈوب جاؤ گے، کہیں پڑھا ان گنہگار آنکھوں نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث جو زبان اطہر سے نکلی کہ مجھے اس طرف (مشرق کی طرف سے)سے ٹھنڈی ہوائیں آتی ہیں کہ میرے آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت پہ اس قدر مان اور فخر تھاکہ کیا کہنے.
دوسری طرف ہماری حالت اس طرح ہے کہ مغرب سے صدا اٹھی ہم عورت کا دن منا رہے ہیں، اس پاک دھرتی کی غیور اور خالص قوم نے کہا ہم بھی منائیں گے’ لبیک انہوں نے کہا ہم مدر ڈے منا رہے ہیں میری قوم نے کہا لبیک،اُس مغرب نے کہا ہم فادر ڈے منا رہے ہیں میری قوم نے کہا لبیک،اس نے کہا ہم استاد کا دن منا رہے ہیں

اس قوم نے کہا لبیک لبیک افسوس کہ کبھی ہم نے سوچا ہی نہیں کہ وہ لوگ یہ کیوں مناتے ہیں۔اور ہم ان کی تقلید کیوں کرتے ہیں جبکہ ہمارا دین تو ہمیں صرف دین محمدیہ کی تقلید سکھاتا ہے۔
کیا آپ نہیں جانتے کے مغرب میں ماں باپ کے حقوق نہیں ہیں وہ سال میں ایک دفعہ اولڈ ہوم جانے کی غرض سے یہ دن مختص کر لیتے ہیں۔کیا آپ نہیں جانتے کہ مغرب کی عورت کا کوء مقام مرتبہ نہیں

کہ وہ ایک دن صرف نام کے طور پر عورت کو عزت دیتے ہیں(واضح رہے یہ عزت نہیں ہوتی غلامی کی دوسری شکل ہے) کیا آپ نہیں جانتے کہ اسلام ہی وہ واحد دین جس میں استاد کا مقام و مرتبہ بہت بلند پایا گیا کہ شاگرد کا ہر عمل استاد کے لیے صدقہ جاریہ ہے۔تو میرے عزیزو! پھر کیوں کہتے ہو لبیک کیوں لگتے ہو اندھی تقلید کے پیچھے کیوں اپنی نسلوں کو اپنے ہاتھوں سے غلامی کی زنجیروں میں جھکڑ رہے ہو۔
ماں کے لیے اگر میرا قلم اٹھے تو اس کی آوز ہوگی کہ میں نے جب زمیں پہ آنکھ کھلی تو پہلا لمس جو پایا وہ ماں کا تھا میری ماں کو خوش تھی کہ اللہ نے بیٹی سے نوازا ہے۔رات دن ہوا کے دوش پہ ‘وقت کے چرخے سے اڑنے لگے اور میں بڑی ہونے لگی میں اس قابل ہوگء کہ دنیا میں چل سکوں، مجھے اس دنیا میں چلانے کے لیے ماں نے کتنی صعوبتیں سہی ہوں گی میری قلم لکھ بھی لے تو تمام نہ لکھ سکے گی

‘کہ ہر لمحہ احسان ہے ان کا، میرے حرفوں سے جملے بننے لگے مجھے گندمی رنگ کے سوا اور رنگ نظر آنے لگے’ مجھے شام سحر میں استعارے ملنے لگے’ مجھے ذائقوں کی پہچان ہونے لگی’ مجھے مسکرانا آنے لگا’ *میری گہری ہنسی میں ماں کی مسکراہٹ عود آتی ہے یہ معلوم ہونے لگا غرض مجھے’ میری خبر ہونے لگی یہ سب ماں کے سوا کسی نے مجھے نہ سکھایانہ بتایا نہ احساس دلایا میرا حرف حرف میرا لمحہ لمحہ ماں سے جڑا رہا، پھر جب میں سکول کے چار درجے چڑھ گء تو انگریزی تقلید پہ چلتے

میرے معاشرے سے مجھے معلوم ہوا کہ ایک دن آتا ہے سال میں جسے ہم مدر ڈے کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔مجھے نہیں معلوم میرے یہ الفاظ کتنے قارئین کو برے لگیں مگر سوچیے کہ میرے دین نے والدین کا جب مقام بتایا تو قرآن نے کلام کیا ہر فرد سے کہ رَّبِّ ارْحَمْہُمَا کَمَا رَبَّیَانِیْ صَغِیْراً (الاسرائ:24): اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر ایسے ہی رحم فر ماجیسا کہ انہوں نے بچپن میں رحمت و شفقت کے ساتھ میری پرورش کی ہے۔
یہ نبی کی دعا ہے جو ہمیں سب کو ہر روز بلکہ ہر نماز کے ساتھ مانگنی چاہیے اپنے والدین کے لیے
قربان جاؤں اس دین پہ کہ جس نے ہر دن کو ماں کا دن بنا دیا،ہر دن کو باپ کا دن بنا دیا، مگر ہم اندھی تقلید کے پیروکار کیا جانیں عظمت اس دین کی جو ماں کے لیے بولے تو ”قرنی” پیدا کرتا ہے باپ لیے بولے تو یوسف علیہ السلام و موسی علیہ السلام پیدا ہوتے ہیں۔ قرآن تو جگہ جگہ بتاتا ہے کہ اے ایمان والے تیرا تو ہر دن ماں کا دن ہے باپ کا دن ہے جیساکہ:
وَعْبُدُواللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْ بِہٖ شَیْئاً وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَاناً۔
’’اور اللہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کونہ ٹھہراو? اور ماں باپ سے بھلائی کرو۔‘‘(النسائ36)۔
قرآن نے اپنی گفتگو جہاں مکمل کی وہیں میرے نبی آخر الزماں جنہوں نے بچپن میں ہی یتیمی کا غم سہا اور پھر ماں کی جداء سینے سے لگا لی ان کی زبان اطہر بھی جب کھلی تو کیا فرمایا!
فرمایا گیا:
میں آدمی کو وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں، میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں،میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں،میں وصیت کرتا ہوں اس کی ماں کے حق میں۔‘‘

(امام احمد اور ابن ماجہ اور حاکم، بیہقی شریف نے سنن میں روایت کیا ہے)ایک صحابی نے نبی کریم سے پوچھا:کیا میں بھی جہاد میں شریک ہوجاو?ں؟ نبی کریم نے دریافت فرمایا کہ تمہارے ماں باپ موجود ہیں؟ انہوں نے کہا کہ جی ہاں موجود ہیں نبی کریم نے فرمایا کہ پھر انہی میں جہاد کرو(یعنی ان کی خدمت کرو)(صحیح بخاری) سیدناابو سفیان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا:
’’اللہ نے تم پر ماں کی نافرمانی حرام کردی ہے۔‘
نافرمانی میں والدین کے حقوق نہ دینا اور ناحق ان سے مطالبات کرنا بھی حرام قرار دیا ہے۔
ماں کی تکلیف کا بیان قرآن مجید میں:
علما ئے کرام فرماتے ہیں کہ حقِ خدمت ماں کا زیادہ ہے اور حقِ اطاعت حکم بجا لانا باپ کا زیادہ ہے اسی لئے رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے اور رب نے ماں کی عظمت کا اعلان فرمایا:
وَوَ صَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسَاناً، حَمَلَتْہُ اُ مُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا، وَحَمْلَہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰثُوْنَ شَھْرًا۔
’’اور ہم نے آدمی کو حکم کیا کہ اپنے ماں باپ سے بھلائی کرے۔ اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا تکلیف سے اور جنا(پیداکیا) اس کو تکلیف سے اور اسے اٹھائے پھرنا اور اس کا دودھ چھڑانا30 مہینہ میں۔
ایک جگہ الفاظ کو یوں قرطاس ِ زینت دیا گیا کہ
’’اور ہم نے آدمی کو اسکے ماں باپ کے بارے میں فرمایا، اس کی ماں نے اسے پیٹ میں رکھا کمزوری جھیلتی ہوئی اور اس کا دودھ چھوٹنا 2برس میں ہے کہ تواورمیری اوراپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر(تم سب کو)میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘ (لقمان14)
اسی طرح ایک اور حدیث میں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ: ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس آیا اور والدین سے نیکی کرنے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو، اپنی ماں کے ساتھ نیکی کرو۔ اپنے باپ کے ساتھ نیکثی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، اپنے باپ کے ساتھ نیکی کرو، رسول اللہ نے باپ سے پہلے ماں کا ذکر کیا
یعنی یہ وہ مقام ہے جہاں والدین کی بات کی گء ان سے نیکی کی ترغیب دی گء روایت ہے
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ایک شخص نے حضور کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا:یا رسول اللہ!سب سے زیادہ کون اس کا مستحق ہے کہ میں اس کے ساتھ نیک رفاقت (خیر خواہی) کروں؟ فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر؟فرمایا:تیری ماں۔عرض کیا پھر؟ فرمایا: تیری ماں۔عرض کیا پھر؟

فرمایا: تیرا باپ(امام بخاری اور مسلم نے اپنی اپنی صحیح میں اسے روایت کیا ہے)۔
پاکیزہ دین کے احکامات کا چند لفظوں کا زکر کیا تو معلوم ہوا کہ میر تو ہر دن مدر ڈے ہے میرا توہر لمحہ مدر ڈے ہے بہت سو کو یہاں اختلاف ہوگا مگر راقم خود اسی کم فہم و اندھی تقلید کا حصہ جہاں ساری قوم عقلی و روح کی غلامی میں سر جھکائے کھڑے ہیں۔
آپ ہی انصاف سے بتائیے کہ یہ تمام دن انگریز ہم سے منوا کر ہمارے پاکیزہ و با کمال رشتوں کی توہین نہیں کرواتا کہ ایک دن تو ہم ان معتبر رشتوں کو منائیں پھر بھول جائیں۔
یہ انگریزوں کی پھوپھی چاچی مامی خالہ ماموں نانا نانی دادی اور بہنوء سالی درانی جیٹھانی تایا تائی اور باقی بھی جورشتے ہوا کرتے ہیں یہ سب نہیں ہوتے کیا جو ان کا دن نہیں مناتے یا پھر میری قوم میں ان رشتوں کا دن نہ بھی منائیں تو گزارا ہو جاتا ہے نہیں ہوتا تو پاکیزہ ترین اور با احترام رشتوں کا دن منا? بغیر گزارا نہیں ہوتا؟!
کیا ہمارے والدین کے والدین کا کوء مقام و مرتبہ نہیں تھا یا ہمارے والدین کو ان کے والدین سے محبت نہیں تھی کیونکہ ان کے وقتوں میں یہ مغربی قباحت اس قدر کم تھی کہ ماں کا دن باپ کا دن استاد کا دن نہیں منایا جاتا تھا؟
راقم کی خواہش ہے کہ جب میرے جوان فخر سے کہیں کہ فلاں ڈگری کا مالک ہوں فلاں پوسٹ پہ کام کرتا ہوں تو اس وقت اس کی سوچ کا بحران نہ دکھائی دے اس کے عمل کے چیتھڑے اُڑے ہوے نہ دکھائی دیں اس کے چہرے سے بے علمی کی جھریاں واضح نہ ہوں اور وہ سینہ تان کر کہہ سکے جس دھرتی کا نظریہ لاالہ اللہ ہے

میں اس کا سپوت ہوں دین میرا ہے اور میں دین کا وارث ہوں
اے ماں تیرا حق نہ ہو سکے گا مجھ سے ادا کہ میرا پھر پیدا ہونا اگر ممکن ہو مرنے کے بعد تو بھی میں آ کے کہوں پچھلے حق ابھی باقی ہیں۔میں تو تیرے چہرے پہ کھلتی اس مسکان کی قیمت نہیں دے سکتی جو میرے لمس سے تیرے لبوں پہ کھلتی ہے پھر کیسے میں ایک دن میں تیری محبت کو مکمل لکھ دوں، نہیں لکھ سکتی کہ مجھے تیرے قدموں میں ہر سانس جینا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں