راشترواد مکاروں کا آخری مکھوٹا ہوتا ہے
نقاش نائطی
۔ +966562677707
بعد آزادی ھند، گاندھی آشرم میں سرکاری سرپرستی میں کھادی کرافٹ قائم کرتے ہوئے، اسی کھادی کرافٹ طریقہ سے بھارت کی شان سمجھے جانے والے ترنگے کو بنایا جانے لگا تھا۔بھارت میں ترنگا تیار کرنے والی صنعت سے تقریبا 20 کروڑ لوگ جڑے ہوئے ہیں، اس میں سے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ لوگ تو گاندھی آشرم سے جڑے ہوئے ہیں۔
جو کھادی کے سوتی کپڑوں سے ترنگا بناتے ہیں عموما ترنگا پیور کاٹن کھادی یا ململ یا ریشم اور اون سے ہاتھ سے سود کاتھ کر بنایا جاتا ہے۔ آزادی ھند کے پچھتر سال بعد ھندوؤں کے ویر سمراٹ مہان مودی جی نے، ترنگے بنانے کے لئے، بنائے گئے قانون ہی میں تبدیلی کرتے ہوئے، اب کے بعد پولیسٹر ترنگے بنانے کی بھی اجازت دے دی ہے
آزادی ھند کے 75 سال بعد بھارت کے ترنگے اب پولیسٹر سے بنائے جانے کے قانون ترمیم کا مقصد اور آزادی ھند کی 75 یوم آزادی کے موقع پر مہان مودی جی کےگھر گھر ترنگے ابھیان کے پیچھے کچھ نہ کچھ تو مقصد ہوگا ہی نا؟ یہ اس لئے کہ بھلے ہی مہان مودی جی بقول خود انکے پرائمری کلاس ڈراپ آوٹ وہ غیر تعلیم یافتہ ہی کیوں نہ ہوں، لیکن آرایس ایس بی جے کے قدآور اپنے وقت کے فائر برینڈ لیڈر،
رام مندر اپنی رتھ یاترا سے گنگا جمنی سیکیولر تہذیبی چمنستان بھارت کو، مسلم منافرت والی ڈگر پر محو سفر کرنے والے،ایل کے ایڈوانی کی سرپرستی میں، اپنا سیاسی سفر شروع کرنے والے اور ایڈوانی جی کے مسلم منافرت کے نقش قدم پر ،گجرات مسلم قتل عام کے ذریعے خود کومہا شکتی سالی ھندوؤں کے ویر سمراٹ کے عہدہ تمکنت پر براجمان کرنے والے، مہاں مودی جی، اب اتنے گھاک سیاست دان ہوگئے ہیں
کہ وہ جب بھی کچھ اپنے من کی بات بولتے ہیں دور رس نتائج کے حامل الفاظ ہی ہوتے ہیں یہ اور بات ہے کہ انسان ہونے کے ناطے زبان پھسل کبھی کبھار ان کے دل کی آشاؤں تمناؤں کی ترجمانی کرتی “بیٹی پڑھاؤ بیٹی پٹاؤ” جیسے الفاظ نکل جاتے ہیں۔ آٹھ سالہ انکی سنگھی حکومتی دباؤ میں، انہیں گجرات قتل عام ملوٹ ہونے سے گو کہ بچایا جاچکا ہے لیکن پھر بھی پورا بھارت گجرات مسلم قتل عام کے معاملہ میں، نہ صرف انکے جانبدارانہ کردار سے واقف ہے ۔ بلکہ گجرات مسلم قتل عام پس منظر میں،
ان سے پوچھے گئے سوال پر،انکا گاڑی کے نیچے کتے کے پللے کے کچل مرجانے پر دکھ کے احساس کا تذکرہ کر دیا جواب، بھارت واسی بھول نہیں پائے ہیں۔ اور تو اور انکے من کی بات کالے دھن اور دہشت گردی ختم کئے جانے کے لئے نوٹ بندی اعلان بعد،کالا دھن اور دہشت گردی اضافے کے باعث،مہان مودی جی کے دوہرے مطلب لفظوں کی ترجمانی کو بھی اب دیش کی عوام بخوبی سمجھ رہے ہیں۔
آل انڈیا کانگریس کے 1929 لاہور آدھیویشن یا کانفرنس میں، دیش کی جنگ آزادی کو تیز تر کرنے کے لئے،آگلے سال 26 جنوری 1930 سے بھارت واسیوں کو، اپنے اپنے گھروں پر ترنگا لہرانے کی آواز اس وقت آل انڈیا کانگریس پارٹی نے دی تھی، تو اس وقت آرایس ایس کے اس وقت کے سرچالک ڈاکٹر کیشو بلیرام ھیڈگوار نے باقاعدہ چھٹی لکھ کر، نہ صرف اپنے آرایس ایس کاریہ کرتاؤں کو،
بلکہ دیش کے عام ھندوؤں کو، انگریزوں کے خلاف آزادی ھند کی جنگ کےہمنوا، ہم نہیں ہیں، بلکہ ہم انگریزوں کے ہمنوا ہم ہیں،یہ ثابت کرنے کے لئے، اپنے اپنے گھروں کے اوپر ترنگے کے بجائے بھگوا جھنڈا لہرانے کا اعلان کیا تھا۔ اس وقت سے یہ آرایس ایس والے بعد آزادی ھند لگ بھگ 54 لمبے سال تک،اپنے ارایس ایس کے دفتروں پر ترنگے کے بجائے بھگوان جھنڈا لہراتے آئے ہیں
آرایس کے گرو گولوارکر نے آرایس ایس ھیڈکواٹر ناگپور میں گروپورںمئا کے موقع پر منعقد ہونے والے بڑے عوامی جلسے میں، یہ بات کھل کر کہی تھی کی بھارت کے ھندو اپنے بھگوا جھنڈے کے مقابلے،اس ترنگےکو کبھی قبول نہیں کریں گے۔ 1947 آزادی بھارت کے بعد 15 اگست کو جب پہلی مرتبہ لال قلع پر ترنگا لہرایا جانے والا تھا
اس سے ٹھیک 24 گھنٹہ پہلے 15اگست 1947 کو آرآیس ایس کے ترجمان آرگنائزر کے ایڈیٹوریل کے ذریعہ، دیش کے ھندوؤں کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ کچھ لوگ آزادی کے بہانے اقتدار حاصل کرتے ہوئے، دیش واسیوں پر اپنی وچار دھارا یا سوچ والے ترنگے کا زبرستی نفاذ کررہے ہیں اور چونکہ ترنگے میں تین رنگ ہیں اور تین کا اکڑہ بدقسمتی والا تصور ہوتا ہے اس لئے آزاد بھارت کے لئے یہ ترنگا یقینا” بدبختی لائے گا
اسی لئے بھارت کے ھندو کبھی اس ترنگے کو تسلیم نہیں کرسکتے ہیں ۔ یہی نہیں 1947 آزادی ھند کے بعد سے 2001 تک آزاد ھند کے 54 سال تک آرایس ایس کے ناگپور سمیت ان سنگھئوں کی ہر اہم جگہوں پر، ترنگے کے بجائے بھگوا ہی لہراتا جاتا رہا ہے۔26 جنوری 2001 راشٹریہ یوا دل کے تین ھندو نوجوان بابا مینڈھے، رمیش کلمبدھ، دلیپ چڈوانی، آرایس ایس ھیڈکوارٹر ناگپور دفتر پرترنگا لہرانے پہنچے تو وہاں آرایس ایس کاریہ کرتاؤں نے،انہیں پکڑ کر،نہ صرف انہیں پولیس کے حوالے کیا تھا،
وہ اسکول کالجوں میں تعلیم حاصل کررہی بڑی طالبات کے نقاب کا مسئلہ ہو یا جگہ اور ماحول سے پرے، عوامی مقامات پر بھی، اپنے وقت پر ہم مسلمانوں کانمازپڑھنے والا موضوع ہو یا عالم کے سب سے بڑے بیف ایکسپورٹر ملک بھارت میں، بھارت واسیوں کو بیف کھانے سے محروم رکھنے کا معاملہ ہو یا صرف مسلمانوں سے اپنی دشمنی درشانے انسانی صحت کے لئے مفید تر حلال گوشت پر اعتراض اٹھانے کے معاملات ہوں
ان سنگھی حکمرانوں کی دیش مخالف ان سرگرمیوں سے، عوام کو دھوکے میں رکھنے ہی کی خاطر، ان دیش دشمنوں کو اپنے آپ کودیش بھگت کے طور پیش کرنے کی یہ بھونڈی کوشش سے زیادہ گھر گھر ترنگا لہرانے کا اعلان لگتا ہے، اپنے پاپ چھپانے کی کوشش لگتا ہے۔ مہاتما گاندھی کو جب آرایس آیس وچار دھارا کے لوگوں نے قتل کیا تھا
بھارت کے اخبار گواہ ہیں اس وقت انہی سنگھیوں نے، ترنگے کو، اپنے پیروں کے نیچے روندا تھا یہ دیش دشمن لوگ ترنگے کی آڑ میں اپنے دیش دشمنی کو چھپانے کی کوشش کررہے ہیں دیش کی عام جنتا اتنی مورکھ نہیں کہ انکے جھانسے میں آکر، دیش کے ان غداروں کو ہی دیش بھگت تسلیم کرلیں۔ “راشترواد مکاروں کا آخری نقاب ہوتا ہے”۔ جن لوگوں نے 1930 سے 2001 تک کھل کر ترنگے کو بدنام و رسوا کیا ہو،
آج ان کا ترنگا پریم، پریم کم، انکی مکاری کا جیتا جاگتا ثبوت لگتا ہے، ترینمول کانگریس کے نیشنل ترجمان ثاقب گھوکلے کا انکشاف بھارت میں ترنگا تیار کرنے والی صنعت سے، تقریبا 20 کروڑ لوگ جڑے ہوئے ہیں اس میں سے لگ بھگ ڈیڑھ کروڑ لوگ تو گاندھی آشرم سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو کھادی کے کوٹن کپڑوں سے ترنگا بناتے ہیں۔ عموما ترنگا پیور کاٹن کھادی یا ململ یا ریشم اور اون سے ہاتھ سے سود کاتھ کر بنایا جاتا تھا
۔ آزادی ھند کے پچھتر سال بعد ھندوؤں کے ویر سمراٹ مہان مودی جی نے، ترنگے بنانے کے لئے،بنائے گئے قانون ہی میں ،تبدیلی کرتے ہوئے، اب کے بعد پولیسٹر ترنگے بنانے کی بھی اجازت دے دی ہے۔ آزادی ھند کے 75 سال بعد بھارت کے ترنگے اب نہ صرف پولیسٹر کپڑوں سے بنیں گے، بلکہ ایسا لگتا ہے انکے اپنے گجراتی برہمن سنگھی پونجی پتی امبانی کو فائیدہ پہنچانے کے لئے ہی گھر گھر ترنگا ابھیان کا اعلان کیا گیا اعلان لگتا ہے۔ ویسے تو مہاں مودی جی نے، ہر گھر پر لہرانے کےلئے ترنگا فری میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس سے بھی دو سوال ابھرتے ہیں۔
پہلا کورنا جیسے مہاماری کے وقت، پی ایم کیر فنڈ میں عوام ہی کے دئیے دان کے پیسوں سے،مارکیٹ قیمت سے دس دس گنا زیادہ قیمتوں پر وینٹیلیٹر اور دیگر سامان خرید کر جو لوٹ مار مچائی ہوئی تھی، حکومتی فنڈ سے تیس چالیس روپئیے میں پڑنے والے ترنگوں کو، ہزاروں میں خریدا بتاکر لوٹ کھسوٹ کا بازار بھی گرم کیا جاسکتا ہے ثانیا” گھر گھر ترنگا لہرانے کے نام پر، فری ٹرنگا لئے سنگھی غنڈے دلت و مسلمانوں کو ہراساں بھی کرتے پائے جاسکتے ہیں۔ اس ضمن میں بس اتنا کہنا کافی لگتا ہے کہ جہاں مہاں مودی جی ہوں،وہاں سب کچھ ممکن ہے۔وما علینا الا البلاغ