42

معاشی بحرا میں سیاسی رویئے!

معاشی بحرا میں سیاسی رویئے!

پا کستان ایک بڑے معاشی بحران کی گرفت میں ہے اور حکمران عوام کو دلاسہ دینے میں لگے ہیں کہ ملک دیو لیہ پن کے خطرات سے نکل گیا ہے ، جبکہ یہ خطرات اس وقت پیچھانہیں جھوڑیں گے کہ جب تک معاشی استحکام حاصل نہیں ہو گا ،حکومت کیلئے اصل چیلنج بھی یہی ہے کہ معیشت کو استحکام کے راستے پر کیسے ڈالا جائے ،اس کیلئے قلیل کے ساتھ طویل مدتی منصوبہ بندی کرنے ضرورت ہے

،حکومت کو اپنی ترجحات تبدیل کرتے ہوئے قومی وسائل سے ہر ممکن حدتک استفادہ کرنے کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے ،حکومت جب تک دوسروں پر انحصار کرنے کی عادت ترک کرتے ہوئے خود انحصاری کی راہ پر گامزن نہیں ہو گی ،ملک پر سے خطرات ٹلیں گے نہ معاشی استحکا م لایا جاسکے گا۔
یہ امر واضح ہے کہ حکومت کی تبدیلی سے کوئی سیاسی و معاشی تبدیلی نہیں آئی ہے ،اتحادی حکومت کے آنے کے بعد سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہی ہورہے ہیں ،صورت حال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ آئی ایم ایف پیکیج پر ،قر ضوں کی وصولی موخر کر دینے پر یا دوست ممالک کی جانب سے کچھ ارب دالر جمع کرانے پر معیشت وقتی طور پر رواں تو رکھی جاسکتی ہے ،مگر ملک میں مستقل بنیاد پرمعاشی استحکام نہیں لا یا جاسکتا ، اس کے لیے حکومت کو طویل مدت موثر حکمت عملی وضح کرنی ہو گی

،مگرمو جودہ حکومت ڈنگ ٹپائو پروگرام پر عمل پیراں ہے ،اس کے باعث افق پر کوئی ایسے آثار دکھائی نہیں دیئے رہے ہیں کہ عوام کو معاشی بد حالی سے جلد معاشی بحالی کی کوئی اُمید دلائی جاسکے ،پا کستان اس وقت تک سیا سی ،معاشی اور معاشی مسائل کا سامنا ایسے ہی کرتا رہے گا کہ جب تک حکومت اپنا ڈنگ ٹپائو ٹریک تبدیل نہیں کرے گی ۔اس میں شک نہیں کہ اتحادی حکومت عوام کو رلیف دینے اور ملکی مسائل حل کرنے کے دعوئوں کے ساتھ ہی اقتدار میں آئی تھی،لیکن اقتدار میں آنے کے بعد سے عوام کو کوئی رلیف ملا نہ ملکی مسائل میں کوئی کمی آئی ہے ، اُلٹا حکومت معاشی بد حالی کی آڑ میں

عوام پر نئے ٹیکسوں کی بھر مار کئے جارہی ہے،حکومت جتنا مرضی کہے کہ عام آدمی کی بجائے ٹیکس اشرافیہ پر لگائے جار ہے ہیں ،تاہم اس عمل سے نہ صرف عام آدمی ہی متاثر ہوتا ہے ،بلکہ اْس کی قوتِ خرید بھی متاثر ہوتی ہے، عوام کی جب قوتِ خرید پر منفی اثر پڑتا ہے تو طلب کم ہوجاتی ہے اور طلب کے کم ہوجانے سے پیداوار میں کمی کرنا پڑتی ہے، جس کا مجموعی پیداوار پر انتہائی اثر پڑتا ہے، اور یہ تمام معاملات عمومی طور پر سیاسی حالات اور امن و امان کی غیریقینی صورتحال کا باعث بننے لگتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ ملک میںمعاشی استحکام کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے اور اگر ملک میں معاشی استحکام نہیں ہو گا تو نئی صنعتیں لگیں گی نہ پیداوار میں اضافہ ہو گا،اس وقت پاکستان میں یہ ہی کچھ ہورہا ہے کہ ایک طرف نئی صنعتیں نہیں لگ رہی ہیں تو دوسری جانب موجودہ صنعتیں بھی شدید مشکلات کا شکار ہیں

، ایسی صورت میں پیداورمتاثر ہو نے کے ساتھ بیروزگاری میں بھی اضافہ ہورہا ہے ،ملک میں سیاسی استحکام اور امن وامان کی صورتحال تسلی بخش بنانے کے لیے جہاں سب کو اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا ،وہیںحکومت کو پائیدار پالیسیاں بھی نافذ کرنا ہوگی ،بصورت دیگر غیریقینی صورتحال میں معیشت پر پڑنے والے منفی اثرات سے معاشی صورتحال مزید دگرگوں ہی ہو تی چلی جائے گی۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ معیشت کی گاڑی کونئے سرے سے سے پٹری پر ڈالنا موجودہ حکومت کی ہی ذمے داری ہے

،اتحاد یوں کی شکل میں ملک کی بیشتر سیاسی قوتوں کی حکومت میں شمولیت نے اسے مشکل فیصلے کرنے کی سہولت فراہم کردی ہے، لیکن فی الحقیقت موجودہ حالات میں اپوزیشن کا بھی فرض ہے کہ معیشت کی بحالی کی متفقہ حکمت عملی وضع کرنے میں حکومت کیساتھ تعاون کرے، ملکی معیشت اور امن و امان کی بحالی کی خاطر اگر تمام سیاسی قوتیں سر جوڑ کر نہیں بیٹھیں گی تو ملک میںبہتری ممکن نہیں ہے

،حکومت کا موقف وزن رکھتا ہے کہ اس وقت ملک کی تمام سیاسی قیادت متحد ہے، لیکن اپوزیشن قیادت کسی کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ،جبکہ ملک کو آگے لے جانے کرلئے سب کا مل بیٹھنا ضروری ہے،اس وقت قومی مفاد کا لازمی تقاضا ہے کہ ملک کی بقا اور سلامتی کی خاطر پوری سیاسی قیادت ایک سوچے سمجھے میثاق معیشت پر متحد ہوکر مشترکہ جدوجہد سے اسے کامیاب بنائے،بصورت دیگر ملک میں بڑھتا معاشی بحران سب کچھ ہی بہا کر لے جائے گا اورسیاسی قیادت کے سب دعوئے دھرے کے دھرے ہی رہ جائیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں