42

کوئٹہ میں خواجہ سرا غنڈہ گردی کا شکار انصاف کی خاطر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ

کوئٹہ میں خواجہ سرا غنڈہ گردی کا شکار انصاف کی خاطر پریس کلب کے سامنے مظاہرہ

تحریر۔ آمنہ خان
خواجہ فارسی زبان کا لفظ ہے اس کی جمع خواجگان ہے خواجہ سردار یا آقاء کوکہا جاتا ہے اُردو زبان میں اسے تیسری صنف ،کھسرا،، ہجڑا، زنخاکہا جاتا ہے عربی زبان میں اسے مخنث کہا جاتا ہے ، خواجہ سراوں کے جسم مردانہ ہوتے ہیں جب کہ اُن کی روش صنف نازک یعنی خواتین کی طرح ہوتی ہمارے ملک میں سرکاری طور پر کی جانے والی چھٹی مردم شماری میں ان کی تعداد الگ شمار کی گئی

یہ ملکی تاریخ کی پہلی مردم شماری ہے کہ جس میں اس مسلسل نظر انداز کی جارہی برادری کاباقاعدہ الگ سے اندراج ممکن ہوا ہے اس سے قبل ملک میں کی گئی گزشتہ پانچ مردم شماریوں میں انہیں معذوروں کے خانے میں درج کیا جاتا تھا قومی ڈیتا کے مطابق چھٹی مردم شماری میں ملک بھر کی آبادی 20 کروڑ77 لاکھ 74ہزار 520 نفوس پر مشتمل ہے اس آبادی میں خواجہ سراوں کی کل تعداد 10 ہزار 418 شمار کی گئی ہے

خواجہ سراوںکی تعداد کے اعتبار سے صوبہ پنجاب جوکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے یہاں خواجہ سراوں کی کل تعداد کا 64.4 فیصد حصہ آباد ہے جس کی تعداد 6 ہزار 709 بنتی ہے جب کہ ملک میں آبادی کے اعتبار سے دوسرے بڑے صوبہ سندھ میں 2 ہزار 527 خواجہ سرا آباد ہیں

خیبر پختونخواء میں 913 جب کہ سرقبے کے اعتبار سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ان کی تعداد 109 شمار کی گئی ہے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں 133 اور وفاق کے زیر انتظام قبائی علاقوں (فاٹا) میں ان کی تعداد 27 نفوس پر مشتمل ہے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں خواجہ سراوں کے 7ہزار 651 شہر جب کہ 2ہزار 767 افراد دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہیں ۔
یہ تو تھا ملک کی چھٹی مردم شماری کے مطابق خواجہ سراوں کا قومی ڈیٹا ، اب بات کرتے ہیں خواجہ سراوں کے سماجی،

معاشی اور انسانی حقوق جو اُنہیں اس سماج میں حاصل ہونے چاہئے ، اگر ہم اپنے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیں تو ہمیں اس بات کا اندازہ لگانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آئے گی خواجہ سراوں کو سرکاری سطح پر روزگار کے موقع تو درکنار اُنہیں ہر قسم کے انسانی حقوق سے بھی محروم کردیا گیا ہے

معاشرے میں انتہائی مشکل کٹھن زندگی گزارنے والی اس تیسری صنف کا زریعہ معاش یا تو شادی بیاہ و دیگر تقریبات میں ناچنا یا پھر بھیک مانگنا ہے اور یہی اس مظلوم اور قابل رحم انسانی مخلوق کی تضحیک و تزلیل کا باعث ہے سرکاری سطح پر تعلیم کے لیے خواجہ سراوں کے الگ تعلیمی اداروں کا نا ہونا اور باعزت روزگار کی سہولیات و فنی تعلیم کے مواقع نہ ملنے کی وجہ سے یہ تیسری صنف کو معاشرے میں غیر اخلاقی طرز زندگی گزارنے اور معاشرے میں بگاڑ پیدا کرنے کی طرف دھکیلا گیا ہے

انہیں سرکاری اور معاشرتی سطح پر باعزت زندگی دینے کی بجائے ایک غلیظ نظر سے دیکھا جاتاہے اس صنف کو ایک مذاق کے طور پر لیاجاتا ہے حالانکہ ایک اسلامی معاشرے میں اس کے لیے سخت سے سخت قوانین بننے چاہئے اور انہیں ایک عام انسان کی طرح معاشرے میں رہنے اور باعزت روزگار حاصل کرنے کا بھر پور حق حاصل ہونا چاہئے

مگر یہ دیکھ کر شرمندگی ہوگی اگر ہم اپنے ماحول اور معاشرے پر نظریں دوڑائیں کہ جہاں خواجہ سرا تو دور کی بات ہے آج کی عورت کے لیے معاشرے میں باعزت روز گار کے لیے گھر کی دہلیزپار کرنا کس قدر مشکل ہوگیا ہے ۔
گزشتہ روز صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے خواجہ سراوں نے احتجاج کیا اور اس میں سب سے تکلیف دہ اور شرمناک بات یہ تھی کہ ایک خواجہ سرا نے انصاف نہ ملنے پر انڈسٹریل تھانے کے سامنے برہنہ ہوکر احتجاج کیا اور پولیس موبائل پر بھی حملہ کردیااور تھانے پر پتھراو بھی کردیا یہ ایک سوالیہ نشان ہے پورے معاشرے پر کہ جہاں حقوق کی بات کرنا تو درکنار سرعام حقوق پامال کئے جارہے ہیں

اگرچہ اس واقعہ کی سوشل میڈیا پر ویڈیو وائرل ہوتے ہی ڈی آئی جی کوئٹہ فداحسین نے سخت نوٹس لیتے ہوئے پولیس کو ہدایات جاری کردیں اور ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم صادر کردیا اگرچہ یہ ایک احسن اقدام ہے مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانیت کی تزلیل کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کون لائے گا ؟ مظاہرے کے دوران خواجہ سراوں نے الزام عائدکیا کہ ایک بدمعاش جوکہ خواجہ سرا کا روپ دھار کر اُن کے گھروں میں داخل ہوتا ہے اور بھتہ وصول کرتا ہے مظاہرین کا کہنا تھا

کہ پندرہ روز قبل پولیس کو درخواست بھی دی تھی جس کے بعد پولیس نے ہمارے اور اُس غنڈے کے درمیان راضی نامہ بھی کروایا مگر پھر بھی وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آیا اور ہمارے گھر پر حملہ آور ہوا اور ہمیں زدوکوب کیا مگر پولیس کو درخواست دینے کے باوجود بھی کوئی شنوائی نہیں ہوئی انہوں نے دھمکی دی کہ اگر غنڈے کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو اسلام آباد جا کر دیگر خواجہ سراوں کے ساتھ مل کر احتجاج کریں گے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جرائم پیشہ اور غنڈہ عناصر اس قدرطاقتور ہوگئے ہیں کہ قانون کے محافظ بھی اُن کے ہاتھوں بے بس دکھائی دیتے ہیں خواجہ سراوں کا یہ احتجاج اور پولیس کی کارکردگی پر کھل کر اظہار خیال کرنا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ ایک غنڈے کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لانا چاہئے تھا مگر پولیس غنڈے اور مظلوم کے درمیان معاہدہ کروارہی تھی اور یہی وجوہات ہیں کہ معاشرے میں جرائم پیشہ افراد ایک منظم انداز میں اپنے آپ کو مضبوط بنارہے ہیں اور قانون ہمارے معاشرے میںمذاق بنتا جارہا ہے

کو کسی لمحہ سے کم نہیںہے یہی وہ ناانصافیاں ہیں جو معاشرے میں ایک عورت کو جھیلنی پڑرہی ہیں سزاوں پر عمل درآمد نہ ہونا ، تھانوں میں جرائم پیشہ افراد کے ساتھ بے جا نرمی کی وجہ سے ہمارا معاشرہ انصاف کے سائے سے بھی دور جارہا ہے خواجہ سرا تو دور کی بات ہے ایک عورت بھی اپنے آپ کو ان نانصافیوں کی وجہ سے غیر محفوظ تصور کررہی ہے اور جس معاشرے میں عورت کو اللہ پاک نے جائز حقوق دے رکھے ہیں

اُس سے بھی محروم کی جارہی ہے ۔صوبہ بلوچستان جو کہ قبائلی روایات کے اعتبار سے اپنی ایک الگ شناخت رکھتا ہے اور بڑے سے بڑے فیصلے اور انصاف کے تقاضے بھی انہی روایات کی بدولت اپنے انجام کو پہنچے ہیں مگر ایسے حالات میں بھی معاشرتی ناانصافیوں کا سامنا کررہی ایک عورت یا تیسری صنف کا تحفظ اور شکایات کا ازالہ کو ن کرئے گا ؟یہ بات قابل زکر ہے کہ بلوچستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک خاتون پولیس آفیسر صوبیہ خان کو مردوں کے تھانے کا ایس ایچ اوتعینات کیا گیا ہے جوکہ خواتین کے حقوق کی جانب ایک اور اہم قدم ہے

اس سے قبل صوبے کی پہلی وومن پولیس تھانے میں خاتون سب انسپکٹر زرغونہ منظور ترین کی تعیناتی بھی عمل میں لائی گئی تھی ڈی آئی جی کوئٹہ فداحسین کے مطابق صوبیہ خان کی تعیناتی میرٹ اور کارکردگی کی بنیاد پر کی گئی ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ صوبیہ خان ایک ایماندار ، نڈر اور محنتی خاتون پولیس آفیسر ہیں اُن کی ترقی اعلیٰ کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے اُن سے صوبے کی خواتین کو ڈھیروں اُمیدیں وابستہ ہیں

اورتوقع ہے کہ وہ تھانوں میں خواتین و تیسری صنف کو انصاف کی فراہمی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر اقدامات اُٹھائیں گی مگر اس کے لیے ایک یا دوتعیناتیاں کافی نہیں ہیں ضروری ہے کہ ملک بھر میں خواتین اور تیسری صنف کے لیے الگ تھانے ہونے چاہیں اور وہ تھانے فعال ہونا ضروری ہیں جہاں جاکر وہ کھلے دل اور اعتماد کے ساتھ اپنے ساتھ ہورہے ظلم و ذیادتی بیان کرسکیں جہاں اُنہیں دیدے پھاڑپھاڑ کر تکتی ہوئی

وحشی نظروں اور اخلاق سے گرے ہوئے سوالات کاسامنا نہ کرنا پڑے اور اس سے بھی بڑھ کر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملکی قوانین پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے سزاوں میں کوئی رعایت نہیں ہونی چاہئے تاکہ خواتین و تیسری صنف کے ساتھ جاری ظلم و ذیادتی میں کمی ہوسکے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں