64

اپنا بویا ہی کاٹناپڑے گا !

اپنا بویا ہی کاٹناپڑے گا !

یہ مکَافَاتِ عَمَل کی دنیا ہے، جو کچھ بویا جائے گا، اْسے ہی کاٹناپڑے گا، ابھی کل کی بات ہے کہ اتحادیوں نے مل کر پی ٹی آئی حکومت گرائی تھی، آج اتحادی حکومت کی باری آگئی ہے ،تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب میں بھاری اکثریت حاصل کرتے ہوئے نہ صرف اتحادیوں سے تحت لاہور چھین لیا ،

بلکہ وفاقی حکومت کیلئے بھی خطرات منڈلانے لگے ہیں ، یہ اتحادی حکومت کتنے دن مزید رہتی ہے ،آئندہ چندروز میں پتہ چل جائے گا ،تاہم ایک بات سب پر واضح ہو گی ہے کہ مکَافَاتِ عَمَل کی چکی میں ظالم و زیادتی پس کر رہتے ہیں، یہ چکی کسی سے رعایت نہیں کرتی اور وقت آنے پر سارے بدلے اتار دیتی ہے۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ اس بار جتنا پُرجوش انتخابی معر کہ تھا ،اس میں مجموعی طور پر صورت حال پر امن اور تسلی بخش رہی ہے ،پنجاب کے مختلف علاقوں میں اِکا دُکا واقعات ضرور ہوئے ،مگر کہیں بھی کوئی خطرناک تصادم کا واقعہ رونما نہیں ہوا ہے ،صوبے بھر میں انتخابی عمل مجموعی طور پر باقاعدے قانون کے مطابق ہی ہوتا رہا ،

کہیں دھاندلی کے کوئی بڑے واقعات بھی سامنے نہیں آئے اور سب سے اہم بات جو دیکھنے میں آئی کہ بعض حلقوں میں شکست کھانے والے امیدوار جیتنے والوں کو چل کر مبارک باددیتے رہے ، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدرمریم نواز نے بھی شکست تسلیم کر تے ہوئے کہا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو کھلے دل سے عوام کے فیصلے کے سامنے سر جھکانا چاہئے، سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے، دل بڑا کرنا چاہئے،یہ بدلتا سیاسی رویہ ہی جمہوریت کا حقیقی حسن ہے ،مگر سیاسی جماعتوں میں بڑھتی مخاصمت کے باعث کہیں کھو گیا تھا ،لیکن عر صہ دراز بعد اس انتخابات میں ایک بار پھر نظر آنے لگاہے۔
یہ مثالی جمہوری نظام میں معمولی بات سمجھی جاتی ہے ،تاہم ہماری سیاست میں ہر لحاظ سے ایک بڑی پہل ہے ،اگر اس اقدام کی سپرٹ سے فائدہ اُٹھایا جائے تو ہمارے سیاسی ماحول کی تلخیوں اور عداوتوں سے جان چھڑائی جاسکتی ہے ،اس انتخابات نے بڑی حد تک ملکی سیاست کی سمت درست کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے ،

جہاں تک انتخابات میں جیت ہار کا تعلق ہے تو تحریک انصاف کی جیت سے زیادہ مسلم لیگ( ن) خود ہارے ہیں،ایک طرف مسلم لیگ( ن) نے اپنوں کو چھوڑ کر منحرف ارکان کو اپنا نمائندہ بنایا تو دوسری جانب عوام پر معاشی بوجھ ڈالنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی ہے ، حکومت نے پٹرولیم سے لے کر بجلی ،گیس کی قیمتوں میں اتنا اضافہ کیا کہ جس کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے ،عوام بڑھتی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے چلاتے رہے ،مگر اتحادی حکومت کا ایجنڈا عوام کے مسائل کے تدارک کے بجائے کچھ اور تھا ،اس لیے عوامی ردعمل انتخابی نتائج میں بڑھ چڑھ کر سامنے آیا ہے۔
اتحادی حکومت بڑے دعوئوں کے ساتھ اقتدار میں آئی تھی ،مگر تین ماہ میں ہی سارے دعوئے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں ،اتحادی حکومت عوام کو رلیف دینے کے بجائے بوجھ در بوجھ ڈالتی رہی ہے ،حکومت کے پاس معاشی بحران کا واحد حل عوام کی قربانی ہے ،اس لیے بار بار عوام کے گلے پر مہنگائی کی چھری بڑی بے دردی سے چلائی جارہی ہے

،اگر حکمران غریب طبقے پر بار بار معاشی ضربیں لگائیں گے تو سیاسی قیمت ادا کر نا پڑے گی ،اس انتخابات میں عوام نے ایک طرف بے حس حکمرانوں کو مسترد کرتے ہوئے سبق سکھایا ہے تو دوسری جانب جیتنے والوں کو بھی چیلنج دیا ہے کہ جس عوامی بیانیے کو لے کر چل رہے ہیں ،اس کی تکمیل کیلئے عزم و سنجیدگی کا مظاہرہ کریں ،ورنہ اگلی بار ان کے ساتھ بھی ایساہی کچھ ہو سکتا ہے۔
اس ضمنی انتخابات نے جہاں ایک نئی تاریخ رقم کی ہے ،وہیں ملک میں نئے انتخابات کے انعقاد کی راہ بھی ہموار کردی ہے ،اتحادی حکومت اب بظا ہر عمران خان کے دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکے گی،لیکن اتنی جلدی ہار بھی نہیں مانے گی اور
جوڑ توڑ کی سیاست کرنے کی آخری دم تک کوشش کرے گی ،تاہم پنجاب میں پی ٹی آئی حکومت بننے کے بعد وزیر اعظم شہباز شریف کے پاس با وقار راستہ نئے انتخابات کا ہی رہ جا ئے گا، اس سے قبل کہ عمران خان ایک بار پھر اسلام آباد کیلئے کال دیں ،

وزیر اعظم تمام سیا سی جماعتوں بشمول پی ٹی آئی ایک آل پارٹیز کا نفرنس بلائیں کہ جو ملک کو سیا سی بحران سے نکالنے کیلئے متفقہ لائحہ عمل دے،یہ وقت مزید محاذ آرائی کا نہیں، گرینڈ سیا سی ڈائیلاگ کی جانب بڑھنے کا ہے ،بصورت دیگر سب کو اپنا بویا اپنے ہی ہاتھوںکا ٹنا پڑے گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں