92

آیاصوفیہ مسجد کی کہانی

آیاصوفیہ مسجد کی کہانی

جمہورکی آواز
ایم سرورصدیقی

آیاصوفیہ مسجد دنیا بھر کے مسلمانوں کا ثقافتی ورثہ ہے:1453ء میں سلطان محمد فاتح ؒ دوئم کے دور میں قائم کردہ اس مسجد کو 1935ء میں میوزیم بنا دیا گیا تھا، آیا صوفیہ دنیا کی مشہور ترین عمارتوں میں سے ایک اور سیاحوں کے لیے انتہائی کشش کی حامل تاریخی عمارت ہے۔ ترکی میں سیاح سب سے زیادہ اس جگہ کو دیکھنے آتے ہیں۔ آیا صوفیہ کو 1500 سال پہلے بازنطینی عہد میں گرجا گھر کے طور پر تعمیر کیا گیا تھارومی شہنشاہ جسٹینین اول کے عہد میں اس کی سنہ 537ء میں تعمیر ہوئی،

اس وقت یہ دنیا کی سب سے زیادہ جگہ رکھنے والی اور پہلی مکمل محراب دار چھت رکھنے والے جائے عبادت گاہ تھی۔ اسے بازنطینی فن تعمیر کا نچوڑ سمجھا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر سے “فن تعمیر کی تاریخ بدل گئی اس لحاظ سے یہ عمارت ایک رحجان ساز ثابت ہوئی اس کی تعمیر کے 900 سال بعد سلطنت عثمانیہ کی فوج نے استنبول پر قبضہ کیا اور اسے مسجد میں بدل دیا گیا۔ 80 سال قبل خلافت عثمانیہ ختم ہوئی

تو اسے عجائب گھر بنادیا گیا تھا۔یہ معروف عمارت استنبول کے فیتھ ڈسٹرکٹ میں سمندر کے کنارے واقع ہے۔ بازنطینی بادشاہ جسٹنیئن اول نے اس کی تعمیر کا حکم 532 میں دیا تھا جب اس شہر کا نام قسطنطنیہ تھا۔ یہ بیزنٹائن سلطنت (جسے مشرقی رومی سلطنت بھی کہا جاتا ہے) کا دارالحکومت بھی تھا۔ 1453 میں سلطنتِ عثمانیہ کے سلطان محمد دوئم نے قسطنطنیہ پر قبضہ کرکے شہر کا نام تبدیل کر کے استنبول رکھا اور بازنطینی سلطنت کا خاتمہ کر دیا۔تقریباً نو سو سال تک آورتھوڈوکس چرچ کی عمارت میں داخل ہوتے

وقت سلطان محمد فاتح دوئم کی دلی خواہش تھی کہ اس کی تعمیر ِ نو کرکے مسجد بنا دیا جائے۔ ترکی میں قدامت پرست مذہبی رہنما اور قوم پرست برسوں سے آیا صوفیہ کو مسجد بنانے کے لئے دباؤ ڈال رہے تھے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ صدر اردگان نے یہ تاریخی فیصلہ اس وقت کیاجب ان کی سیاسی حمایت کم ہورہی تھی اب یقینا ان کی مقبولیت میں اضافہ ہو جائے گا۔آیا صوفیہ کا بڑا گنبد استنبول کے منظر کا لازمی حصہ ہے جہاں ایک محتاط اندازے کے مطابق اسے دیکھنے ہر سال 30 لاکھ سیاح آتے ہیں

۔ 2019 ء میں 38 لاکھ سیاحوں یہاںکا وزٹ کیا۔ گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس میوزیم میں مذہبی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔اگرچہ آیا صوفیہ کو مسجد میں بدلنے سے سیاحوں کو آنے سے نہیں روکا جائے گا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ اس کی نوعیت میں تبدیلی سے اس کی کشش میں کمی آئے گی تاریخ بتاتی ہے آیا صوفیہ، سلطانؒ محمد فاتح کے ہاتھوں فتح قسطنطنیہ ہونے تک مسیحیوں کا دوسرا بڑا مذہبی مرکز بنا رہا ہے جبپانچویں صدی عیسوی سے مسیحی دنیا دو بڑی سلطنتوں میں تقسیم ہو گئی

ایک سلطنت مشرق میں تھی جس کا پایہ تخت قسطنطنیہ تھا، اور اس میں بلقان، یونان، ایشیائے کوچک، شام، مصر اور حبشہ وغیرہ کے علاقے شامل تھے، اور وہاں کا سب سے بڑا مذہبی پیشوا بطریق (Patriarch) کہلاتا تھا۔ اور دوسری بڑی سلطنت مغرب میں تھی جس کا مرکز روم (اٹلی) تھا۔ یورپ کا بیشتر علاقہ اسی کے زیر نگیں تھا، اور یہاں کا مذہبی پیشوا پوپ یا پاپا کہلاتا تھا۔ ان دونوں سلطنتوں میں ہمیشہ سیاسی اختلافات کے علاوہ مذہبی اور فرقہ وارانہ اختلافات جاری رہتے تھے۔

مغربی سلطنت جس کا مرکز روم تھا وہ رومن کیتھولک کلیسیا فرقے کی تھی۔ اور مشرقی سلطنت، آرتھوڈوکس کلیسیا فرقے کی تھی۔ آیا صوفیہ کا چرچ یہ آرتھوڈوکس کلیسیا کا عالمی مرکز تھا اس چرچ کا سربراہ جو بطریرک یا “پیٹریارک” کہلاتا تھا، اسی میں مقیم تھا، لہذا نصف مسیحی دنیا اس کو کلیسا کو اپنی مقدس ترین عبادتگاہ سمجھتی تھی۔ آیا صوفیہ اس لحاظ سے بھی اہم تھا کہ وہ روم کے کیتھولک کلیسیا کے مقابلے میں زیادہ قدیم تھا۔ اس کی بنیاد تیسری صدی عیسوی میں اسی رومی بادشاہ قسطنطین نے ڈالی تھی

جو روم کا پہلا عیسائی بادشاہ تھا اور جس کے نام پر اس شہر کا نام بیزنطیہ سے قسطنطنیہ رکھا گیا تھا۔ تقریباً ایک ہزار سال تک یہ عمارت اور کلیسا پورے عالم عیسائیت کے مذہبی اور روحانی مرکز کے طور پر استعمال ہوتی رہی۔ مسیحیوں کا عقیدہ بن چکا تھا کہ یہ کلیسا کبھی ان کے قبضے سے نہیں نکلے گا۔ اس سے ان کی مذہبی اور قلبی لگاؤ کا یہ عالم ہے کہ اب بھی آرتھوڈوکس کلیسیا کا سربراہ اپنے نام کے ساتھ “سربراہِ کلیسائے قسطنطنیہ” (The Hear of the Church of the Constantinople) لکھتا آیا ہے قسطنطین نے

اس جگہ 360ء میں ایک لکڑی کا بنا ہوا کلیسا تعمیر کیا تھا۔ چھٹی صدی میں ایک خوفناک آتشزدگی کے باعث یہ کلیسا جل گیا تو اسی جگہ قیصر جسٹینین اول نے 532ء میں اسے پختہ تعمیر کرنا شروع کیا اور اس کی تعمیر پانچ سال دس مہینے میں مکمل ہوئی۔ دس ہزار معمار دن رات اس کی تعمیر میں مصروف رہے اور اس زمانے میں اس پر دس لاکھ پاؤنڈ خرچ آیا تھا۔ اس کی تعمیر میں قیصر نے دنیا کے متنوع سنگ مرمر استعمال کیے، تعمیر میں دنیا کے خاص مسالے استعمال کیے گئے۔ دنیا بھر کے کلیساؤں نے اس کی تعمیر میں بہت سے نوادرات اور نذرانے کے طور پر پیش کئے ۔ ایک روایت یہ بھی ہے

کہ جب جسٹینین اول اس کی تکمیل کے بعد پہلی بار اس میں داخل ہوا تو اس نے کہا: “سلیمان میں تم پر سبقت لے گیا”۔ (نبی سلیمان علیہ السلام کے ذریعہ بیت المقدس کی تعمیر پر تکبرانہ اور گستاخانہ جملہ تھا)۔ جب 1453ء نے عثمانی سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ کو فتح کیا، اور بازنطینیوں کو شکست ہو گئی تو اس شہر کے مذہبی رہنماؤں اور راسخ العقیدہ عیسائیوں نے اسی کلیسا میں اس خیال سے پناہ لے لی تھی

کہ اس عمارت پر دشمن کا قبضہ ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ یہ کتابوں میں لکھاہے۔ مشہور انگریز مؤرخ ایڈورڈ گبن منظر کشی کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’گرجا کی تمام زمینی اور بالائی گیلریاں باپوں، شوہروں، عورتوں، بچوں، پادریوں، راہبوں اور کنواری ننوں کی بھیڑ سے بھر گئی تھی، کلیسا کے دروازوں کے اندر اتنا ہجوم تھا کہ ان میں داخلہ ممکن نہ رہا تھا۔ یہ سب لوگ اس مقدس گنبد کے سائے میں تحفظ تلاش کر رہے تھے

جسے وہ زمانہ دراز سے ایک ناقابل ِ تسخیر اعلیٰ کی لاہوتی عمارت سمجھتے آئے تھے دراصل یہ سب ایک افترا پرداز الہام کی وجہ سے تھا جس میں یہ جھوٹی بشارت تھی کہ جب ترک دشمن اس ستون (قسطنطین ستون) کے قریب پہنچ جائیں گے تو آسمان سے ایک فرشتہ ہاتھ میں تلوار لئے نازل ہوگا جو دشمنوںکو آناً فاناً ختم کرکے رکھ دے گا پھر اس آسمانی ہتھیار(تلوار) کے زورپرسلطنت ایک ایسے غریب آدمی کے حوالے کر دے گا

جو اس وقت اس ستون کے پاس بیٹھا ہوگا۔ لیکن ان کا یہ عقیدہ با طل ہوگیا جب ترک عثمانی فوج اس ستون سے بھی آگے بڑھ کر صوفیہ کلیسا کے دروازے تک پہنچ گئی، نہ کوئی فرشتہ آسمان سے نازل ہوا اور نہ رومیوں کی شکست فتح میں تبدیل ہوئی۔ کلیسا میں جمع عیسائیوں کا جم غفیر آخر وقت تک کسی غیبی امداد کا منتظر رہا۔ بالآخر سلطان محمد فاتح اندر داخل ہوا اور اس عمارت کا حسن دیکھ کر مبہوت رہ گیا اسی وقت سلظان کے دل میں اس خیال نے انگرائی لی کہ یہاں اس سے شاندار مسجد ہونی چاہیے پھر سلطان نے مسلمانوںکی شاندار راویات کے مطابق سب کے جان، مال،آبرو اور مذہبی آزادی کی ضمانت دی۔

فتح والے دن فجر کی نماز کے بعد سلطان محمد فاتح نے یہ اعلان کیا تھا کہ “ان شاء اللہ ہم ظہر کی نماز آیا صوفیہ میں ادا کریں گے”۔ چنانچہ اسی دن فتح ہوا اور اس سر زمین پر پہلی نماز ظہر ادا کی گئی، اس کے بعد پہلا جمعہ بھی اسی میں پڑھا یاگیا۔ قسطنطنیہ چونکہ سلطان کی طرف سے صلح کی پیشکش کے بعد بزور شمشیر فتح ہوا تھا، اس لئے مسلمان ان کلیساؤں کو باقی رکھنے کے پابند اور مشروط نہ تھے،

اور اس بڑے چرچ کے ساتھ جو توہمات اور باطل عقیدے وابستہ تھے انھیں بھی ختم کرنا تھا۔ اس لئے سلطان محمد فاتح نے اس چرچ کو مسجد میں تبدیل کرنے کا ارادہ کیا، چنانچہ اس نے عیسائی پادریوں اور اہم شخصیات کو اپنے حضور پیش ہونے کا حکم دیا جس ڈرے ڈرے اور سہمے سہمے ہوئے تھے سلطان نے انہیں مخاطب ہوکر کہا فاتح پابندتو نہیں ہوتے لیکن میں چاہتاہوں یہاں مسجد قائم ہو اس لئے تم جتنی قیمت چاہو لے سکتے ہو فتح قسطنطنیہ کے بعد وہاں مسلمانوں کی نماز اور اجتماع کے لیے فوری کوئی جمع گاہ اور عبادتگاہ نہ تھی، اس لئے سلطان نے آرتھوڈوکس کلیسیا کے اس تاریخی مذہبی مرکز کو مسجد بنانے کا ارادہ کیا۔

چنانچہ سلطان نے اس عمارت کو اور آس پاس کی زمین کو اپنے ذاتی مال سے خریدا اور اس کی مکمل قیمت کلیسا کے راہبوں کو دی، علاوہ ازیں سلطان نے اس مصرف کیلئے مسلمانوں کے بیت المال سے بھی قیمت نہیں لی بلکہ طے کردہ پوری قیمت اپنی جیب سے ادا کی، اور اس عمارت اور زمین کو مسلمانوں کی عبادات کے لئے وقف کر دیا۔ خرید وفروخت کے دستاویزات آج بھی ترکی کے دارالحکومت انقرہ میں موجود ہیں

۔ اس میں موجود رسموں اور تصاویر کو مٹا دیا گیا یا چھپا دیا گیا اور محراب قبلہ رخ کر دی گئی، سلطان نے اس کے میناروں میں بھی اضافہ کر دیا تھا۔ اس کے بعد یہ مسجد “جامع آیا صوفیہ” کے نام سے مشہور ہو گئی اور سلطنت عثمانیہ کے خاتمہ تک تقریباً پانچ سو سال تک پنجوقتہ نماز ہوتی رہی

۔ آیا صوفیہ کے سامنے ایک خوبصورت چمن ہے، اس کے بعد اس کا مرکزی دروازہ ہے، دورازے کے دونوں طرف وہ پتھر نصب ہیں جہاں پہرہ دار کھڑے ہوتے تھے۔ اندر وسیع ہال ہے جو مربع شکل کا ہے، اس کی وسعت غلام گردش اور محراب کو چھوڑ کر جنوباً شمالاً 235 فٹ ہے، بیچ کے گنبد کا قطر 107 فٹ اور چھت کی اونچائی 185 فٹ ہے۔ پوری عمارت میں 170 ستون ہیں۔ چاروں کونوں پر مسلمانوں نے چھ ڈھالوں پر اللہ، محمد، ابو بکر، عمر، عثمان اور علی نہایت خوشخط لکھ کر لگایا ہوا ہے۔

اوپر چھت کی طرف بڑے بڑے خوبصورت روشندان بنے ہوئے ہیں۔ عمارت میں سنگ مرمر استعمال کیا گیا ہے، بیشمار تختیاں لگی ہوئی ہیں جن پر عربی خط میں لکھا اور نقش ونگار کیا گیا ہے۔آیا صوفیہ کی عمارت فتح قسطنطنیہ کے بعد سے 481 سال تک مسجد اور مسلمانوں کی عبادت گاہ رہی۔ لیکن سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد جب مصطفٰی کمال اتاترک ترکی کا سربراہ بنا، تو اس نے، مسجد میں نماز بند کر کے اسے عجائب گھر (نمائش گاہ) بنا دیا 31 مئی 2014ء کو ترکی میں “نوجوانان اناطولیہ”

نامی ایک تنظیم نے مسجد کے میدان میں فجر کی نماز پڑھ کر آیا صوفیہ کی مسجد بحالی کے لئے ایک موومنٹ کا آغازکیا س تنظیم نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں سے تائیدی دستخطوں کو جمع کر لیا ہے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم کے مشیر نے بیان دیا تھا کہ ابھی ایا صوفیہ کو مسجد میں بحال کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ 10 جولائی 2020ء کو ترکی کی عدالت عظمیٰ نے ایا صوفیہ کو مسجد میں تبدیل کرنے کی قرارداد کو منظوری دی

اور عجائب گھر کی حیثیت منسوخ کر کے سرکاری طور پر مسجد بحالی کا فیصلہ صادر کیا۔ 12 جولائی 2020ء کو ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسے دوبارہ 1935ء سے قبل والی حیثیت دینے کے فیصلے پر دستخط کر دئیے اس فیصلہ سے نہ صرف ترک عوام بلکہ تمام امت مسلمہ میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے یقینا اسلام کی سربلندی کے لئے ایسے ہی جاندار اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں