37

آزادی کے متوالے جدوجہد کے علمبردار رہنما یاسین ملک

آزادی کے متوالے جدوجہد کے علمبردار رہنما یاسین ملک

ازقلم:ضحی شبیر

کچھ سالوں سے شروع سازش کو اختتام تک پہچانے کی خبریں نشر ہوتی ہیں درد دل رکھنے والے انسانوں اور ہر محب وطن کشمیری کو اک ہی بات سمجھ آتی ہے کہ کشمیری رہنما یاسین ملک کو راستے سے ہٹانے کی سازش تیار ہو چکی ہے.کشمیریوں کے دل روز سے خبر سنتے دھڑکتے ہیں. آنکھوں کے گوشے بھی نم رہنے لگتے ہیں. چند جملوں کی گفتگو کے اختتام پر آواز میں بھاری پن محسوس ہوتا ہے. من گھڑت الزام کی بناء پر یسین ملک کو محب وطن کشمیری کسی قیمت پر کھونا نہیں چاہتے ہیں.


این آئی اے کی طرف سے آزادی پسند لیڈر پر لگائے گئے من گھڑت الزامات میں بھارت کی عدالت غیرقانونی طور پر نظربند جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کے چیئرمین محمد یاسین ملک کو تحریک آزادی کشمیر میں قائدانہ کردار ادا کرنے پر فرضی مقدمات پر مبنی جھوٹے کیس پر سزا سنائے گی.
آزادی پسند لیڈر یاسین ملک کو بھارتی پولیس نے فروری 2019ء میں سرینگر میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کیا تھا اور بعد میں انہیں نئی دہلی کی تہاڑ جیل منتقل کر دیا گیا تھا

.ٹویٹر ٹرینڈ، اخبار کی شہ سرخیوں، فیس بک و دیگر سوشل پلیٹ فارم کے ذریعے رہنما یاسین ملک کے حق میں آوازیں بلند ہوتی ہیں. مگر اتنی صداؤں، شور، نعروں، ہڑتال، اور احتجاجی مظاہروں کو آزاد میڈیا کوریج نہیں دیتا ہے. اوپر سے عالمی برادری اور اداروں کی مجرمانہ اور جانبدارانہ خاموشی قابل مذمت لگتی ہے

اور انسانی المیہ نظر آتی ہے. حالات تیزی سے بدلتے دکھائی دیتے ہیں حالات کی نوعیت کو اک عام شہری بھی دیکھے تو وہ انداز لگا سکتا ہے ذرا سی کوتاہی کی گنجائش نہیں ہے کوتاہی ناقابل تلافی جرم بھی بن سکتی ہے. مگر یہ کیا جو کشمیر کے سفیر بنے پھرتے ہیں جن کے سپرد مسئلہ کشمیر کو عالمی ایوانوں میں پیش کرنے کی ذمہ داری ہے ان کی طرف سے کوئی جواب، کوئی ردعمل نہیں آتا ہے.
?اپنا درد لکھوں یا گردش حالات لکھوں
سوچتا ہوں لکھوں بھی تو کیا بات لکھوں
اب دل میں ضبط محبت کی قوت نہ رہی
جی میں آتا ہے کہ اب شوق ملاقات لکھوں.
تیزی سے گزرتے وقت کے ساتھ دلوں کے خدشات کو لفظوں کی زبان ملتی ہے اور کشمیری حریت رہنماؤں اور اہلیہ یسین ملک کی طرف سے باقاعدہ اظہار کیا جاتا ہے کہ رہنما یاسین ملک کو بھی مقبول بٹ شہید اور افضل گوروکی طرح من گھڑت الزامات میں پھنسا کر تختہ دار تک پہچانے کی تیاری مکمل کر چکا ہے یا آزادی کے خواہاں اس لیڈر کو راستے سے ہٹانا چاہ رہا ہے
اس حوالے سے وقتا فوقتاً مختلف بیانات جاری ہوتے ہیں


پندرہ مئی کو اس خدشہ کا اظہار سید صلاح الدین کی جانب سے ہوا.”عالمی برادری اور حزب سربراہ اور متحدہ جہاد کونسل کے چیئرمین سید صلاح الدین نے پریس کے نام جاری اپنے ایک بیان میں کہا امام سید علی گیلانی ؒ

اور اشرف صحرائیؒ کی زیرحراست مظلومانہ شہادت کے بعد اب ایک اور معروف تحریکی قائد جناب یاسین ملک کو بھی راستے سے ہٹانے کی سازش تیار کی جارہی ہے۔مودی سرکار کی کٹھ پتلی اور عدل و انصاف سے عاری دہلی عدالت کشمیری رہنما کے خلاف زیرسماعت ایک من گھڑت کیس کا حتمی فیصلہ چند دنوں میں سنانے جا رہی ہے

جو ہندوتوا کے علمبرداروں اور پرستاروں سے دادتحسین حاصل کرنے اور نام نہاد اجتماعی ضمیر کو مطمئن کرنے کی ایک مذموم کوشش ہوگی۔ ”اس طرح سترہ مئی کو ملنے والی اک خبر میں عزیر احمد غزالی کی جانب سے جاری بیان میں یسین ملک کے خلاف من گھڑت الزام کے حوالے سے انسانی حقوق کی تنظیموں سے ایپل کی گئی:

پاسبان حریت جموں وکشمیر کے چیئرمین عزیر احمد غزالی نے معروف آزادی پسند رہنماء محمد یاسین ملک کے خلاف درج جعلی مقدمات اور مودی حکومت کی ایما پر جانبدارانہ عدالتی کارروائی کو بدترین انتقامی کارروائی قرار دیا ہے۔
کشمیر میڈیا سروس کے مطابق عزیر احمد غزالی نے مظفر آباد سے جاری ایک بیان میں کہا ہے کہ یاسین ملک کو بلاجواز گرفتاری، انکے خلاف جھوٹے مقدمات اور مودی حکومت کے ایماء پر انکے خلاف متعصبانہ عدالتی کارروائی کشمیری حریت قیاد ت کے خلاف بدترین انتقامی کارروائی ہے۔انہوں جو کئی برسوں سے دلی کی تہاڑ جیل میں قید ہیں۔ انہوں نے واضح کیاکہ مودی حکومت جھوٹے الزامات میں یاسین ملک کو تختہ دار پر چڑھانا چاہتی ہے

کیونکہ اس سے قبل وہ کشمیری آزادی پسند رہنمائوں مقبول احمد بٹ اور محمد افضل گورو کو بھی جھوٹے مقدمات میں پھانسی دے چکی ہے جبکہ محمد اشرف خان صحرائی کو دوران حراست جیل میں قتل کیاگیا اور بابائے حریت سید علی گیلانی کا جنازہ بھی غیر قانونی نظربندی کے دوران گھر سے اٹھا۔ عزیر احمد غزالی نے اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، او آئی سی اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں بشمول ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیاء واچ سے اپیل کی کہ وہ محمد یاسین ملک کی زندگی کو بچانے کیلئے بھارت پر دبائو ڈالیں۔”

اسی طرح اٹھارہ مئی کو مظفرآباد میں آزادی پسند رہنماؤں نے یاسین ملک کے خلاف جعلی مقدمات میں گرفتاری اور سزا سنائے جانے کو غیر جمہوری قدم قرار دیتے ہوئے 19 مئی کو بھارت مخالف احتجاج کی کال دی
” میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے چیئرمین پاسبان حُریت جموں کشمیر عزیر احمد غزالی، پیپلزپارٹی کے رہنما شوکت جاوید میر، پاسبان حُریت کے سینیئر وائس چیئرمین عثمان علی ہاشم، سماجی رہنمامحمد اکمل اور محمد فیاض خان نے کہا کہ نریندر مودی کشمیری راہنماؤں کیخلاف بدترین انتقامی کارروائیوں پر اتر آیا ہے۔ ایک طرف کشمیر میں نہتے نوجوانوں کو قتل کیا جا رہا ہے دوسری طرف کشمیری آزادی پسند قیادت کو چن چن کے انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے بھارتی فوجی قبضے سے آزادی، حق خودارادیت اور انصاف کا مطالبہ کرنے والی کشمیری قیادت جن پر سفاک ایجنسی این آئی اے کے تحت جھوٹے مقدمات درج کیئے گئے ہیں

انہیں مختلف سزائیں سنائی جا رہی ہیں۔ مقررین نے کہا کہ محمد یاسین ملک پر کھلی عدالتی جارحیت کے ذریعے جعلی مقدمات بنائے گئے ہیں اور اب جھوٹے میڈیا کے ذریعے ان کے جعلی اقبال جرم کا پروپیگنڈہ کر کے دنیا کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔ مقررین نے کہا کے نریندر مودی گینگ وزیر داخلہ امیت شاہ، وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ اور اجیت دووال خود کی مرضی سے کشمیری قیدیوں کے خلاف من گھڑت چارج شیٹ بناتے اور کٹھ پُتلی عدالتیں قائم کرکے ظالمانہ فیصلے مسلط کرتے ہیں۔ مقررین نے انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ محمد یاسین ملک اور دیگر کشمیری قیدیوں کی جانیں بچانے

اور انکی رہائی کیلئے سامنے آئیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ اس پہلے بھی محمد مقبول بٹ، محمد افضل گورو، محمد اشرف خان صحرائی اور بابائے حریت سید علی شاہ گیلانی سمیت ہزاروں کشمیری قیدی بھارتی عدالتی دہشت گردی کا شکار ہوچکے ہیں۔ مقررین نے آزاد کشمیر بھر کے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ کل گھروں سے باہر نکل کر بھارتی عدالتوں کے جعلی فیصلوں کیخلاف احتجاج کریں

۔ مقررین نے کہا کہ آج شام چھ بجے سے پریس کلب بنک روڈ کے سامنے یاسین ملک پر جعلی مقدمات اور فیصلوں کیخلاف دھرنا دیا جائے گا جو کل تک جاری رہے گا۔ رہنماؤں نے دارالحکومت کے عوام سے آج شام کے دھرنے اور کل کے احتجاج میں شرکت کی اپیل کی ہے۔”
(حوالہ. الاقصٰی میڈیا جموں و کشمیر)

انیس مئی کو اہلیہ یاسین ملک کی طرف سے بھی آزادی پسند لیڈر یاسین ملک کو بھارت کے ہاتھوں عدالتی قتل کا خدشہ ظاہر کیا گیا.
جب تیزی سے بیانات نشر ہونے لگے اور سوشل میڈیا پر رہنما یاسین ملک کی رہائی کے لیے پوسٹر جاری ہوئے ان پر یسین ملک پر لگائے جعلی الزامات کو یسین ملک کی آزادی کے لیے بلند ہوتی آواز بند کروانے کی وجہ بیان کیا گیا اور ان کو بھارت جنتا پارٹی کا ٹارگٹ بتایا گیا. طرح طرح کے پوسٹرز میں اس بات کی یقین دہانی کرائی گئی کہ کشمیری کبھی بھی ہار نہیں مانیں گے نہ سر کو جھکائیں. ان کی حق خودارادیت کی مانگ جاری رہے گی.
ان چیزوں کو دیکھتے ہوئے پڑوسی ملک کے کچھ عہد داروں کی طرف سے بیانات بھی سامنے آئے پھر بنا کسی عملی قدم کے ساتھ ہونے کا لالی پاپ دے کر بہلایا جانے والا کام کیا گیا. عملی طور پر عالمی سطح پر کوئی قدم اٹھانے کی ہمت نہیں دکھائی گئیاین آئی اے کی جانب سے لگائے گئے جھوٹے مقدمے آزادی پسند کشمیری رہنما نے کٹھ پتلی عدالت کے سامنے نڈر انداز میں جج کے سامنے پیش ہونے کے بعد اعلان کیا
”اگر آزادی مانگنا جرم ہے تو میں اس جرم کو قبول کرتا ہوں”باعث تکلیف بات یہ رہی کہ کشمیری رہنما کی اس بات کو باقاعدہ میڈیا کی طرف سے کوئی کوریج نہیں دی گئی اور انڈیا کے میڈیا نے اس بات کو توڑ مروڑ کر ایسی ایسی شان دار خبریں نشر کی. کشمیری آٰتنک وادی یاسین ملک نے اپنے جرم کو قبول کر دیا ہے

. اس خبر کو مختلف زبانوں میں روز و شور سے نشر کیا جاتا رہا.حالانکہ ”عقلمند کے لیے اشارہ ہی کافی ہوتا ہے ” کے مطابق کشمیری لیڈر کی طرف سے کہے گئے اک جملے نے بھارت کی جمہوریت کے نام نہاد علمبرداروں کے وحشیانہ برتاؤ کی پول کھول دی تھی.
”میں بولنا چاہتا ہوں اگر مجھے بولنا دیا جائے۔”
صاف ظاہر تھا کہ یاسین ملک صاحب پر باقاعدہ ذہنی دباؤ ڈالا ہوا ہے.
مگر اس صورت حال کے باوجود پراسرار خاموشی عجیب لگ رہی تھی.
بقول شاعر
میں دشمنوں کے کسی وار سے نہیں ڈرتا
مجھے تو اپنے ہی یاروں سے خوف آتا ہے
جہاں بھارتی میڈیا کی مکمل توجہ یاسین ملک کے کیس پر جمی تھی وہاں پاکستانی میڈیا سیاست کے چلتے ڈراموں اور لانگ مارچ پر نظریں جمائے بیٹھا تھااہلیہ یاسین ملک نے باقاعدہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے

عمران خان صاحب سے لانگ مارچ دو دن آگے بڑھانے کی گزارش بھی کی تھی مگر لانگ مارچ کو 25 مئی کو رکھ کر 26 مئی کو ختم کر دینا باعث تجسس رہا.25 مئی 2022 بالآخر وہ دن آن پہنچا جب آزادی کے متوالے جدوجہد کے علمبردار یاسین ملک پر لگائے گئے من گھڑت مقدمہ کی من پسند سزا سنائی جانی تھی.

تمام غیرت مند محب وطن کشمیری دنیا کے جس جس کونے میں موجود تھے اپنی بساط کے مطابق لیڈر کے لیے جہاں آواز بلند کر رہے تھے اسی وقت حکومت وقت کی جانب سے بے انتہا لاپرواہی اور بے حسی نے ورط حیرت میں مبتلا کر دیا. ایک لفظ مذمت کا ان کی طرف سے جاری نہیں ہوا اور میڈیا کی طرف سے یاسین ملک کیس کو کسی قسم کی کوریج نہ مل سکی۔
?امیر شہر کی آنکھوں میں خوف طاری ہے
میں غریب شہر کا رستہ ہموار کر رہا ہوں
تو جو سمجھا کہ اب بغاوت کون کرے گا؟
میں کر رہا ہوں اور سر بازار کر رہا ہوں

یاسین ملک کو 25 مئی سخت سیکیورٹی میں عدالت میں پیش کیا گیا۔ جب انہیں تہاڑ جیل سے عدالت میں لایا گیا تو بھارتی پولیس اور پیراملٹری فورسز کے سینکڑوں اہلکاروں نے انہیں اپنے حصار میں لے رکھا تھا۔
دوران پیشی جج سے یسین ملک سے کہا:
”بھارتی تحقیقاتی اداروں نے عدالت سے موت کی درخواست کی ہے”۔
یسین ملک نے کورٹ سے کہا:
”میں کوئی بھیک نہیں مانگوں گا اپ جو سزا دینا چاہیں دے دیجیے
لیکن میرے چند سوالات کے جواب دیں
اگر میں دہشت گرد تھا تو ملک(انڈیا) کے سات وزیراعظم مجھ سے ملنے کشمیر کیوں آتے رہے؟ ”
” اگر میں دہشت گرد تھا تو کوئی چارج شیٹ میرے خلاف اس کیس کے دوران کیوں نہ تھی..؟”
” اگر میں دہشت گرد تھا تو پردھان منتری اٹل واجپائی کے انڈر مجھے پاسپورٹ کیوں جاری ہوا۔؟ ”
” اگر میں دہشت گرد تھا تو مجھے لیکچرز دینے کے مواقع اہم ترین جگہوں پر دوسرے ممالک میں کیوں فراہم کیے جاتے رہے بشمول انڈیا کے.؟ ”
کورٹ نے کٹہرے میں ٹھہرے فرضی مجرم کی سچائی کو نظر انداز کیا سوالات کے جوابات دینے کی اوقات ہی نہیں تھی.
کہا گیا ان چیزوں کے لیے وقت گزر گیا ہے.

?کون بولے گا اسی طرز پہ پھر سے حق پر
کس کی جرات ہے خداؤں کو دکھانا آنکھیں

بت پرستوں کو گوارا نہیں لہجہ اُس کا
کون چاہے گا کبھی اس سے ملانا آنکھیں

میرے محسن ترا احسان یہ نسلوں تک ہے
تجھ سے سیکھی ہیں زمانے نے اٹھانا آنکھیں..

بھارت کے بدنام زمانہ تحقیقاتی ادارے این آئی اے کی خصوصی عدالت کے جج پریوین سنگھ نے 19مئی کو رہنما یاسین ملک کو تین دہائیوں پرانے ایک جھوٹے مقدمے میں باضابطہ طور پر مجرم قرار دیا تھا اور فیصلہ میں عمر قید کی سزا سنا دی.

حالانکہ حکومت وقت چاہتی تو یہ بہترین وقت تھا جب بھارت کی ڈھونگ پر مبنی جمہوریت اور نفرت کو، قومی آزادی کے جدوجہد کرنے والوں اور قربانی دینے والوں کے ساتھ غیر انسانی، غیر آئینی اور غیر قانونی اقدامات کو، آزادی کی تحریک کو دبانے کی سازشوں کو، غاصبانہ کردار کو میڈیا کے ذریعے باقاعدہ کوریج دے

کر بین الاقوامی سطح پر بھارت کو بے نقاب کر سکتا تھا اور بھارت کے بین الاقوامی امیج کو اس کیس کی مناسب تشہیر سے بری طرح سے متاثر کر سکتا تھا اس طرح کشمیریوں کو بین الاقوامی رائے عامہ کی حمایت بھی حاصل ہو سکتی تھی مگر افسوس صد افسوس وہ وقت حکومت وقت نے پورے جوش و خروش سے کرسی چھینو، لڑو، مرو اور دھرنے کرو کے اہم ترین کام پر استعمال کیا. سارے میڈیا کی توجہ رواں دواں لانگ مارچ پر مرکوز کی. نام نہاد سفیروں کو لڑنے سے ہی فرصت نہیں تھی. مقاصد کے اغراض سے شہ رگ کا نعرہ لگانے والوں کی اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی منافقت ہمیشہ تاریخ میں یاد رکھے جائے گی
ساڑھے تین بجے تک بھارت کٹھ پتلی عدالت نے یسیین ملک کا فیصلہ سنانے کا اعلان کیا تاہم تاخیر ہوئی شام تک یسین ملک کو عمر قید کی سزا سنا دی گئی.?زمانہ دیکھے گا جب میرے دل سے محشر اٹھے گا گفتگو کا
میری خاموشی نہیں ہے گویا مزار ہے حرف آرزو کاسزا کے بعد جا کر آزاد کشمیر کے وزیر اعظم صاحب اور کچھ حکومتی عہدیداروں کو یاد آیا ایسے موقع پر تو مذمت کی جاتی ہے مذمت کرنے کا فریضہ انجام دیا جاتا ہے تو پھر فرض میں کوتاہی کیسے کی جاتی۔قابل محترم سردار تنویر الیاس صاحب کا مذمتی بیان سامنے آتا ہے.
”مزاحمت کی علامت اور تحریک آزادی کشمیر کے ہیرو ملک یسین کو من گھڑت الزامات میں دی جانے والی سزا کی بھرپور مذمت کرتے ہیں ان کی آواز کو دبایا نہیں جا سکے گا بلکہ مزید قوت سے ابھرے گی. بین الاقوامی برادری

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں