50

پاکستان رجیم چینج کی طرح ,مملکت سعودیہ رجیم چینج کی راہ پر گامزن ملک کیا بن گیا ہے؟

پاکستان رجیم چینج کی طرح ,مملکت سعودیہ رجیم چینج کی راہ پر گامزن ملک کیا بن گیا ہے؟

نقاش نائطی
۔ 966562677707+

ایک پرانی ھندی فلم میں، اس فلم کے مشہور ولن اجیت (حامد علی خان) کا یہ ڈائیلاگ اسی کے دہے میں بڑا مشہور ہوا تھا۔ جس میں اجیت کے کہے جملوں کا مفہوم کچھ اس طرح تھا۔ “مدمقابل کے سامنے اپنے اقدار کی عمارت اونچی نہیں کرسکتے تو مدمقابل کی عمارت کی کچھ منزلیں یا پوری عمارت ہی ڈھاتے ہوئے،

اپنی قدر و منزلت دنیا والوں پر روز روشن کی طرح عیاں کردو” صاحب امریکہ گذشتہ 75 سال سے یہی کچھ کرتا آیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ میں اس وقت کی حربی طاقت،جاپان کی طرف سے امریکی پرل ہاربر پر ہوئے حملے کی تاب نہ لاتے ہوئے، انسانیت کو ختم کرنے والے ایٹم بم ھیرو شما اور ناگاساکی پر برساتے ہوئے، چند لمحوں میں بیسیوں لاکھ جاپانیوں کو لقمہ اجل بناتے ہوئے، انہیں اپنے دفاع تک کے لئے،اپنی فوج سے مانع، امریکی غلام بنائے رکھتے ہوئے ،عالم پر اپنی چوہدراہٹ قائم جو کی تھی

،عالم پر اپنی چوہدراہٹ قائم رکھنے ہی کے لئے، عالم کے انیک ملکوں کو اپنا اسیر بنائے رکھنے کی خاطر، صاحب امریکہ کے خلاف جانے والے ملکوں میں، رجیم چینج کی شروعات کرتے ہوئے،پتہ نہیں اب تک عالم کے کتنے ملکوں میں، اپنے رجیم چینج سازش کے تحت، وہاں کے حکمرانوں کو ہٹاکر،اپنے اشاروں پر ناچنے والی کٹھ پتلیوں کو، ان ملکوں پر بٹھایا ہے یہ صرف امریکہ یا رب دو جہاں ہی جانتا ہے۔ لیکن ابھی حال ہی میں امریکی سابق حکمران کے میڈیا اعلان مطابق امریکہ نے عالم کے جتنے بھی ملکوں میں رجیم چینج آپریشن کئے ہیں،ان میں سوائے وینیزویلا کے تمام رجیم چینج آپریشن کامیاب ہوئے ہیں

کچھ مہینے پہلے پڑوسی ملک پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے، جب بعض معاملات میں، نہ صرف امریکہ کی غلامی سے انکار کرتے ہوئے “نہیں، بلکل نہیں، کسی صورت نہیں” کہتے پر اکتفا ہی نہیں کیا، بلکہ امریکہ مخالف روس و چائینا سے تعلقات استوار کرنے شروع کئے، تب پاکستان میں جمہوری اقدار ہی کے بہانے،عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے ہوئے، سابقہ اپنے دور اقتدار میں ہزاروں کروڑ غبن کرنے والے ملزمان ہی کو، اقتدار پر بٹھانے کی رجیم چینج سازش عملا” کر دکھائی گئی تھی۔

اس سے کسی بھی ملک میں اپنے رجیم چینج سازش کے تحت منتخب حکومتوں کا تختہ الٹنے کی امریکی سازش، اب کھل کر عالم کے عام انسانوں کو آگہی ہوچکی ہے1967 عرب اسرائیل جنگ میں صاحب امریکہ نے، جب عرب مملکتوں کے مفاد کے خلاف دہشت گرد اسرائیل کو جنگی بمبار جہاز دیتے ہوئے عرب اسرائیل جنگ میں اسے برتری دلوائی تھی تو اس وقت شاہ سعودی عربیہ ملک فیصل بن سعود نے،

امریکہ سمیت یورپیں ملکوں کو پٹرول ایکسپورٹ بند کیا تھا تب امریکی وزیر خارجہ ھینری کسنجر سعوری شاہ کو منانے یا بلیک میل کرنے، سعودیہ دورے پر آئے تھے، تب شاہ فیصل دانستہ طور ایک منظم حکمت عملی کے تحت، اپنے عربی اقدار کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے، ریاض کے ریگستان کے کافی اندر “بر تفریح” خیمہ زن ہوگئے تھے۔

عالمی طاقت صاحب امریکہ کا وزیر خارجہ ھینری کسنجر، اطلاع دئیے مملکت آنے کے باوجود، اس کے استقبال میں ریاض میں موجود نہ رہنے سے پیچ وتاپ کھائے، ان ایام فور(4)وھیل ڈرائیو گاڑیوں کی ماورائیت کے زمانے میں، چار و ناچار اونٹ پر سوار شاہ فیصل سے ملاقات کرنے ریگستانی بر خیمات تک پہنچا تھا۔جہاں پر عرب اقدار کے تحت اسکا بکری دودھ اور بھنے ہوئے بکروں کے ساتھ استقبال تو کیا گیا،

لیکن عرب مفاد کے خلاف اسرائیلی حربی مدد کی پاداش میں بند کیا گیا پیٹرول ایکسپورٹ کرنے سے جب صاف انکار کیا گیا تب، ھینری کسنجر نے دھمکی دی کہ اگر امریکہ و یورپ کو پیٹرول ایکسپورٹ نہیں کیا گیا تب امریکہ مجبورا” (جاہان پر بم برسائے جیسا) پیٹرول کونؤں کو بم برساتے ہوئے ختم کرسکتا ہے۔ سلام ہے اس وقت کے شاہ فیصل علیہ الرحمہ کو، انہوں نے امریکی دھمکی پر بغیر خوف کھائے نہایت اطمینان سے، دستر خواں پر سجے بھنے بکرے کھجور اور دودھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے،بس اتنا کہا تھا

کہ “بصد شوق آپ جو چاہیں کرسکتے ہیں لیکن امریکہ و اسکے حواریوں کو اس بات کا علم رہے کہ اسی کھجور بکری و اونٹ کے دودھ و گوشت کے سہارے ،صدیوں سے ہم عرب، بڑی ہی شان سے جیتے آئے ہیں اور مستقبل میں بھی پیٹرول والی اس نعمت کے بغیر کھجور دودھ گوشت کے سہارے جی لیں گے، لیکن کیا یورپ و امریکہ کی عام جنتا، بغیر پیٹرول بند ہوئی صنعت کے ساتھ بھی جی پائیں گے؟ یہ سوچ و بچار کے بعد ہی ان پیٹرول کنوؤں پر بم برسانا شروع کردینا”

یہ اور بات ہے،صاحب امریکہ نے کچھ وقت بعد امریکہ میں تعلیم حاصل کئے ، شاہ فیصل علیہ الرحمہ کے بھتیجے کو اپنا آلہ کار بناتے ہوئے، انہیں شہید کروا سعودیہ میں اپنا رجیم چینج آپریشن مکمل کرتے ہوئے، اپنے اھداف حاصل کئے تھے۔ان تمام باتوں کا علم رہتے ہوئے بھی، موجودہ دور کے ولی عہد مملکت سعودی عربیہ محمد بن سلمان کی جرآت و ہمت کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے، ابھی کچھ مہینے قبل روس و چائینا کی مکمل تائید و ساتھ والےعمران خان کے ساتھ، صاحب امریکہ کے رجیم چینج سازش کے تحت ،

عمران خان کا ہوا حشر دیکھنے کے بعد بھی، آج کے عالم کے سب سے طاقتور ور ترین سربراہ ، صاحب امریکہ کو نہ صرف “نہیں ابھی نہیں” کہتے کی جرات محمد بن سلمان نے جو کی ہے، یقینا عالم اسلام میں، ان کی قدر و منزلت میں نہ صرف اضافہ ہوا پے، بلکہ عرب حکمران محمد بن سلمان کو،امریکہ کا ایجنٹ و غلام کہنے والے مسلم سربراہان و مقتدر علماء کرام کےمنھ پر بھی ان دیکھا زناٹے دار ٹھپڑ محمد بن سلمان نے جڑدیا ہے

یہاں تھوڑا ولی عہد مملکت سعودیہ محمد بن سلمان و امریکہ کے اختلافات کا احاطہ، قارئین کو، اصل موضوع کی اہمیت سمجھنے میں ممد و مددگار ثابت ہو سکتآ ہے۔ ہر عام و خاص ہم انسانون کو، اپنے اپنے دائرہ اختیار میں،اپنے اور اپنے ماتحت مسند قدر و منزلت، و زمام حکومت کے حصول کے خواب بننے کا اختیار، ہر کسی کو حاصل ہے اور اپنے خواب کے تعبیر حصول میں، کچھ بے راہ روی کو، جو جیتا وہی سکندر اوصول کے تحت، زمانہ برداشت کرتا چلا آیا ہے۔چاہے وہ خلالت عثمانیہ کے وارثیں کے آپس کے جنگ و جدال و قتل عام ہی کیوں نہ ہوں۔ یا مغل شہنشاہ اورنگ زیب علیہ الرحمہ کے،

انتہائی قابل مگر عیاش ولی عہدن دارا شکوہ کو، راستے سے ہٹاتے ہوئے، اپنے والد بزرگوار شاہجہاں تک کو، اسلامی اقدار کے تحت انہیں دئیے جانے والے تمام تر احترام و اکرام باوجود، انہیں گھر ہی میں قید و بند رکھنے کا معاملہ ہو، دنیا اس بات کی شاھد ہے اپنی ذاتی زندگی میں شہنشاء اورنگ زیب، اپنے عملی زندگی سے، کس قدر ولی صفت ثابت ہوئے تھے بلکہ اپنے 50 سالہ زمام حکومت ھند میں، اپنے دور زمام حکومت،حکمت عملی سے، اپنے زندگی کے زیادہ تر سال گھوڑے کی پیٹھ پر ہی براجمان،

مختلف راجوں مہاراجوں کی آپسی حرس وطمع، اپنی اپنی مملکت سرحدوں کی بڑھوتری کی خاطر، ہمہ وقت آپس میں لڑتے ہوئے ،جنگ و جدال میں لاکھوں بھارت واسیوں کی بلی چڑھاتے ہوئے،بحیثیت ملک،بھارت کو ترقی پزیری کے ھدف سے ماورا رکھے اس دور میں، بھارت کو اپنے حربی حکمت عملی سے، اپنے وقت کا ایسا وشال وسیع و عریض ملک بنایا تھا، بلکہ اپنی معشیتی پالیسیز سے، عالم کے انیک ملکوں کے مقابلے، اپنے 27فیصد جی ڈی پی کے ساتھ، بھارت کو عالم میں، سونےکی چڑیا مشہور کیا تھا۔

بالکل اسی طرز عالمی اقتصادی مندی کے تنزل پزیر دور میں، معشیتی طور نڈھال ہوتی مملکت کو، بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے کے بہانے، ملک سے باہر رہنے کے بجائے، مملکت میں ہی تعلیم حاصل کرتے ہوئے، سابقہ نصف صد سے، ریاض کے گورنر رہتے ریاض کو عالم کے بہترین شہروں میں سے ایک ترقی پزیری کے مدارج طہ کراتے، اپنے والد بزرگوار، اس وقت کے ریاض گورنر سلمان آل سعود کی نگرانی میں،

زمام حکومت تربیت و تدریب پائے، محمد بن سلمان نے، اپنی دور رس نگاہ، مملکت کو تجارتی ترقی پزیری دلاتے ہوئے، عالم میں ایک متمیز مقام دلوانے ہی کے لئے، “ویزن 2030” کا جو خواب بنا تھا، اس کی تکمیل میں ہوسکتا ہے کچھ معنولی لغزشین ان سے سزد ہوگئی ہو، لیکن اپنے ملک و سر زمین کو ،

عالم میں تجارتی ترقیات کے اونچے مقام پر فائز رکھنے کے لئے ، سابقہ کچھ سالوں میں خصوصا کورنا وبا عالمی پس ماندگی کے دور میں، مملکت کو ایشیائی و عرب ملکوں کی معشیتی دوڑ میں جو مقام متمیر اعلی عطا کیا ہے وہ کسی بھی طور نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے

ایسے میں کوئی سربراہ مملکت اسلامیہ اپنے دم و خم پر ایسا متمیز مقام عالمی سطح پر حاصل کرے، یہ عالمی یہود و نصاری سازش کندگان کیسے برداشت کرسکتے ہیں؟ ہر ملک کا ایک دفاعی نظام اور اس کے ماتحت سراغ رساں ادارے ہوتے ہی ہیں۔ کوئی بھی شہری چاہے وہ منصب و اقدار کے معاملے میں کتنا ہی بڑا منصب کا حامل کیوں نہ ہو، وقت کے حکمران کے خلاف دشمن ملک طاقتوں سے ساز باز کئے،

مملکت کو بدنام کرنے کے مشن پر گامزن رہتا ہےاور وہ بھی مملکت سے بھاگ کر دشمنوں کے ملک میں رہتے ہوئے اور انکے ماتحت کام کرتے ہوئے، مملکت کے خلاف سازش کا شکار ہوتا ہے اور باوجود متعدد مرتبہ متبہ کئے، اپنے سازشی عمل سے باز نہیں آتا ہے تو؛ اس ملک کے دفاعی ادارے، اس کا بندوبست کرنے کی بخوبی صلاحیت رکھتے ہیں۔ایسے میں یہ ضروری نہیں ہوتا کہ اسے راستے سےہٹائے جانے والے،

انکے ہر عمل کے لئے، سربراہ مملکت ہی قصور وار ہوتا ہو۔ سعودی نامہ نگار خشوجی مملکت سے بھاگ کر امریکہ میں پناہ لئے اور وہاں کے مشہور اخبار واشنگٹن پوسٹ میں کام کرتے ہوئے، مملکت کے خلاف مصروف عمل،ترکی شہر استنبول سعودی سفارت خانہ میں اسکےقتل ہونے پر،سعودی ولی عہد محمد بن سلمان ہی کو، اسکا ذمہ دار ٹہراتے ہوئے،اسےبلیک میل کر، سعودی مملکتی خدا داد ریسور پیٹرول پر ناجائز قبضہ جمانے کی امریکی سازش کو، کسی بھی طور مہذب دنیا قبول نہیں کرسکتی پے

2018 اکتوبر کے پہلے ہفتہ میں جمال خشوگی کا قتل ترکیہ سعودی ایمبیسی میں ہوا تھا 2020 میں امریکن صدارتی انتخاب دوران جوبائیڈن نے اپنے اقتدار میں آنے کے بعد، نہ صرف سعودی ولی عہد کو نشان عبرت بنانے بلکہ مملکت سعودیہ کو بھی عالم کے اور ملکوں کے درمیان یک و تنہا کرنے کا انتخابی وعدہ کیا تھا۔ اور صدارتی انتخاب جیتنے کے بعد بھی، نہ صرف سعودی ولی عہد سے ملکی پروٹوکول کےتحت کوئی

رابطہ نہیں کیا تھا بلکہ سعودی ولی عہد سے سفارتی تعلقات کی کوشش ہر بھی نہ صرف ملنے سے انکار کیا تھا بلکہ ایک حد تک تضحیک بھی کی تھی ۔اب روس کے خلاف یوکرین کو مائل جنگ کرتے ہوئے روس سے اپنی پرانی اقتدار عالم کی لڑائی میں اسے شکست دینے، روس پر عائد عالمی پابندی کے چلتے پورے عالم میں پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کے تناظر میں،عالم میں پیٹرول توزیع ادارے اوپیک پلس ممالک کے سربراہ سعودی عرب کو کئی ذرائع سے پیٹرول سپلائی بڑھوتری کرتے ہوئے بڑھتی پیٹرول قیمتوں پر لگام لگانے کی

درخواست صاحب امریکہ کئی بار کرچکا تھا۔اور کئی بار محمد بن سلمان سے مفاہمت کرنے کی سفارتی کوشش بھی کی جاچکی تھیں۔ لیکن اس سمت پاکستانی وزیر اعظم طرز پر، محمد بن سلمان نے، صاحب امریکہ کی تمام تر ترجیحات کو نظر انداز کرتے ہوئے ، اسے اس کی اوقات پہلے ہی بتائی تھی۔ لیکن صاحب امریکہ اپنے عالم پر حکمرانی کے زعم میں اپنی طرف سے سعودی عربیہ دورے پر خود چل کر آتے ہوئے، اپنے کروفر سے سعودیہ پر اپنا حکم چلاتے ہوئے، پیٹرول ایکسپورٹ بڑھاتے ہوئے

بڑھتی قیمتوں پر روک لگا عالم پر اپنی حکمرانی کا دبدبہ قائم کرنے کی کوشش کی تھی۔ اگر صاحب امریکہ واقعتا” جھک کر معاملہ فہمی سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے معاملہ طہ کرتا تو نوعیت کچھ اور ہوتی لیکن اپنی چوہدراہٹ کے زعم میں، خود کو عالم کا سب سے بڑا ہیومن رائیٹ دعویدار بتاتے ہوئے،جمال خشوجی قتل معاملے میں امریکی تحقیقاتی ایجنسیوں کے محمد بن سلمان کے قتل میں شامل یونے کی بات کہتے ہوئے، گویا ایک طرح سے محمد بن سلمان کو دھمکی دیتے ہوئے، پیٹرول پروڈکشن بڑھانے کا گویا حکم دیا تھا۔ اور ساتھ امریکہ و سعودیہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات کا حوالہ دیتے ہوئے،

خود کو سعودیہ کا تجارتی پارٹنر بھی بتاتے ہوئے، اپنے کروفر کے اثرات بد کو زائل کرنے کی کوشش بھی کی تھی۔ فی زمانہ کوئی کمزور سے کمزور انسان بھی طاقتور ترین انسان کی غلامی سے پرہیز کرتا پایا جاتا ہے۔ایسے میں 34 سالہ محمد بن سلمان جیسا بانکا جوان، اس بوڑھے امریکی شیر سے تھوڑی نا ڈرنے والا تھا؟ امریکی صدر کے الزامات سننے کے بعد محمد بن سلمان نے ترکی بترکی جواب دیا کہ “پہلے تو میں یہ واضح کروں کہ میرا اس قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور ہمارے ملک کی انٹیلیجنس نے مکمل تحقیق کرتے ہوئے مقامی عدالت کے واسطے سے اس قتل کے ملزمین کو کڑی سے کڑی سزا بھی سنائی ہے

اور چونکہ یہ قتل سعودی ایمبیسی احاطہ میں ہوا تھا اس لئے بطور ولی عہد مملکت، میں نے اس قتل کی ذمہ داری بھی اپنے طور قبول کی ہے۔ لیکن آپ لوگ جو عالم کے ہیومن رائیٹ علمبردار بنتے ہو، کیا آپ کو پتا نہیں کہ آپ کی حکومتی سرپرستی میں، عراقی ابوغریب جیل اور امریکی گوانٹابابو جیل میں، عراق و افغانستان کے، کتبے ہزار مسلمانون پر انسانیت کو شرمسار کرنے والے ظلم و ستم ڈھائے جاتے رہے

اور آپ ہی کی ناجائز اولاد اسرائیل نے، نہتے فلسطینیوں پر جو ظلم کی انتہا کی ہے اور خود آپ ہی کے امریکی جڑنلشت کو فلسطین ظلم کا سچ عالم کے سامنے لانے کی پاداش میں،جو قتل کیا گیا ہے، اس وقت آپ کی ہیومن رائیٹ کیوں خاموش تماشائی بنی رہی تھی؟ کیا کبھی آپ نے بھی امریکی سرپرستی میں ہوئی ان زیادتیوں پر اخلاقی ذمہ داری قبول بھی کی ہے؟ پہلے آپ اپنے زمام اقتدار والے ہیومن رائیٹ معاملات کو بہتر انداز نپٹائیں پھر گھر کے باہر کے معاملات پر اظہار رائے کیا کریں؟”

عالم کے سر براہ اس امریکی بوڑھے شیر کی غراہٹ پر ایمانی جہادی جذبات سے لبریز جوان سال محمد بن سلمان جیسے اسلامی شیر کی ڈھاڑ پر ، نہ صرف امریکی شیر بلکہ اسکے ساتھ آئے بڑے عہدوں پر براجمان امریکی وفد سناٹے میں دیکھتے تلملاتے ہی رہ گئے، بلکہ ایک مرتبہ محمد بن سلمان کے کہے کسی جملہ پر امریکی وفد کی کوئی نساء ساتھی فرط حیرت واستعجاب بنی اپنے کرسی سے اتھ کے بیٹھ گئیں۔

البتہ اپنے جوان شیر محمد بن سلمان کی دھاڑ سے ہمت پاتے ہوئے، ایک عربی النسل نساء جرنلسٹ نے صدر جوبائیڈن سے خود انہی کے ، مملکت سعودیہ کو یک و تنہا کرنے کے انکے پرانے بیان پر، طنز کستے ہوئے سوال کیا کہ کیااب بھی مملکت سعودی ایک پرایا ملک ہے؟ اس سوال پر محمد بن سلمان اور ان کے بھائی صرف مسکرا کر رہ گئے۔ یہ ہوتی ہے ایمانی حرارت، انسان کتنا بھی خطاکار کیوں نہ ہو؟ اگر اس کے اندر اللہ کی ذات کے، سب کچھ ہونے کا ایمان کامل غالب ہو تو، ایسے دنیوی شیرون کے مقابلے ،

اللہ کے شیر کافی ہوتے ہیں۔ امریکی وفد دو ملکی پروٹوکول پر، ہر پہلو؛ ہر زاوئیے پر ، غور کرتے یوئے، کیا بات کرنی ہے؟ کیسے اپنا رعب و دیدہ قائم رکھتے ہوئے عالمی منڈی پیٹرول قیمتین بڑھنے نہ دینے کے لئے، پٹرول ایکسیوڑٹ بڑھاتے پر سعودیہ کو مائل کیسے کرنا ہے؟ انہی نکات پر، پورے غور و خوص و تیاری کے بعد ہی،

امریکی سائیڈ سے محمد بن سلمان پر انہیں بلیک میل کر اپنا کام نکلوانے کے لئے، ٹیڑھی انگلی والا یہ راستہ اپنایا گیا تھا۔ صدقے جاؤان محمد بن سلمان کی برجستہ جوابی حملہ آوری پر، کہ عالمی معاملات کی 50 سالہ سوجھ بوجھ و ذاتی تجربہ پینتڑے بازی کو، محمد بن سلمان نے، خود انہیں شرمندہ کرنے ان پر پلٹ وار استعمال کرتے ہوئے، مستقبل میں مسلم امہ کی عالمی قیادت کا اہل اہنے آپ کو ثابت کیا ہے
اب کی بار سربراہ عالم جوبائیڈن کی عالمی میڈیا کے سامنے، مملکت سعودیہ ایک۔جوان سال ولی عہد کے ہاتھوں اتنی ہتک جو اٹھانی پڑی ہے یقینا صاحب امریکہ یا عالمی یہود و نصاری سازش کندگان، اس زخم کو نہ صرف بھول پائیں گے بلکہ محمد بن سلمان کو اقتدار اعلی تک نہ پہنچنے دینے کی بھرپور کوشش بھی کی جائیگی یا اپنے سابقہ رجیم چینج آپریشن ہی کے لاحیہ عمل ہر عمل پیرا شاہ فیصل کو ہٹائے طریقہ پر،محمد بن سلمان کو راستے سے ہٹانے کی سعی ضرور کی جائے گی۔ یقینا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان

کو ان خدشات کا بخوبی احساس بھی ہوگا اور خوب سوچ سمجھ کر ہی اپنےاللہ پر ہھروسہ کرتے ہوئے اپنے جہادی جذبات درشائے ہونگے۔ اللہ ہی سے دعا ہے کہ وہ نہ صرف وکی عہد محمد بن سلمان، بلکہ مملکت سعودی عرب و مسلم امہ کی مکمل حفاظت کرے ۔ کاش کہ محمد بن سلمان سعودی عرب ، رجب طیب اردگان ترکیہ اور عمران خان پاکستان جیسی مسلم قیادت عالم اسلام کو ان یہود و نصاری عالمی سازش کندگان کے مکر جال آمان دلانے میں کامیاب رہے۔ وما علینا الا البلاغ

https://www.youtube.com/watch?v=HQqay6Ib1w4

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں