63

اپنا بویا ہی کا ٹناپڑے گا

اپنا بویا ہی کا ٹناپڑے گا

موجودہ اتحادی حکومت مانگے تانگے کی جن بیساکھیوں پر کھڑی ہے، وہ اِس قدر کمزور ہیں کہ طاقتوروں کی آنکھ کے ایک اشارے پر ڈھیر ہو سکتی ہے، اتنی ناپائیدار شاخ پر اقتدار کا آشیانہ بنانے والے ذرا سوچیں کہ آج طاقتور وں کی خوشنودی کے لیے یہ لوگ عوام دشمنی پر مبنی ایسے سنگدلانہ فیصلے کریں گے اور تھوڑے ہی دنوں پر بجٹ میں ایسے ہی زہریلے گھونٹ عوام کو پلائیں گے

تو عوامی نفرت کا سارا لاوا ان کے خلاف نہیں اٹھے گا؟ تب یہ لوگ کہاں کھڑے ہوں گے ،کیا مسلم لیگ( ن ) قیادت کو اس بات کا ادراک نہیں ہے؟ اس سارے منظر نامے میں جن کی مقبولیت دائو پر لگی ہے، اس کی اصل قیمت بھی انہیں ہی چکانا پڑے گی اوراپنا بویا خود ہی کا ٹنا پڑے گا۔
یہ پا کستانی عوام کی بد قسمتی رہی ہے کہ انہیںجو بھی حکمران ملے ،انہوں نے نہایت ڈھٹائی سے جھوٹ بول کر عوام کو دھوکہ دینے میں کبھی عار محسوس نہیں کیا ہے ،پی ڈی ایم قیادت اقتدار میں آنے سے قبل ملکی مسائل کے تدارک کے حوالے سے دعوئیدار رہی ہے کہ ہمارے پاس سارے ماسائل کا مؤثر پلان موجود ہے ،

مگر اقتدار میں آنے کے بعد تمام تر دعوئے دھر کے دھرے رہ گئے ہیں ،حکومتی اتحاد اب سارا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالنے میں لگے ہیں ،ایک طرف مہنگائی مارچ کرنے والے عوام پر مہنگائی بم گرارہے ہیں تو دوسری جانب عوام سے رلیف دینے کے جھوٹے دعوئے کرنا بھی نہیں چھوڑ رہے ہیں،حکومتی اتحادی پہلے بھی عوام کو بے وقوف بناتے رہے ہیں اور اب بھی سمجھتے ہیں کہ عوام کو ایک بار پھر بے وقوف بنانے میں کا میاب ہو جائیں گے۔اس میں شک نہیں کہ ہمارے حکمران جھوٹ اور فریب کے

ذریعے عوام کو بے وقوف بنانا کمال فن سمجھتے ہیں ،بلکہ اس پر فخر بھی کرتے نظر آتے ہیں، ایک طرف حکمران عوام پرپٹرولم بم گرانے کے بعد بجلی بم کی تیاری کررہے ہیںتو دوسری جانب ان کے جو مضحکہ خیز جواز پیش کررہے ہیں، انہیں عوام کو بے وقوف بنانے کے سوا کوئی دوسرا نام نہیں دیا جا سکتا، وزیر خزانہ ایک ہی سانس میں قوم کو بتارہے ہیں کہ آئی ایم ایف نے پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کیے

بغیر ہمیں مزید قرض دینے سے انکار کر دیا ہے، مگر اس کے ساتھ احسان بھی جتلارہے ہیں کہ تیل کی مصنوعات کی قیمتوں میں تیس روپے فی لیٹر اضافہ کے باوجود 37 روپے کی سبسڈی دے رہے ہیں،مگر یہ واضح نہیں کررہے ہیں کہ سبسڈی جاری رکھنے کے باوجود آئی ایم ایف سے90کروڑ ڈالر کی قرض کی قسط وصول ہو جانے کا یقین کس بنیاد پر ظاہر کیا جارہا ہے۔اس ملک کی تاریخ گواہ ہے کہ یہاں پر قیمتوں میں جب بھی اضافہ ہوا ہے، وہ کبھی ختم ہوا ہے نہ ہی کم کیا جاسکا ہے ،بلکہ اس میں ہمیشہ اضافہ ہی ہوا ہے،

ملک میں آئے روز بڑھتی مہنگائی نے عوام کا جینا عذاب بنا دیا ہے ،مگر وزیر خزانہ اسے معمولی قرار دے رہے ہیں اور عوام کو باور کروانے کی کوشش کررہے ہیں کہ اس پر حکومتی قیادت بہت دکھی ہے ،اگر حکمران واقعی عوام پر بوجھ ڈالتے ہو ئے دکھی ہوئے ہیں تو انہیں زبانی کلامی دکھی ہو نے کی بجائے کوئی عملی اقدامات کرنے چاہئے ،اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق کاکہنا بجا ہے کہ ایک ارب ڈالر کی

خاطر پوری قوم کی خودداری اور غیرت کو گروی رکھا جا رہا ہے، آخر کب تک ہماری معیشت عالمی اداروں اور بیرونی طاقتوں کی مرہون منت رہے گی،اگر حکمران واقعی ملک وقوم کا اتنا ہی دکھ درد رکھتے ہیں تو انہیں چاہئے کہ اپنے اثاثہ جات فروخت کرکے ملک وقوم کو قرض کے عذاب سے نجات دلائیں ،

لیکن حکمران شائد کبھی ایسا نہیں کریں گے ،کیو نکہ وہ اقتدار میں ملک و عوام کیلئے اپنے اثاثے بیچنے نہیں،بلکہ اس میں اضافہ در اضافہ کرنے کیلئے آتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ عوام کل بھی ایک اچھی اُمید پر سیاسی قیادت کے ٹرک کی بتی کے پیچھے لگے تھے اور آج بھی اپنی زندگی میں تبدیلی لانے کیلئے سیاسی قیادت ہی کی طرف دیکھ رہے ہیں ،سیاسی قیادت عوام کی اُمید پر پورا اُتر نے
کی بجائے ایک طرف عوام پر مہنگائی کا بوجھ ڈال رہے ہیں تو دوسری جانب ایک دوسرے کے ساتھ محاذ آرائی میں مصروف عمل نظر آتے ہیں ،ملک و قوم قریباً دو ماہ سے جس سیاسی افراتفری کا شکار ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ مقتدر ادارے آگے آکر اپنا کردار ادا کرتے ہوئے سیاست اور انتخابات کے اونٹ کو اب کسی کروٹ بٹھا لیں اور نئے انتخابات کے نتیجہ میں آنے والی حکومت عوام کے مسائل حل کرے،

ملک کو درپیش مسائل کا حل نئے انتخابات میں ہی ہے ،اس کے بغیرسیاست کا انتشار ختم ہو گا نہ ملک سیاسی و معاشی بحران سے نجات حاصل کر پائے گا۔موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ حکمران اور ملک کی مقتدر قوتیں سرجوڑ کر بیٹھیں‘ اگر تحریک انصاف کے موقف میں کچھ نرمی آئی ہے تو حکومت بھی اپنے موقف میں لچک پیدا کرے ،ایک دوسرے پر الزام ترشی اور ملبہ ڈالنے سے مسائل حل ہو گے

نہ سیاسی انتشار کا خاتمہ ہو سکے گا ،اس لیے اسمبلیاں تحلیل کر کے نئے انتخابات کی طرف پیش قدمی کرنا ہو گی اور جو بھی پارٹی اکثریت حاصل کرے ،اسے حکومت بنانے کا حق دینا ہو گا، تاکہ قوم سیاسی افراتفری کے غبار سے نکل کر روشنی کی نئی راہیں تلاش کر سکے، اگر سیاسی قائدین نے اپنی روش نہ بدلی اور ایک دوسرے کے خلاف انتشار پھلا کر ملک کو خانہ جنگی کی طرف دھکیلنے میں لگے رہے تو اس سے کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور اپنا بویا ہی کا ٹنا پڑے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں