61

الزام تراشی کی بجائے اعتماد سازی

الزام تراشی کی بجائے اعتماد سازی

حکومت اور اپوزیشن قیادت مفاہمت کی بجائے انتشار کی سیاست کو فروغ دے رہے ہیں، ایک دوسرے کے ساتھ اعتماد سازی کی بجائے الزام تراشی کی جا رہی ہے، اس طرح کے رویوں کا ماضی میں کیا نتیجہ نکلا، اس پر بحث اٹھانے کی بجائے ارباب اختیار اور حزب اختلاف سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ جوش میں بھی ہوش قائم ودائم رکھیں، ایک دوسرے کو گرانے میں اتنے دور نہ نکل جائیں کہ دونوں کیلئے واپسی ہی مشکل ہو جائے، خیال رہے کہ اس سیاسی محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیسری قوت تیار بیٹھے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف کے رہنمائوں کو بخوبی ادراک ہے کہ دونوں کی لڑائی کا فائدہ کوئی تیسرا ہی اٹھائے گا، اس کے باوجود ذاتی مفاد اور حصول اقتدارکے پیش نظرجمہوریت کو بار باردائوپر لگایا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کی جارہی ہے ،اس سے سیاسی قیادت کو کوئی سروکار نہیں کہ ان کی الزام تراشی سے لگائی آگ اداروں کے دامن تک جا پہنچی ہے، اگر سیاسی قیادت کی جانب سے اداروں کو لڑانے کی سازشیں اور الزام تراشی کی آگ سے کھیلنے کا عمل یک طرفہ ہوتا

تو اتنی تشویشناک بات نہیں تھی، لیکن یہاں تو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول میںاداروں کو رگید نے کا عمل ایک سیاسی ایجنڈے کے تحت جاری رکھا جارہاہے۔ہمارے ہاں سیاسی حلقوں میں غلط فہمی یقین میں بدل چکی ہے کہ سیاسی کامیابی‘ ذاتی خوبیوں کی بجائے مخالفین پر الزام تراشی کے ذریعے با آسانی حاصل کی جاسکتی ہے، اس کی بنیادی وجہ عوام کے حافظے کی کمزوری ہے،عوام بھول جاتے ہیں کہ کون اپنے دور اقتدار میں کیا کرتا رہا ہے

،اس لیے ہی سیاسی قیادت کو ایک دوسرے پر الزام تراشی کا موقع ملتا ہے اور عوام الزام تراشی کی سیاست میں بار بار الجھ کر رہ جاتے ہیں، سیاسی حلقے کبھی پوشیدہ اور کبھی کھلے عام حالات کی بیشتر ذمہ داری آمرانہ قوتوں پر ڈالتے ہیں اور بعدازاں اپنے سیاسی مخالفین کو رگیدنا شروع کردیتے ہیں، تا ہم مجال ہے کہ کوئی اپنی غلطیوں سے سیکھنے یا ذاتی اصلاح کرنے کی کو شش کرے ،اس بار پھروہی پرانی غلطیوں کو دھرایا جارہا ہے۔
حکو مت اور اپوزیشن کی محاذ آرائی اپنے عروج پر ہے ،ضمنی انتخابات کے موقع پر الزام تراشی کا سلسلہ طول پکڑ رہا ہے،ایک طرف بیرونی قوتوں کے زیر اثر بر سر اقتدار حکومت‘ الزامات اور احتساب کے کٹہرے میںکھڑی نظر آتی ہے تو دوسری جانب دو اہم سیاسی جماعتوں کے مابین بعض معاملات پر مک مکا کی باز گشت بھی سنائی دے رہی ہے،تاہم پی ٹی آئی قیادت کا کہنا ہے کہ کسی سیاسی مخالف سے اعتمادی سازی سے بہتر ہے

کہ اپوزیشن میں ہی بیٹھے رہا جائے، تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے تنقید اور حاشیہ آرائی فطری رد عمل ہے، کیونکہ وہ عرصہ دراز سے انہیں کرپٹ اسٹیٹس کو کی علامتیںاور اپنے آپ کو تبدیلی کی نقیب قراردیتے چلے آرہے ہیں،اپوزیشن قیادت حکومتی قیادت پر الزام تراشی تو کرسکتی ہے ،

مگر اس سے اعتماد سازی کرنا ممکن دکھائی نہیں دیتاہے ۔اس وقت ملک کسی محاز آرائی اور الزام تراشی کی سیاست کا متحمل نہیں،لیکن اپوزیشن اور حکومت دونوں ہی غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے الزام تراشی کے ذریعے سیاسی درجہ حرات بڑھا رہے ہیں، اس سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنا حکومت کے مفاد میں بہتر ہے،

مگر وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ مفاہمتی پیش رفت کی بجائے اپوزیشن قیادت کی گرفتاریوں کی باتیں کررہے ہیں اور شیخ رشید حکومت پر جھاڑو پھرنے کی پیش گوئی کر رہے ہیں،سیاسی قیادت کو سیاسی معاملات جلسوں اور سڑکوں کی بجائے، ایوان میں مل بیٹھ کر حل کرنے چاہیے، تاکہ مشکلات کا شکار عوام کے مسائل میں بھی مزید اضافہ نہ ہو پائے، لیکن شایدحکومت اور اپوزیشن کی ترجیح کبھی عوا م رہے ہی نہیں ہیں۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ سیاسی قیادت کی تر جیح عوام کی بجائے ذاتی مفادت اور اقتدار کا حصول ہی رہا ہے ،عوام کو کل بھی جمہوریت کے نام پر بے وقوف بنایا جارہا تھا اور آج بھی جمہوریت کے نام پر ہی لالی پاپ دیا جارہا ہے ،اس ملک میں کئی عشروں سے جمہوریت کے نام پرایک دوسرے پر الزام تراشی اور ایک دوسرے کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کا کھیل جاری ہے،

اگر یہ کھیل تماشا یو نہی مزید جاری رہاتو وہ دن دور نہیں کہ جب پہلے سے ہی سیاسی جماعتوں سے مایوس ‘عام پاکستانیوں کی بچی کھچی امیدیں بھی دم توڑ جائیں گی ،کیونکہ اب عوام جھوٹے نعروں اور کھوکھلے د عوئوں کے سراب کا پیچھا کرتے کرتے اکتا چکا ہے، یہ وقت الزام ترشی کی سیاست کا نہیں ،اعتمادسازی کا ہے، اس بات کو سیاسی قیادت جتنا جلد از جلد سمجھ جائے‘ ان کے مفاد میں بہتر ہے ،بصورت دیگر جمہوریت کے ساتھ سیاسی جماعتوں کا مستقبل بھی مخدوش ہوتا دکھائی دیے رہا ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں