37

سیاسی استحکام سے معاشی استحکام

سیاسی استحکام سے معاشی استحکام

پاکستان کے سیاسی ومعاشی حالات کوئی زیادہ اچھے نہیںہیں،ہمارے سروں پرسری لنکا جیسے خطرات منڈلا رہے ہیں،ایک طرف انتخابا ت کا شور ہے تو دوسری جانب حکومت آ ئی ایم ایف سے معاہدے کیلئے مشکل ترین شرائط تسلیم کر چکی ہے،ارباب حکومت کئی ہفتوں سے معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کرتے رہے ہیں ،

مگر آئی ایم ایف کی شرائط کا دائرہ وسیع ہوتا جارہا تھا ،تاہم اب وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا ہے اورپا کستان بہت جلد ایک ارب سترا کروڑ ڈالر مل جائیں گے ،اس کے بعد اقتصادی میدان میں چھائے بے یقینی کے بادل چھٹ جائیں گے اورنئے معاشی امکانات بھی پیدا ہوں گے،تاہم کیا سیاسی استحکام کے بغیر ملک میں معاشی استحکام لا یا جاسکے گا؟
یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ عوام کو یک بعد دیگرے اچھی خبریں ملنے لگی ہیں ،ایک طرف آئی ایم ایف سے معاہدہ طے پا گیا ہے تو دوسری جانب عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمت میں کمی کے بعد وزیر اعظم کی ہدایت پر پٹرولیم کی قیمت میں کمی کی سمری وزارت خزانہ کو ارسال کردی ہے، ایک دو روز میںپٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم ہونے سے ملک بھر میں مہنگائی کی شرح میں بھی کمی ہو گی ،

اس سے عوام کو کسی حد تک سکھ کا سانس میسر آئے گا ، ایک ایسے وقت میں جب کہ مالی طور پر مضبوط ممالک بھی افراط زر پر قابو پانے کیلئے شرح سود بڑھانے مجبور ہیں ،مذکورہ مثبت خبریں ملکی معیشت کیلئے جہاں خوشگوار ہوا کا جھو نکا ثابت ہوں گی ،وہیں معاشی جمود توڑنے کا وسیلہ بھی بنیں گی۔
اس میں شک نہیں کہ اس وقت پوری دنیا سخت معاشی حالات کا سامنا کررہی ہے ،اور سٹاک مار کیٹ میں تاریخی مندی کا رجحان ہے ،سری لنکا کے دگر گوں حالات کے بعد اقتصادی ماہرین پا کستانی معیشت کے بارے کچھ اچھے اندازے نہیں لگارہے تھے ،صد شکر ہے کہ ملکی معیشت گرداب سے نکلتی دکھائی دینے لگی ہے ،تاہم اس عارضی رلیف پر تکیہ کرنے کے بجائے حکو مت مستقل پا ئیداری کی طرف بڑھنے کی کوشش کرے ،

اگر حکومت آئی ایم ایف سے معاہدہ طے ہونے پر شادیانے بجانے کی بجائے سنجیدگی سے ملکی معیشت کے استحکام کیلئے فکر مندی سے بہتر حکمت عملی بنائے تو ہی مستقبل قریب میں پائیدار بہتری کی کوئی اُمید کی جاسکتی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ ہر دور اقتدار میں ڈنگ ٹپائو پا لیسی کے تحت قر ضوں کا حصول ممکن بنایا جاتا رہا اور دوست ممالک سے امداد لی جاتی رہی ہے ،مگرکسی بھی دور حکومت میں مستقل بنیاد پر معاشی استحکام لانا سیاسی ترجیحات میں شامل نہیں رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہر شعبے میں خود کفیل ہونے کی بجائے بیرونی دنیا کے مرہون منت ہیں،اتحادی قیادت جب وزارت عظمی کی مسند پر بیٹھے تو ڈالر 184 روپے کا تھا،

جبکہ سٹاک مارکیٹ ایک ہی دن میں 667 پوائنٹس کی کمی کے ساتھ 44000 پر بند ہوئی تھی، آج ڈالر تقریبا گیارہ فیصد مہنگا ہوچکا ہے ،جبکہ سٹاک مارکیٹ مزید تنزلی کا شکار ہے، روپے کی قدر میں کمی اور سٹاک مارکیٹ میں مندی ریکارڈ پر ہے،اتحادی حکومت دعوئیدار تھی کہ اپنی تجربہ کاری سے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے ساتھ معاشی استحکام لائے گی ،لیکن آ ئی ایم ایف اور بیرونی امداد کے ذریعے ڈنگ ٹپائو پروگرام کیا جارہا ہے ،ہمارے معاشی معاملات بار بار قر ضوں اور بیرونی امداد کے حصول سے حل ہوں گے نہ ہی ملک میں مستقل بنیاد پرسیاسی و معاشی استحکالا یا جاسکے گا

،اس کیلئے مل بیٹھ کر ایک مشترکہ لائحہ عمل بنانا پڑے گا۔اتحادی حکومت مثاق جمہوریت کے ساتھ مثاق معیشت کی بڑی دعوئیدار رہی ہے ،مگر تین ماہ سے زیادہ عرصہ گرنے کے بعد بھی کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آرہی ہے ،حکومت نے افہام تفہیم کی بجائے محاذ آرائی کا راستہ اختیار کررکھا ہے ،اگر حکومت ملکی معیشت کو دیرپا منصوبوں کے ذریعہ استحکام دینا اور قوم کو اس معاشی بحران سے نکالنا چاہتی ہے تو اسے
ملک میں سیاسی استحکام کی راہ بھی ہموار کرنا ہو گی ، اگر تمام سیاسی جماعتیں معاشی استحکام کیلئے ایک نکاتی ایجنڈے پر اکٹھی ہو جاتی ہیں تو اس کے نتائج خوش کن ہو نے کے ساتھ دور روس اثرات کے حامل بھی ہوسکتے ہیں، اس وقت ملک میں سیاست اور معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے کی اشدید ضرورت ہے اور یہ اہم کام تمام جماعتوں کی مشترکہ کوششوں سے انجام پا سکتا ہے،بصورت دیگر سیاسی استحکام لائے بغیر معاشی استحکام کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں