92

عہد ساز شخصیت ڈاکٹر رضوان بھی اللہ کے حضور پیش

عہد ساز شخصیت ڈاکٹر رضوان بھی اللہ کے حضور پیش

تحریر: اکرم عامر سرگودھا
فون: 03008600610
وٹس ایپ: 03063241100

ڈاکٹر محمد رضوان پنجاب پولیس میں دبنگ آفیسر کے طور پر جانے جاتے تھے، ان جیسا دلیر آفیسر راقم نے 38 سالہ صحافتی زندگی میں کم کم دیکھا ہے، موصوف سے میری پہلی ملاقات جھنگ میں ایک واقعہ کے دوران ہوئی تھی، وہ ایک انتہائی پیچیدہ کیس تھا جس میں صوبہ کی ایک اعلی سیاسی شخصیت نے جنوبی پنجاب کی ایک معزز فیملی کے نوجوان جو جھنگ میں گرفتار تھا کو مقابلے میں پار کرنے کا حکم دے رکھا تھا

کہ اس معاملہ میں سینئر صحافی میاں غفار نے حقائق جانتے ہوئے مداخلت کی اور انہوں نے ڈاکٹر رضوان کو نوجوان کے بارے میں اصل صورتحال سے آگاہ کیا کہ پکڑا جانے والا طالبعلم اور ایک معزز گھرانے کا فرد ہے جس کا جرم اور جرائم سے کوئی تعلق نہیں، میاں غفار نے حالات بارے اس وقت کے

آر پی او ساہیوال امجد جاوید سلیمی،آر پی او سرگودھا میاں جاوید اسلام کو بھی بتایا، اس طرح ہر دو افسران نے بھی اس معاملہ میں اپنا وزن میاں غفار کے پلڑے میں ڈال دیا، ڈاکٹر رضوان نے تفتیش کے بعد نوجوان کو اسی رات رہا کر دیا، میاں غفار لاہور اور رہائی پانے والا نوجوان، اس کا خاندان اور راقم اپنی منزل پر پہنچ گئے، لیکن ڈاکٹر رضوان کی جرات اور انصاف پسندی گاہے بگاہے یاد آتا رہا۔
19 اپریل 2011 کو ڈاکٹر رضوان بطور ڈی پی او سرگودھا تعینات ہوئے اور موصوف 2 مارچ 2013 تک شاہینوں کے شہر میں تعینات رہ کر جرات اور بردباری سے ضلع بھر میں سائلین کو انصاف فراہم کرتے رہے، موصوف نے کئی بڑے جرائم پیشہ، رسہ گیروں کو پابند سلاسل کیا، اور کئی سنگین نوعیت کے جرائم پیشہ افراد ضلع چھوڑ گئے اور کوئی دنیا سے رخصت ہوگئے، ڈاکٹر رضوان کو جرم اور جرائم پیشہ عناصر سے نفرت اور مظلوم سے پیار تھا، مظلوم کو انصاف کی فراہمی کیلئے وہ ہر قدم اٹھا جاتے تھے

۔ مڈھ رانجھا کے علاقہ میں سکول ٹیچر نفیس خان اسلم مڈھیانہ جو کہ علاقہ کا کنگ تھا کے بارے میں کچھ سخت الفاظ کہہ بیٹھا تو سابق ایم پی اے اسلم مڈھیانہ کے حواریوں نے بھرے بازار میں سکول ٹیچر کی ٹانگیں توڑ دیں، یہ ڈاکٹر رضوان کیلئے چیلنج کیس تھا، کیونکہ اسلم مڈھیانہ کا بیٹا اور داماد وقت کے ایم پی اے تھے جبکہ داماد کے بھائی ندیم افضل چن ایم این اے اور چیئر مین پبلک اکا?نٹس کمیٹی قومی اسمبلی جبکہ ندیم افضل چن کے ماموں نذر محمد گوندل وفاقی وزیر خوراک تھے،

جبکہ دیگر کئی وزراء اور ارکان اسمبلی بھی اسلم مڈھیانہ کو سپورٹ کر رہے تھے، اس طرح ایک سیاسی گھرانے سے تعلق رکھنے والے اسلم مڈھیانہ کو گرفتار کرنا چیلنج نظر آ رہا تھا، پھر ضلع سمیت ملک بھر کی عوام نے دیکھا کہ ڈاکٹر محمد رضوان نے نہ صرف اسلم مڈھیانہ کو گرفتار کروایا، بلکہ اس کیخلاف دہشتگردی کا مقدمہ درج کیا گیا، مگر بدقسمتی کہ عدالت اسلم مڈھیانہ کو ریلیف دے گئی

اور دہشتگردی کی دفعہ ختم ہو گئی، اسلم مڈھیانہ کی گرفتاری پر ان کے رشتہ دار سیاستدانوں نے اکٹھے ہو کر ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ گلگت بلتستان کروا دیا تو پنجاب میں وزیر اعلی میاں شہباز شریف تھے، انصاف، میرٹ پسند اور جرات مند ہونے کی بنا پر وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے اس وقت کے آئی

جی پنجاب کو ہدایت کی کہ ڈاکٹر رضوان کو پنجاب سے ریلیو نہ کیا جائے، ڈاکٹر رضوان نے ٹیلی فون کال کر کے راقم کو اپنی رہائشگاہ پر بلوایا تو وہاں مرحوم نعیم اختر خان ،عنصر خان بلوچ ایڈووکیٹ و دیگرپہلے سے موجود تھے، فیصلہ کیا گیا کہ تبادلہ کے احکامات کو اسلام آباد سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے، پھر راقم اور ڈاکٹر محمد رضوان رات کو ہی اسلام آباد روانہ ہو گئے اور صبح سپریم کورٹ سے رجوع کیا

تو عدالت عظمی نے ڈاکٹر رضوان کے تبادلے کے احکامات معطل کر دیئے،اور ڈاکٹر رضوان بعد میں کئی ماہ تک بدستور ڈی پی او سرگودھا کام کرتے رہے، موصوف نے جدید پولیسنگ نظام متعارف کروایا، سرگودھا میں 15 کو فعال کیا اور تھانہ کینٹ اور ساجد شہید میں سی پی ایل سی کا دفتر قائم کیا، سی پی ایل سی کے ممبران میں راقم بھی شامل تھا، اس دور میں دی سٹیزنز پولیس لائزن کمیٹی نے لا تعداد چھوٹے نوعیت کے

بالخصوص گھریلو نوعیت کے مقدمات سلجھائے، ڈاکٹر رضوان نے اس کے علاوہ بھی سرگودھا پولیس میں لا تعداد تبدیلیاں کیں جس سے پولیس اور عوام میں دوریاں کم ہوئیں، ان کی آواز میں چٹان جیسی مضبوطی اور بادلوں جیسی گھن گرج تھی، وہ تیز و تند طوفانوں سے ٹکرانے کا جذبہ رکھتے تھے، ان کے باطن میں ایک ایسا انسان موجود تھا، جو جذبہ حب الوطنی سے سرشار تھا، ان کی شخصیت پر لکھا جائے

تو کئی کتابیں شائع ہو سکتی ہیں لیکن متن ختم نہیں ہو پائے گا۔02 مارچ 2013 کو ڈاکٹر رضوان کا تبادلہ سی پی او ملتان ہو گیا اور سرگودھا سے ملتان خدمات سر انجام دینے چلے گئے، ملتان سے ایس ایس پی آپریشن لاہور تعینات ہوئے، 2015ء میں ان کی خدمات وفاق کے سپرد کر دی گئیں اور موصوف کو ایس ایس پی آپریشن اسلام آباد تعینات کر دیا گیا، پھر کچھ عرصہ کیلئے ڈاکٹر رضوان علاج اور وقت گزارنے کیلئے آسٹریلیا چلے گئے

، واپس آئے تو 2019 میں ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب کے فرائض سونپ دیئے گئے، جب بھی، جہاں بھی ان سے ملاقات ہوئی ڈاکٹر رضوان ہمیشہ اخلاص سے ملے اور کبھی ایسا محسوس نہیں ہونے دیا کہ اب وہ سرگودھا میں نہیں کسی اور ضلع میں تعینات ہیں۔ بطور ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر رضوان نے کئی سیاستدانوں اور اہم شخصیات کے کیسوں کی تفتیش کی، جن میں سے اب کئی حکومت کا حصہ ہیں۔
وفاق میں حکومت تبدیل ہوئی تو ڈائریکٹر ایف آئی اے پنجاب ڈاکٹر محمد رضوان نے چھٹی لے لی اور وہ کچھ وقت کیلئے آسٹریلیا جانا چاہتے تھے کہ وقت نے ساتھ نہ دیا اور9 مئی 2022 کو وہ دل کے ہاتھوں ہار کر ہمیشہ کیلئے جہان فانی سے رخصت ہو گئے، لیکن ان کی یادیں، اب بھی باقی ہیں، یقین نہیں

آتا کہ وہ ہم سے ہمیشہ کیلئے دور ہو گئے ہیں، کیونکہ ڈاکٹر رضوان نے تو بیماری کیخلاف ایک طویل جنگ لڑی اور جیتی تھی لیکن موت چونکہ برحق ہے، ہر شخص نے فانی دنیا سے جانا ہے، اللہ پاک ڈاکٹر محمد رضوان مرحوم کی آخری منزل آسان کرے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔آمین

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں