42

اپنی کمیوں خامیوں کو جادو ٹونا پرڈالنے والے آج کے ہم مسلمان

اپنی کمیوں خامیوں کو جادو ٹونا پرڈالنے والے آج کے ہم مسلمان

نقاش نائطی
۔ +966562677707

اپنےاعمال بد اور فرائض ادائیگی کوتاہی سے، کیا ہم خود اپنے آپ پر جادو ٹونا کررہے ہوتے ہیں؟
پچاس سال قبل کا ایک واقعہ ہے ان ایام تفریح طبع کا سامان، کبڈی، کوہ کوہ، لنگڑی، لگوری یا گلی ڈنڈا جیسے بیرون صحن کھیل کے ساتھ ہی ساتھ، شطرنج، لڈو، چوسر اور کیرم جیسے گھر کے اندر کھیلے جانے والے کھیل کے علاوہ، دیش بھر کی اخبار و گانے سنتے ضیاع وقت کرنے والی ایک بڑی سی ٹرانسسٹر یا ریڈیو، ہر کسی کے گھر میں ہوا کرتی تھی ۔ گاؤں میں ایسی چھوٹی موٹی الیکٹریکل اشیاء ریپیز کرنے کی،

اپنے ہی قومی بھائی کی ایک ہی دوکان، پرانی سے بلڈنگ کی پہلی منزل پر ہوا کرتی تھی۔ کچھ انہی کی عمر کے ایک دو دوست، اپنی ریٹائرمنٹ والے توضیع اوقات کے لئے، انکے پاس آکر گپ شپ لگاتے بیٹھا کرتے تھے۔ ان ایام اتوار کو ہفتہ بازار لگنے کے وجہ سے، قرب وجوار کے دیہاتی ،اپنے گھروں میں پیدا ہونے والی اجناس بیچنے کے بہانے، اپنی ضروریات پورا کرنے شہر کا رخ کیا کرتے تھے۔

دو دیہاتی ایک بڑا سا ریڈیو لئے اوپر آئے اور شکایت کی کہ انکا ریڈیو خراب ہوگیا ہے، نئے بیٹری بھی بدلے گئے ہیں،پھر بھی ریڈیوچل نہیں رہا ہے۔ ان صاحب نے بیٹری ڈالنے والی جگہ کا ڈھکن کھولا دیکھا اور ان دیہاتیوں سے کہا، مارکیٹ میں کچھ کام ہے تو اپنا کام ختم کر آئیں آپ کا ریڈیو برابر کرکے رکھ دیتا ہوں۔

ان کے چلے جانے کے بعد اس نے ریڈیو میں ڈالے بیٹری نکال کر، دوبارہ ڈالتے ہوئے ریڈیو چلاکر دیکھی، ریڈیو چل رہی تھی۔ کہنے لگے دیہاتیوں کی لاعلمی کا یہ حال، بیٹری صحیح سے ڈالنے کے بجائے، الٹی ڈالی ہوئی ہے اور کہتے ہیں ریڈیو خراب ہے۔ انکے دوست نے کہا کہ اتنی سی بات تھی تو تم نے اسے بتایا کیوں نہیں؟ آدھے گھنٹے کے بعد آنے کیوں کہا؟ اس نے جواب دیا “بکرا خود کٹنے کے لئے ہمارے پاس آیا ہے

تو اسے حلال کر، کیوں نہ مستفید ہوا جائے، ایسے ہی لوگوں سے ہمارا گھر تو چلتا ہے” ۔ یہی تو حال ہے آج کے معاشرے میں ہر کسی کا۔ ہر سو ایمانداری مفقود ہوگئی پے۔ ایماندار میکانک چھوٹی موٹی کمیوں کو دور کر، مناسب معاوضہ بھی طلب کرے تو لوگ اس کی ایمانداری کو درکنار کر، اپنے تعلقات رشتہ داری کا حوالہ دئیے کم سے کم اجرت دینا چاہتے ہیں یا اجرت دینے سے احتراز کرتے پائے جاتے ہیں

، اسلئے میکانک بھی چھوٹی خامی کو بڑی اور مشکل تر خامی بتاکر یا یہ پرزہ گیا ہے وہ پرزہ گیا ہے، کہتے ہوئے، اپنوں کو بھی لوٹنے سے باز نہیں آتے ہیں۔ گویا یہی کچھ اسباب سے، بے ایمانی معاشرے میں عام سی ہوکر رہ گئی پے

ہر معاشرے میں ایسے، بے ایمان دوسروں کو لوٹنے والے،یا بے مطلب دوسروں کو ایزا رسانی کرنےوالوں کی کثرت پائی جاتی ہے، چاہے وہ ہم انسان ہوں یا ہمارے جیسے اللہ رب العزت کی بنائی، ہماری آنکھوں سے اوجھل رہنے والی مخلوق جنات ہی کیوں نہ ہوں۔ معاشرے کے ہر حصہ میں خصوصا ویران بند پڑے گھروں بنگلوں میں، یا غیر مستعمل یا جزوی مستعمل منادر و مساجد میں جنات کا بسیرا رہتا پے۔

ان میں اچھے نیک صفت جنات مساجد و عبات کی جانے والی جگہوں کے آس پاس پائے جاتے ہیں تو لادین و خبیث جنات،حمام جیسی گندی جگہوں پر ڈیرہ ڈالے پائے جاتے ہیں۔ان کے علاوہ شیطان رحیم تو تا ازل، حضرت آدم وحوا کے وقت ہی سے، ہم مومنین کو راہ راست سے ہٹانے، ہمیں گناہ و شرک والے راستے پر گامزن کرنے، ہمارے پیچھے ہی لگا رہتا ہے۔ظاہر ہےکفار و مشرکین اور ہم مسلمانوں کی اکثریت جب پہلے سے،

اپنے طور اسکی راہ پر چل رہے ہوں تو، حضرت شیطان انکے پیچھے کیوں اپنا وقت ضائع کرتا پھرے گا؟ یا اپنے جن و انس گرگوں چیلوں کی مدد سے، ہم مومنین کو کسی نہ کسی بہانے، راہ راست سے ہٹانے، ہم اچھے مومنین ہی کے پیچھے لگا رہے گا؟

ہم انسان خصوصا ہم مسلمان، اپنی لغزشوں، اپنے اعمال بد و معصیت سے تو دوسری طرف، فرائض وسنن کوتاہی سے، یا دانستہ دوری کے سبب، ہم شیاطین و جنات کو اپنی طرف راغب و متوجہ کررہے ہوتے ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث کی رو سے آقاء نامدار رسول مجتبی محمد مصطفیﷺ کا قول ہے کہ شیطان ہر انسان کی گدی میں رات کو سوتے وقت تین گرہیں لگاتا ہے۔ صبح جب کوئی مسلمان فجر کی نماز کے لئے اٹھتا ہے،

سو کر اٹھتے وقت پڑھنے کی مسنون دعائیں پڑھتے ہوئے رب کریم کی حمد و ثناء کرتا ہے تو شب کو لگائی شیطان کی پہلی گرہ کھل جاتی ہے ۔ جب پورے آداب کے ساتھ وضو کرتا ہے تو دوسری گرہ کھل جاتی پے اور جب خشوع خضو کے ساتھ اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے نماز پڑھنا ہے شیطان کی طرف سے لگائی ہوئی تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے گویا وہ ایک حد تک پورے دن کے لئے، شیطان رحیم کے وسوسے،

بہکاوے سے آزاد ہوجاتا پے۔ اچھی صاف ستھری دیوار پر گھر ہی کے کسی شریر بچے کی طرف سے کھینچی گئی لکیر پر،گھر کے بڑے توجہ نہ دیں، اسے صاف نہ کریں اور بچوں کو تنبیہ سے منع نہ کریں تو چند دنوں ہفتوں کے بعد، گھر کی ہر دیوار ایسی ایڑھی ترچھی لکیروں سے یا مغلظات لکھے جملوں سے، اتنی پراگندہ ہوجائے گی کہ کسی مہمان کے گھر آنے پر، گھر کے بڑوں کو، خفت و شرمندگی اٹھانی نہ پڑیگی۔

تصور کریں آج کے ہم، بے نمازی مسلمانوں کی اکثریت خصوصا ہماری جوان اسکول و کالج جاتی اولادیں، جنہیں ہم اپنے لاڈ و پیار میں کچھ دیر سونے دینے کے لئے،انہیں نماز فجر سے محروم رکھتے ہیں، تصور کریں ان پر روزانہ کی پڑنے والی شیطانی گرہوں سے، وہ کتنے شیطان دوست، وسائس توہیمات منکرات و گناہ سے قریب تر ہوجاتے ہیں۔ ایک اور حدیث مبارکہ کا مفہوم ہے کہ جو بندہ نماز نہیں پڑھتا شیطان اس کے کان میں پیشاب کردیتا ہے۔ تصور کریں ہم اور ہماری اولاد کے کان شیطان رحیم کا باتھ روم اور اسکی گندگی کی

جگہ بن جائیں تو ہماری پرورش کیسی ہوگی؟ ہمارا تفکر کیسا ترویج پائے گا؟ ہماری سوچ کیسی پنپے گی؟ خصوصا ہمارے پیارے نبیﷺ نے فجر کی نماز چھوڑنے والےکے لئے، ‘خبیثا” نفسی کسلان’ ترجمہ ‘بدنیتی پر مبنی ‘سست و حمار’ جیسے الفاظ استعمال کئے ہیں۔ تصور کریں ہم یا ہماری اولاد مطلقا” صبح کی نماز سے غافل بستر پر سوئے پڑے رہتے ہوں ، روزانہ شب شیطان رحیم کی طرف سے،ہماری گدی یا دماغ میں،

تین تین گرہیں لگائی جارہی ہوں، ہمارے کان شیاطین کا پیشاب خانہ بنے ہوئے ہوں، توہماری سوچ اچھی اور نیک کیسے بن سکتی ہے؟ ہم دین پر چلنے والے کیسے بن سکتے ہیں؟ ہماری سوچ ہمارا تفکر نیک و صالح کیسے بن سکتا ہے؟ ہم اپنے بچوں کے غلط لاڈ و پیار میں اپنی اولاد کی زندگی خراب کررہے ہوں اور ان کے بگاڑ کا موجب کسی رشتہ دار کی نظر بد پر یا کسی کے کئے جادو ٹونا پر لگاتے ہوئے، اپنے خرافات سے، ہم کو لوٹنے والے عاملوں کے چکر میں، ہم نہ پڑیں تو پھر ہمارا حشر کیسا ہو؟ یہ ہم خود ہی بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

اپنی 23 سالہ دعوتی زندگی کے آخر میں، حج الوداع کے موقع پر،اللہ کے رسولﷺنے، عرفات کے میدان میں، ایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کی موجودگی میں، انہیں گواہ بناکر یہ بات صاف کیا نہیں کی تھی؟ کہ “بارگاہ ایزدی سے ، انسانیت کو پہنچانے دیا ہوا دین اسلام، انہوں نے پورا پورا، ہم مسلمانوں کے واسطے سے،

تاقیامت آنے والی انسانیت تک پہنچا دیا ہے”؟ کیا ہم تک آپ ﷺ کی صحیح احادیث کی صورت، دعا مسنونہ نہیں پہنچی ہیں؟ کیا ہم تک شرک و بدعات سے آمان میں رہنے اور حقوق العباد سے بچتے، زندگی گزارنے کے فرمان نہیں پہنچے ہیں؟ پھر کیوں کر ہم مسلمان شرک و بدعات میں مستغرق، جادو ٹونا جیسے کفریہ اعمال و توہمات کے شکار بنے جی رہے ہیں اور اپنی لغزشوں کوتاہیوں سے بگڑی اولاد کا الزام تقدیر پر ڈالے اپنا دامن بچاتے پائے جارہے ہیں؟

بس اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ ہمیں، بعد الموت والی، ہزاروں لاکھوں سالہ لمبی قبر و برزخ زندگانی پر، ساٹھ ستر سالہ دنیوی مختصر زندگانی سے سمجھوتہ کرتے،جینے سے آمان میں رکھے،حقوق العباد اور شرک و بدعات سے بچنے ہوئے،اپنے وقت پر فرائض و سنن کا اہتمام کرتے، جینے کی توفیق دے اور شیطان رجیم کے شر سے آمان کے لئے دعا مسنونانہ کو، اپنی زندگی کا حصہ بنائے،جینے کی توفیق عطا فرمائے۔ وما علینا آلاالبلاغ

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں