32

پنجابی زبان کا پرچم سر بلند ہو رہا ہے

پنجابی زبان کا پرچم سر بلند ہو رہا ہے

آوازِ پنجاب/مدثر اقبال بٹ

پنجاب کی سر زمین کا سب سے بڑا مسئلہ اس کی تاریخ اور ثقافت سے ہونے والی زیادتی ہے۔جس میں ہم سے وہ سچائیاں چھین لی گئی ہیںجو کسی بھی قوم کے لیے فخر کا باعث ہوتی ہیں۔پہلے انگریزوں نے ہم سے ہماری زبان چھینی پھر ہماری نسلوں سے ان کی پہچان چھیننے کے لیے پنجابی کو روزگار یاسرکار دربارکی زبان بنانے کی جگہ اسے گنوار پن سے جوڑنے کی بدبودار سازش کی بعد ازاں جب سکھ مسلم نفرتوں کو بڑھایا گیا

تو پہلا وار زبان پر ہوا ۔جہاں پنجاب کے باسیوں کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی وہیں زبان کو بھی مذہب کے ساتھ جوڑ کر پانچ دریاؤں کے باسیوں میں نفرتوں کا بیج بویا گیا ۔ تقسیم کے بعد بیوروکریسی اور سیاست میں پنجابیوں کا زیادہ حصہ نہیں تھا۔ چنانچہ جو لوگ پنجابی کے خلاف شازش کر رہے تھے

انہوں نے کھل کر اپناآپ دکھایا نفرتیں اتنی بڑھ گئیں کہ پنجابی بولنے والوں کو غدداری کے سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے شروع کر دئیے گے۔بابائے پنجابی ڈاکٹر فقیر محمدفقیر نے پنجابی زبان کے حق میں اپنی توانا آواز بلند کی اور پنجابیوں کو اپنے حقوق کے حصول کی خاطراکھٹا کرنے کا جتن کیا۔اُن کی انہی کوششوں کو اس وقت کی افسر شاہی کی طرف سے سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑا۔ اردو چونکہ سرکار دربار کی زبان تھی

اور روٹی روزی کے ساتھ جڑی تھی ۔لہٰذا پنجابیوں نے مجبوراً اسے قبول کیا ۔ادھر افسر شاہی کی طرف سے پنجابی زبان کو پیچھے دھکیلنے کے لیے یہ تاثر دیا جانے لگا ،جیسے اس زبان سے جڑے لوگ اُجڈ اور گنوار ہیں۔ مطلب یہ کہ جو سازش انگریزوں نے رچائی ،ہم پر قابض افسر شاہی نے اسے مزید آگے بڑھایا

۔اس مشکل دور میں ایک طرف پنجابیوں کو روٹی رزق کا مسئلہ پریشان کئے ہوئے تھا اور دوسری طرف ان کی زبان اور ثقافت تباہ ہورہی تھی۔بیسوی صدی کی چھٹی دہائی کے آخر میں مشتاق بٹ نے آگے بڑھ کر پنجابی کا پرچم اٹھایا اور محض بحث ومباحثہ کی بجائے میدان میں اتر کر حکومتوں کو بتایا کہ پنجابی اپنی زبان اور ثقافت سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔ان کی اس تحریک نے پنجابیوں کو ایک بار پھر سے اپنی مادری زبان اور ثقافت پر فخر کرنا سکھایا اُن کی رہنمائی میں جو جلوس نکالے گئے،

اس میں ہزاروں لوگ شامل تھے ۔انہوں نے لاکھوں کروڑوں پنجابیوں کو پیغام دیا کہ اپنی زبان اور ثقافت سے جڑ کر جینے میں ہی ہماری بقاء ہے ۔ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ پنجابی پیاروں کے علاوہ تین شعبے اور بھی تھے جنہوں نے ہماری مادری زبان کو سلامت رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔پہلے نمبر پر ہمارا وہ مولوی آتا ہے

جو اب بھی پنجابی میں تقریر کرتے ہوئے جھجکتا نہیں ہے۔ ہمارا نعت خواں جس نے مسجد کے سپیکر کے ذریعے پنجابی الفاظ کو عشق رسول کی لڑی میں پرو کر پنجاب باسیوں کو اکھٹا رکھا۔دوسرے ہمارے وہ میلے ٹھیلے اور وہاں لگنے والے تھیٹر ہیں جہاں عالم لوہار،عاشق جٹ، بالی جٹی اور عنایت حسین بھٹی جیسے لوک فنکار پنجابی زبان کو آگے بڑھا رہے تھے۔آخر میں تذکرہ فلم انڈسٹری کا ہے

جہاں پنجابی فلم نے پنجابی زبان کو مرنے سے بچایا۔ احمد راہی، وارث لدھیانوی ، منظور جھلا اور بابا عالم سیاہ پوش جیسے گیت نگاروں نے ایسا کمال دکھایا کہ لوگ اپنی زبان اور اپنی ثقافت کے ساتھ جڑے رہے۔ یہی وجہ ہے، ہماری زبان سکولوں، کالجوںاور سرکار دربارسے کٹ کر بھی کسی نہ کسی طرح اپنا وجود بچانے میں کامیاب رہی۔ ان گزرے ہوے برسوں میںاگر ہم بہت کچھ گنوا کر بھی اپنا آپ زندہ رکھنے میں کامیاب ہوچکے ہیں تو یہ بھی کوئی چھوٹی بات نہیں۔

مجھے یہ بات کرتے ہوئے کوئی آر محسوس نہیں ہوتی کہ میں نے اپنی پوری زندگی میں پنجابیوں کی پنجابی کے لیے اتنی گہری جڑت کبھی نہیں دیکھی جیسے کہ آج کا پنجابی اپنی مادری زبان اور ثقافت سے جڑا ہے آج کا میرا نوجوان پنجابی ہونے پر فخر کرتا ہے ۔وہ شاہ حسینؒ ،بُلھے شاہؒ،وارث شاہؒ،اور سلطان باہوؒ کی باتوں کو شیکسپئیر اور گوئٹے جیسے عظیم لکھاریوں سے بھی اونچا تسلیم کرتا ہے۔

آج کا پنجابی جوان بھگت سنگھ پر فخر کرتا ہے۔اس نے سازشوں کے جادو کو اپنے پنجاب کے عشق کے زور پر ختم کر دیا ہے ۔یہ وہ سازشوںکے جال ہیں جنہیں اشرافیہ نے اس کی پہچان چھیننے کے لیے پھیلائے تھے۔سیاسی میدان میں دیکھیں تو آج کے رہنما پنجابی میں بات کرنا فخر سمجھتے ہیں،اس کی سب سے بڑی مثال میرے چھوٹے بھائی اور زیرک سیاست دان ملک احمد اور رشید بھٹی ہیں ۔
یوں بھی اب پنجابی زبان روز گار کے ساتھ منسلک ہو رہی ہے ۔ نصاب میں شامل ہو کر ہماری نئی نسل کو زبان کی زرخیزی اور ثقافت کی لطافت سے ہمکنار کر رہی ہے ۔اب وہ زمانہ دور نہیں جب ہماری زبان میں بچوں کو مکمل نصاب بھی پڑھایا جائے گا۔ اس سلسلے میں اپنے پیارے دوست الیاس گھمن اور بہن پروین ملک کو ضرور سراہوں گا جنہوں نے دن رات ایک کر کے نصاب اور روزگار کے میدان میں کامیابیاں حاصل کیں اور مادری زبان کا علم بلند کیا۔یہ الگ بات ہے کہ ابھی منزل دور ہے لیکن خوشی کی بات یہ ہے

کہ سفر ختم ہونا شروع ہو چکا ہے ۔مسافت کچھ ہی باقی ہے،جو سفر طے کرنا مشکل محسوس ہو رہا تھا وہ اب آسان ہو چکا ہے۔ہمارے اور منزل کے درمیان فاصلہ بتدریج کم ہو رہا ہے۔مجھے یقین ہے ہماری نئی نسل وہ صبح ضرور دیکھے گی جس کا خواب ہم جیسے لوگوں نے دیکھا تھا، جو خواب ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور مشتاق بٹ نے دیکھا تھا۔اب اس خواب کی تعبیر کی چاندنی سامنے دکھائی دے رہی ہے

۔یہ میرے اور میرے جیسے ہمہ وقت پنجابی کے لیے کام کرنے والوں کے لیے بہت بڑی بات ہے کہ اب منزل چند ہی قدم پر ہے۔ آفرین ہے ڈاکٹر فقیر محمد فقیر اور مشتاق بٹ جیسے لوگوں پر ،جو مایوسی کے اندھیروں میں کبھی مایوس نہیں ہوئے ۔ انہوں نے جدو جہد جاری رکھی اوراپنے لہو سے پنجابی زبان کے چراغ کو روشن رکھا۔
آخرمیں اس اجتماع کا ذکر ضرور کروں گا جو چناب کے کنارے آباد شہر گجرات کے دوستوں نے افضل رازکی راہنمائی میں ورلڈ پنجابی فورم کے زیر اہتمام پنجابی لکھاریوں کے اعزاز میں منعقد ہوا۔اس موقع پر زاہد حسن کے ناول ’’کہانی اک ماں دی ‘‘

سمیت مادری زبان میں لکھی گئی کتابوں کو انعامات دے کر ان کی پنجاب،پنجابی زبان اور پنجابیوں کے لیے خدمات کو سراہا گیا۔میں ان دوستوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں،سلام کرتا ہوں۔میں اس بات پر اختتام کرتا ہوںکہ جب تک ایسے احباب موجود ہیں پنجابی کا پرچم ہر لمحہ اونچا رہے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں