33

نشہ موت ہے

نشہ موت ہے

تحریر:جنت خان ،بہاولنگر

وہ آج چار مہینے بعد اپنے کمرے سے نکل کر ٹیرس پر آیا تھا۔ ہلکی ہوا میں نمی سے جِسم میں سرسراہٹ محسوس ہو رہی تھی… وہ زندگی کی رونقوں کو 26 سال کی عمر میں بہت پیچھے چھوڑ آیا تھا نشے کی عادت نے حسنات سے اُسکا قیمتی سرمایہ چھین لیا تھا۔آج اُسے ره رہ کر ربعہ کی یاد ستا رہی تھی
ربعہ حسنات کی محبت تھی ،،اللّٰہ کی امانت تھی جسے اپنے ہاتھوں سے اپنے پرور دگار کو لوٹا بیٹھا تھا۔۔آج حسنات کو ربعہ کی ڈائری ملی جو اکثر اُنکے بیڈروم کے سائڈ ٹیبل کے دراز میں اپنی موجودگی کا احساس دلایا کرتی تھی.حسنات نے بلیک اور گولڈن کلر سے آراستہ ڈائری کو ٹٹولا جو ربعہ کا فیورٹ ہوا کرتا تھا تو اسے پڑھنے کا تجسس ہواڈائری کے پہلے صفحے کو کھولا اور پڑھنا شروع کیا..

13.2.2003

01:45 منٹ
آج میری اور حسنات کی شادی کو سات سال ہو گئے ہیں… وہ آج بھی ہر بار کی طرح گھر نہیں آیا ،کاش وہ میرے بہتے آنسوؤں میں اپنی محبت کو دیکھ پاتا کاش میں اُسے بتا پاتی نشے میں دھن لمحات سے زیادہ اپنے سے جُڑے انسان اور اُسنے جڑی خوشیوں کے پل ذیادہ اہم ہوا کرتے ہیں۔۔
حسنات کاش میں تمہیں بتا پاتی میں سیاہ رنگ کی شوقین لڑکی تمہاری آنکھوں کے سیاہ حلقوں اور تمھارے ہونٹوں کی سیاہ رنگت سے ڈر گئی ہوں.
04.3.2003
01:20 منٹ
حسنات کو rehabilitation center سے آئے پانچ ماہ ہو چکے تھے۔اس تصدیق کے ساتھ حسنات کو گھراور زندگی کی طرف بھیجا گیا کے اب حسنات منشیات کا عادی نہیں رہا وہ نارمل لوگوں کی طرح اب زندگی میں move on کر سکتا ہے. مگر آج حسنات صبح سے بے چین عجیب سی کشمکش میں ادھر اُدھر ٹہل رہا تھا۔

کچن میں کھڑے ناشتہ بناتے ہوۓ میری توجہ بار بار حسنات کی طرف جا رہی تھی دل ایک عجیب سی کیفیت میں مبتلا ہو چُکا تھا..پھر اچانک حسنات نے ادھر اُدھر دیکھا اور نظریں چرا کر باتھ روم میں چلا گیا میں کچن کی ونڈو سے تمہاری اِس طرح بےچینی دیکھ چُکی تھی تمہاری اِس بےچینی نے مجھے بھی برقرار کر دیا تھا۔فقت دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر مجھے باتھ روم کے دروازے میں اُس چھوٹی سی دراڑ سے دیکھنا پڑا جو شاید وقت کی شدّت سے اُس لکڑی کے دروازے میں پڑ گئی تھی۔
میں نے خودکو چھپاتے ہوۓ

چُپکے سے دیکھا تو میرے پیروں تلے سے زمین کھسک گئی۔میں نے سوچا ہی نہیں تھا تُم انجکشن لگا سکتے ہو زندگی میں غم اور فکریں شامل ہو جایا کریں تو خوشیاں اپنا وجود برقرار رکھنے میں قاصر ہوا کرتی ہیں۔تمہیں یاد ہے حسنات ہمارے بیٹے پر لگا فقط چند روپے کا چوری کا الزام ہماری تربیت پر سوال کھڑا کر گیا

وہ ساری رات میں سو نا سکی تمہاری لاپرواہی کی گہری نیند اور میرے بچے پر لگا اِلزام مجھے اندر ہی اندر مار گیا تھا۔۔۔کاش میں چیخ چیخ کر تمہیں بتا سکتی یہ لوگوں نے نہیں تم نے کیا ہے ،،کاش وہ دروازوں میں کھڑی عورتوں کی طعنے کستی تمہیں سنوا سکتی کے ایک نشئی کی اولاد چور ہی ہُوا کرتی ہے…
28.5.2003
12:35 منٹ
زندگی کی تلخیاں اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں… لوگ کہتے ہیں وقت تیزی سے گزرتا ہے اور گزرتا ہی جا رہا ہے۔آج گھر میں روٹی نہیں تھی ہمارا بیٹا زینور بھوک سے نڈھال تھا اگر باپ نشے میں نڈھال ہوں تو بچے بھی تکلیفوں سے دوچار ہوا کرتے ہیں۔تمہارا میرے سر پر ہونا نا ہونے کی برابر ہے کاش تمہارا ہاتھ میرے کندھوں پر ہوتا تو میں دنیا سے اکیلے لڑ جاتی کیونکہ چھری بےدھار کیوں نا ہو حفاظت کے لئے ہتھیار ہوا کرتی ہے۔

5.6.2003
6:21 منٹ

آج حسنات کو گھر سے گئے 5 دن ہو چُکے ہیں کوئی خبر نہیں ہے وہ کہاں ہے لوگوں کی باتیں مجھے اندر ہی اندر سے دیمک کی طرح کھا رہی ہیں۔صبر اب ٹوٹتا جا رہا ہے۔ساتھ والے بھائی اقبال کہہ رہے تھے تُم نے لوگوں سے بہت قرضہ لیا ہے اب کچھ لوگ تمہاری جان کے دشمن بن گئے ہیں ۔
حسنات کاش میرے پاس پیسے ہوتے

کاش بخت میں بےبسی نا ہوتی تو میں تمہیں دُنیا سے بچا لیتی کل کچھ لوگوں نے گھر میں آ کر بدتمیزی کی میں اکیلی تھی اور زينور اسکول تھا اقبال بھائی نے بہت مُشکِل سے انہیں نکالا اِقبال بھائی کے لہجے سے لگا اب وہ بھی اُکتا چُکے ہیں کسی کی ذمہ داری کون لیا کرتا ہے اب میں زندگی سے تھک گئی ہوں اور زندگی سے تھکے لوگ رینگ رینگ کر بھی چلیں تو زندگی کی مسافت طے نہیں کر پاتے….

23.9.2003
12:01 منٹ

آج دن میں پتہ چلا پولیس نے کچھ مشکوک افراد کو نشے کی حالت میں پکڑا ہے اور حسنات ابھی تک گھر نہیں آیا تھا کچھ لوگوں سے سنا تھا اُن افراد میں حسنات بھی ہے میں تھانے میں گئی کچھ پولیس اہلکاروں نے مجھےعجیب نظروں اور بے شمار سوالوں سے ہراساں کیا۔ پھر جا کر تمہیں دیکھا تمھارے پھٹے اور مٹی سے گرد آلود کپڑے اور بےہوش نڈھال بے بس سا حسنات دیکھا نا گیا پولیس کا کہنا ہے

وہ ہوش آنے پر حسنات کو کچھ تفشیش کر کے چھوڑ دینگے۔میں نے اپنے کانوں میں ڈالی سونے کی بالیاں اِقبال بھائی کو دی ہیں جو بس آخری اثاثہ ہیں میرا،تاکہ تمہیں جلد رہا کیا جا سکے۔میں زِندگی کو روا رکھنے کے لئے اپنے سارے زیورات بیچ چُکی ہوں اور گھر کا سامان تمھارے نشے کی عادت نے چوری بیچ بیچ کر ختم کر دیا۔

9.10.2003
1.05 منٹ

ذینور کو میں نے امی کی ہاں بھیج دیا ہےحسنات نشے میں دھن سو رہا ہے. مجھے حسنات اور اپنے ذینور سے بچھڑنے کا دکھ ہے۔میری اذیتوں سے میرا خدا واقف ہے وقت اور انسانوں کی بے رحمی حساس لوگوں کو نگل لیا کرتی ہے۔میں اپنے بچے کو مزید بھوکا لاچار نہیں دیکھ سکتی۔زندگی کے کندھوں پر حالات کا بوجھ اٹھائے تھک گئی ہوں۔میں نے سنا تھا لوگ مر جاتے ہیں خودکشی سے تو سن کر لوگوں پر رحم آیا کرتا تھا۔آج حسنات مجھے خود پر رحم آ رہا ہے. زندہ جِسم سے روح کو اپنے ہاتھوں سے نکالنا آسان نہیں.،، میں جا رہی ہوں اپنے بیٹے اور تمہیں چھوڑ کر ہاں حسنات تمہاری مضبوط ربعہ ٹوٹ گئی ہے. اپنا خیال رکھنا ہو سکے تو ہمارے بیٹے زینور کا بھی.

فی امان اللہ….

حسنات نے ڈائری بند کی اورخود کو نوچ نوچ کر زار و زار رونے لگا حسنات نے خود سے وعدہ کر لیا وہ خود کے لئے جئے نا جئے مگر زینور کو حسنات کبھی نہیں بننے دے گا ایسا حسنات جو کسی ربعہ جیسی انمول لڑکی کا قاتل ہو.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں