44

سیاست میں مداخلت کا الزام

سیاست میں مداخلت کا الزام

ملک بھر میں سیاسی محاذ آرائی روز بروز بڑھتی جارہی ہے ،اس سیاسی محاذ آرائی میں جہاں ایک دوسرے پر الزام تراشی کا سلسلہ جاری ہے ،وہیںاس میں مسلح افواج اور ان کی قیادت کو بھی دانستہ طور پر گھسیٹا جارہا ہے ،پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کی جانب سے ایک بار پھر تنبیہ کی گئی ہے

کہ ملک کے بہترین مفادمیں پاک فوج کو سیاسی گفتگو سے دور رکھا جائے،مگر سیاسی قیادت جمہوریت کی آڑ میں دانستہ اور غیر دانستہ ریاستی اداروں پر تنقید کرنے سے باز نہیں آرہی ہیں،اگرملک کو کمزور کرنے کی کوششیں اور وطن کے محافظ اداروں اور ان کی اعلیٰ قیادت کی بے توقیری ہی جمہوریت ہے

تو قوم کو ایسی جمہوریت نہیں چاہئے،یہ کونسی جمہوریت ہے کہ جس کا جب جی چاہے کھڑے ہوکر کبھی معزز عدلیہ اور کبھی دفاعی اداروں کی اعلیٰ قیادت کوڈکٹیٹ کرنا شروع کردے ، قوم کو ایسی کوئی بھی کوششیں ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔
اس میں شک نہیں کہ افواج پا کستان عوام کا ہی حصہ ہیں اور عوام کو بے انتہا ہردل عزیز ہیں ،لیکن عوام چاہتے ہیں کہ فوج سیاست میں مداخلت نہ کرے ،تر جمان پاک افواج بارہا یقین دہانی کرواچکے ہیں کہ فوج کا سیاست میں کوئی عمل دخل نہیں ،اسے سیاست میں نہ گھسیٹا جائے ،عوام مانتے ہیں کہ فوجی قیادت نیوٹرل ہو گئی ہے

،مگر سیاسی قیادت ماننے کیلئے تیار نہیں ہے ،وہ حصول خشنودکے جذ بہ سے شر شارتمام حدود پارکرنے پر تلے ہیں، جبکہ فوجی قیادت کا معاملہ بھی سمجھ سے بالا تر ہے کہ کبھی حکومت کے ساتھ ایک پیج پر ہوتی ہے اور کبھی الگ پیج پر ہو کر نیوٹل ہو جاتی ہے ، ریاست ادارے قابل احترام ہیں اور کوئی بھی ریاستی اداروں کے خلاف بیان بازی کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا ،اگر کوئی کررہا ہے تو دی جانے والی رعایت کا فائدہ اُٹھا رہا ہے ۔
ا س حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیانات دینے والوں کی تمام رگیں مقتدرہ کے ہاتھوں میںہیں، وہ چاہیں تو انہیں ایسے کاموں سے روک سکتے ہیںاور انہوں نے بار ہا اپنے مخالفین کوروک کر بھی دکھایا ہے ، عوام بھولے نہیں ہوں گے کہ ایک وقت تھا کہ جب مسلم لیگ (ن )اور پیپلز پارٹی قیادت نہ صرف فوج کے خلاف باتیں کرتے تھے، بلکہ ایسا لگتا تھا کہ فوج کے خلاف کوئی مہم شروع کررکھی ہے

، لیکن پھر حالات نے پلٹا کھایا اوراب وہی لوگ ریاستی داروں کے حق میں بیانات دے رہے ہیں ، ہمارے ہاں یہ رجحان عام ہے کہ جو پارٹی حکومت میں ہے اور اقتدار کے مزے لوٹ رہی ہے، اسے کبھی فوج پر تنقید کی نہیں سوجھتی ،لیکن جونہی اس کے اقتدار کا خاتمہ ہوتا ہے تو وہی لوگ ہر ادارے کے بارے میں باتیں کرنے لگتے ہیں

،یہ بات فوجی ترجمان جانتے ہیں اور عوام کو بھی اچھی طرح علم ہے کہ جتنا مرضی باور کرویا جائے کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ،مگر ان کا سیاست سے کوئی نہ کوئی تعلق ضرور رہتا ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ اگر سیاسی قیادت اقتدار سے باہر نکل کر ہی کوستے ہیں تو ان کے پاس کوئی نہ کوئی جواز ہو گا ،تاہم اس سارے کھیل میں سیاسی قیادت کا توکچھ نہیں جاتا ،البتہ جذباتی سیاسی کارکنان رگڑے میں آجاتے ہیں،اس بار بھی سیاسی کار کنان کے خلاف ہی کریک ڈائون کیا جارہا ہے ،جبکہ بیان بازی کرنے والے آزادانہ گھوم رہے ہیں، ریاستی ادارے اچھئی طرح جانتے ہیں کہ کون کس کے خلاف مہم جوئی کررہا ہے

اور اسے کس کی سپورٹ حاصل ہے ،اس کے باوجود انہیں سختی سے روکنے کی بجائے صرف برہمی کا اظہار کیا جارہا ہے،فوج کو سیاست میں کوئی گھسیٹ سکتا ہے نہ اس کے خلاف بیان بازی کر سکتا ہے ، فوج اپنی مرضی سے سیاست میں آتی ہے اور اپنی مرضی سے ہی نیوٹل ہونے کا تاثر دیتی ہے ،لیکن ملکی سیاست اور قیادت دونوںکو کبھی اپنی نظروں سے اوجھل ہونے نہیں دیتی ہے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں

کہ پاکستانی عوام وطنِ عزیز کے دفاع کے لیے قربانیاں دینے والی مسلح افواج کے ساتھ کھڑے ہیں اور کسی بھی جماعت یا شخصیت کے منفی پراپیگنڈے سے عوام اور افواج کے درمیان خلیج پیدا نہیں ہوگی،سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو بھولنا نہیں چاہیے کہ ان کا وجود ریاست اور سیاسی نظام ہی کی وجہ سے قائم ہے اور اگر انھوں نے
ریاست اور نظام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تو اس سے انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا،سیاسی قیادت کو سوچنا چاہئے کہ ملک میں افرا تفری پھلانے کی بجائے اپنا آئینی و جمہوری کردار اداکریں اور عوام کو بھی انتشار سے بچائیں ،

عوام کو بھی سیاسی جماعتوں کے آلہ کار بن کر ریاستی اداروں پر تنقید نہیں کرنی چاہئے ، اگرفوج نے سیاست سے دور رہنے کا تہیہ کر ہی لیا ہے تو اس پر سیاست میں مداخلت کا لزام لگا کر زیر بحث نہیں لانا چاہئے ،اس میں ہی ملک وقوم کی بہتری ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں