کیا کھویا کیا پایا 56

کیا کھویا کیا پایا

کیا کھویا کیا پایا

از کومل شہزادی،سیالکوٹ

نئے اور پرانے پاکستان میں کیا کھویا کیا پایا اس کا تذکرہ اس کرتی ہوں۔سابقہ حکومت کیسے مداخلت اور سازش سے ختم کی گئی اور موجودہ حکومت میں بیٹھنے والے نئے حاکم کیسے اس ملک پر بنا کسی میرٹ کی بنیاد پر آکر بیٹھ گئے۔یہ سارا کھیل تو ایک طرف رہا لیکن سابقہ وموجودہ حکومت اور نئے اور پرانے پاکستان میں ہم نے کیا کھویا کیا پایا۔سابقہ حکومت نے غرباء کے لیے بے شمار کام کیے اس سے منہ نہیں

موڑا جاسکتا۔جدھر خامیاں بھی رہیں وہیں خوبیاں بھی لازم موجود ہیں۔پی ٹی آئی حکومت ساڑھے تین سال کی مدت میں بے شمار قدرتی مسائل کا بھی سامنا رہا اس دوران کرونا سے نمٹنا حکومت کے لیے سب سے درپیش مسئلوں میں اہم مسئلہ تھا۔جس قدر کرونا کی وبا نے سب ملکوں کو اپنے حصار میں لیا اور بے شمار اموات واقعہ ہوئیں وہیں پاکستان بھی اس آفت میں کسی سے کم نہیں رہا لیکن جس انداز سے اس وبا پر قابو پایا گیا

بروقت ایمرجنسی اور ویکسین جیسے اقدامات فراہم کیے گے جس سے اموات قدرے دوسرے ملکوں کی نسبت کم ہوئیں اس کے لیے سابقہ حکومت کو داد بنتی ہے۔اگر کرونا کے دوران موجودہ حکومت ہوتی تو تمام حاکموں نے لندن میں جاکر بیٹھ جانا تھا کہ کہیں ہمیں پاکستان سےکرونا نہ چمٹ جائے جن کے معمولی بخار کے

علاج بھی باہر ممالک جاکر ہی ممکن ہوتے ہیں۔دوسرا پی ٹی آئی حکومت نے بہت سارے پراجیکٹ پر کام کیے جو جاری وساری تھے جو عوام وملک کے لیے خوشخالی و ترقی کا باعث تھے۔عمران خان نے آخر کون کون سے پراجیکٹ پر کام کیا اور اپنی حکومت میں ایسا کیا کیا کرگیا کہ سبھی مخالف بن گئے وہ تفصیلی نکات درج ذیل ہیں۔

1۔احساس کفالت پروگرام
2۔لنگر خانے
3۔شیلٹر ہوم کا قیام
4۔راشن کارڈ
5۔کسان کارڈ
6۔صحت انصاف کارڈ
7۔احساس سکالر شپ پروگرام
8۔انصاف آفٹر نون سکول
9۔انصاف معذور و بزرگ کارڈ
10۔مزدور کارڈ
11۔روشن ڈیجیٹل پروگرام
12۔خدمت ای مراکز کا قیام
13۔نیب کو با اختیار بنانا
14۔راست پروگرام
15۔سیرت یونیورسٹی کا قیام
16۔ٹورازم کا فروغ
17۔بلین سونامی ٹری کا آغاز
18۔ ٹیکس ریفارمز
19۔کرکٹ سے ہی کرکٹ بورڈ کا چیئرمین
20۔پاکستان میں کرکٹ کی بحالی
21۔ پی ایس ایل کی کامیابی
22۔ای ٹرانسفر و پنشن کا قیام
23۔بھاشا، ۔مہمند اور واسو ڈیم پر کام کا آغاز
24۔اپنا گھر سکیم کا قیام
25۔بلا سود قرضے کی سکیم
26۔21 نئی یونیورسٹیوں پر کام کا آغاز
27۔اور 23 نئے ڈسٹرکٹ ہسپتالوں پر کام ۔
28۔پاکستان سٹیزن پورٹل کا قیام
29۔رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کا قیام
30۔ہر فورم پر حرمت رسولؐ پر آواز اٹھانا
31۔پی آئی اے، پی ٹی وی اور این ایچ اے کو منافع بخش ادارہ بنانا
32۔زمینوں کی ڈیجیٹلائزیش
33۔نیا کی 11ویں بڑی آئل ریفائنری کا قیام
34۔خیبر پی کے میں یتیم خانے اور اولڈ ہوم کا قیام
35۔سری لنکا کے مسلمانوں کو مرنے کے بعد جلائے جانے کے خلاف آواز اٹھائی
36۔کشمیر اور فلسطین کی آواز اٹھائی
37۔سکولوں میں صبح درود شریف اور قرآن پاک کی تعلیم کا آغاز
38۔قرآن کی تعلیم کے بغیر ڈگری دینے کا قانون ختم کرنا
39۔یکسان نظام تعلیم لاگو کرنے کی کوشش
40۔ریکوڈک منصوبے ہر کام ۔
41۔سعودی عرب سے مزدوروں کی رہائی۔
42۔پوری دنیا کی حاکمیت صرف اللہ کے پاس ہے اس چیز کو پوری دنیا میں باور کرانا ۔
43۔قوم کے اندر خوداری پیدا کرنا

ہمارے ملک وعوام کے لیے بڑا پراجیکٹ جو خوشخالی کی علامت تھا وہ سی پیک کا منصوبہ تھا۔سی پیک پاکستان کی معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لیے ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔پاکستان میں سی پیک کی بنیاد ایک ایسے وقت میں رکھی گئی تھی جب پاکستان کو دنیا بھر میں ایک ناکام ملک کا لقب دیا گیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود چین نے پاکستان میں 62 ارب ڈالرز کی اقتصادی راہداری کے معاہدے پر دستخط کیے جس کے بارے میں پاکستان کو یہی تاثر ملا کہ ’چین دوست ہے اس لیے سرمایہ لگاتا ہے۔‘
یہ منصوبہ اک طرح سے گیم چینجر کی حیثیت رکھتا ہے کہ طاقتوں کا توازن پاکستان اور چین کی جھولی میں ہوگا۔اس وقت جنگیں معاشی لحاظ سے لڑی جارہی ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اسی ملک کا پلڑا بھاری ہوگا جس کی معیشت مضبوط ہوگی ۔سی پیک منصوبہ دنیا کا سب سے بڑا معاشی پراجیکٹ ہے ۔

سی پیک میں ہمارے مفادات سے زیادہ چین کے مفادات شامل ہیں۔سی پیک کی تعمیر کے بغیر چین دنیا میں سپر پاور اور معاشی کنگ نہیں بن سکتا۔ہمارے اپنے مفادات بھی اپنی جگہ موجود ہیں ۔سی پیک کامنصوبہ پاکستان کی ترقی کے لیے سنگ میل کی حیثیت رکھتا تھا۔لیکن اس کی سب سے زیادہ تنگی امریکہ کو تھی کیونکہ وہ غلامی کی زنجیروں سے ہمیں آزاد تھوڑی ہونے دے گا۔ن لیگ یعنی بھکاریوں کی

حکومت آتے ہی سب سے پہلے اس منصوبے پر کام کرنے والے مزدوروں کی چھٹی کروائی گئی جو اپنے ملک چین واپس چلے گے۔اس میں جن کو فائدہ یا نقصان سب اس سے آشنا ہیں۔
صحت کارڈ سے بہت سے غرباء کو فائدہ ہوا۔جس کی اہمیت یہ تھی کہ منتخب سرکاری و نجی ہسپتالوں میں داخلے کی صورت میں،

علاج کی سہولت حاصل کر سکتے ہیں۔ نادرا کے ریکارڈ کے مطابق پنجاب کے ہر مستقل رہائشی خاندان کو اس پروگرام کے تحت منتخب سرکاری و نجی ہسپتالوں میں داخلے کی صورت میں مفت علاج کی سہولت حاصل ہو گی۔
ہسپتال میں داخلے کے بعد تمام علاج بشمول ادویات اور تشخیصی ٹیسٹ مفت ہیں، یہی نہیں بلکہ ہسپتال سے اخراج کے بعد پانچ دن کی ادویات بھی ہسپتال فراہم کرتا ہے۔

علاوہ ازیں احساس پروگرام ایک عمدہ فلاحی منصوبہ ہے۔احساس پروگرام کو پاکستان میں غربت میں کمی لانے اور فلاحی ریاست کے قیام کیلئے کلیدی اہمیت کا حامل تھا۔حکومت نے اس پروگرام کے تحت بزرگ پنشنرز کے لئے 3 ارب مختص کئے ہیں وہیں خواجہ سرائوں اور غریبوں کے لئے کمیونٹی ویلفیئر کا قیام، بیوائوں اور یتیموں کی مالی امداد اور پنجاب بھر میں شیلٹر ہومز اور پناہ گاہوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔
عمران خان کا سب سے قابل داد کارنامہ ختم ونبوت پر آواز اٹھانا تھا۔سابقہوزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ سمیت ہر علاقائی و عالمی فورم پر ناموس رسالت کیلئے آواز اٹھانے والے واحد حکمران ہیں۔وزیراعظم عمران خان اقوام متحدہ سمیت ہر علاقائی و عالمی فورم پر ناموس رسالت کیلئے آواز اٹھانے والے واحد حکمران ہیں۔خلفائے راشدین کا طرز حکمرانی عوام کی فلاح و بہبود کے اصول پر قائم تھا اور عمران خان کی جانب سے پناہ گاہوں اور لنگر خانوں کا قیام حق چار یار کے نظام کی تقلید میں ہے ۔
المختصر،جدھر سابقہ حکومت میں کچھ خامیاں رہیں وہیں کامیابیوں و خوبیوں کو داد دینی بنتی ہے کیونکہ اس حکومت نے غرباء کے لیے بہت سی سہولیات فراہم کیں۔جن میں لنگر خانے اورپناہ گاہیں تھیں ۔موجودہ حکومت جو ایک فراڈ وسازش کے تحت عوام پر مسلط ہوگئی ہے اُس کے آتے ہی اگلے دن سے یہ سب پراجیکٹ کوختم کر دیا گیا۔لنگر خانے مکمل طور پر تالے لگ گئے اور صحت کارڈ جس سے بے بس عوام کو کچھ سہولت میسر تھی اُس کو ختم کیا گیا ۔مخالفت اس حد تک کہ اُس کے ہر جگہ سے فلیکس وغیرہ بھی اتار کر پھینک دی گئیں۔
بقول حیات وارثی:

گھر اجاڑنے والے کاش سوچتے یہ بھی
گھر بسائے جاتے ہیں کتنی جانفشانی سے

جن لوگوں کی تقاریر چند پرچیوں پر مبنی ہوتی ہے جنہیں اپنے ملک و قوم کی ویسے خبر نہیں وہ اس عوام کا کیا بھلا کریں گے۔امید سے کہہ سکتی ہوں ایسے لیڈر بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔اگر قائداعظم ،بھٹو اور بے نظیر کی طرح یہ انسان سازش اور قاتلانہ گیمز سے محفوظ رہ گیا تو پاکستان کا آنے والا اور تاحیات لیڈر یہ ہی رہے گا۔اور اس ملک کی کامیابی کی راہیں ہموار ہوسکیں گی۔ورنہ عوام اپنا خون نچوڑ کر ٹیکس دیتی رہے گی اور اُس کو اڑانے والے لندن کی فضاؤں میں چند سیکنڈمیں اڑانے سے گریز نہیں کریں گے۔بقول اقبال عظیم:

اور ہر چیز بدل ڈالی چمن والوں نے
بس غریب الوطنی اپنی جگہ باقی ہے

آخر پر چند الفاظ کہ سب عوام کے سامنے ہے کہ ہم نے نئے اور پرانے پاکستان میں کیا کھویا اور کیا پایا اور عوام کس کے ساتھ ہوگی آنے والا وقت یہ بھی ظاہر کردے گا۔اب عوام پر ہے کہ وہ کن کو اپنے اوپر مسلط کرنا چاہتے ہیں یعنی غلامی کی یا آزادی کی زندگی اس کا چناو عوام کے ہاتھ میں ہے۔
بقول شاعر:

قبیلے والو اٹھو اور اپنا بچائو کر لو کہ میں نے کل شب
فصیل شہر اماں کے باہر نقب زنوں کے گروہ دیکھے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں