33

پرانے نظام سے نالاں عوام !

پرانے نظام سے نالاں عوام !

ممنوعہ فنڈنگ کیس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد حکومت اور اپوزیشن کے درمیان سیاسی جنگ مزید تیز ہو گئی ہے، ایک دوسرے کے خلاف لفظی گولہ باری کے علاوہ قانونی اقدامات کا آغاز بھی ہو چکا ہے، تحریک انصاف قیادت کا کہنا ہے کہ ہم نے کوئی قانون نہیں توڑا ،حکومت الیکشن کمیشن کیساتھ سازش کرکے ٹیکنیکل ناک ائوٹ کرنا چاہتی ہے،جبکہ اتحادی حکومت پی ٹی آئی کے خلاف الیکشن کمیشن کے فرد جرم، کی روشنی میں قانونی اقدامات کرنے جارہی ہے،حکومت اپنے مخالفین کے خلاف کوئی بھی موقع ضائع کرنا نہیں چاہتی ہے ،تاہم اس ممنوعہ فنڈنگ کے فیصلے میں اتنی خامیاں ہیں

کہ عوامی نقطہ ِنظر سے آئندہ بھی سب کچھ عمران خان کے حق میں ہی چلا جائے گا،اس کے بارے میں زیادہ تر لوگوں کاخیا ل ہے کہ پی ٹی آئی نے تو اپناسب حساب کتاب سامنے رکھ دیا ہے،اب پی ڈی ایم میں شامل جماعتوں کی باری ہے کہ وہ بتائیں کہ انہیں فنڈنگ کہاں کہاں سے آتی رہی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ فارن فنڈنگ ساری ہی سیاسی جماعتوں کو ہوتی رہی ہے ،مسلم لیگ( ن) اور پیپلز پارٹی کے بارے میں عام اطلاعات ہیں کہ یہ دونوں سیاسی جماعتیں تو اپنے اکائونٹس کسی اور کو دکھا بھی نہیں سکتیں ہیں،

اس کے علاوہ کچھ ایسی جماعتیں بھی حکومتی اتحاد میںموجود ہیں کہ جنہیں ڈائریکٹ غیر ملکی حکومتیں فنڈنگ کرتی رہی ہیں،اس حوالے سے اسامہ بن لادن ،کرنل قذافی اور صدام حسین کی طرف سے کئی جماعتوں کو فنڈنگ ملنے کے ثبوت منظر عام پر آچکے ہیں،لیکن جن لوگوں کو حلف نامہ اور سرٹیفکیٹ کا فرق معلوم نہیں، انہیں ان باتوں سے کیا فرق پڑتا ہے،حکومت کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی بھی طرح سے عمران خان کا عوام میں بڑھتامقبولیت کا گراف نیچے لایا جائے،لیکن حکومت ساری کائوشوں کے باوجود اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے۔
یہ امر انتہائی افسوس ناک ہے کہ ایک طرف اتحادی حکومت انتقامی سیاست نہ کرنے کی باتیں کرتے ہیں تو دوسری جانب اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائی کا کوئی موقع ضائع نہیں ہونے دیے رہے ہیں ،اس سے سیاسی محاذ آرائی اور انتشار میں مزید اضافہ ہورہا ہے ،جبکہ مقتدرہ قوتیں سارا کھیل تماشا بڑے مزے سے دیکھ رہی ہیں ،اگر وہ چاہیں تو اس کھیل تماشے کو روکنا کوئی مشکل کام نہیں ہیں ،

وہ ساری سیاسی قیادت کو ایک میز پر بٹھا کر معاملات سلجھا سکتے ہیں ،لیکن ایسا لگ رہا ہے کہ وہ معاملات سلجھانا ہی نہیں چاہتے ہیں،وہ ملک میںسیاسی استحکام لانا ہی نہیں چاہتے ہیں ،کیو نکہ سیاسی عدم استحکام سے ہی کچھ لو گوںکے ذاتی مفادات جڑے ہیں ،لیکن وہ شائدبھول رہے ہیں کہ پا کستانی عوام بدل چکے ہیں

اوراب زیادہ دیر تک خاموش بیٹھے نہیں رہیں گے۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ اس بدلتی سیاسی رجیم میں سب نے خوب فائدہ اُٹھا یا ہے ،لیکن یہ سیاست میں آخری نوٹ تھے جو چل گئے اور کہتے ہیں کہ پیرانہ سالی میں چوہدری شجاعت حسین نے بھی آخری قیمتی سجدوں میں سے ایک سجدہ اربوں روپوں کے روبرو کرہی دیا ہے ،لیکن اس وقت پاکستانی سیاست تبدیل ہونے جارہی ہے،الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد بھی حکومتی اتحاد سے متعدد اراکین اسمبلی صرف اس اکلوتی شرط پر قومی اسمبلی میں تبدیلی لانے کو تیار ہیں

کہ پی ٹی آئی انہیں آئندہ الیکشن میں صرف ٹکٹ دینے کا وعدہ کر لے،اس کے علاوہ ایسے حلقوں میں جہاں پی ٹی آئی امیدوار کمزور ہیں ،وہاں کے کامیاب ایم این اے بھی عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے تبدیلی کا حصہ بننے کیلئے تیار ہیں ،تاہم عمران خان نہیں مان رہے ہیں ،کیو نکہ شاید اب عوامی خواہشات کے خلاف کوئی بھی فیصلہ عمران خان کے بس میں بھی نہیں رہا ہے ۔اتحادی حکومت سمجھتی ہے کہ الیکشن کمیشن کے فیصلے کی شکل میں ترپ کا پتہ ہاتھ لگ گیا ہے اور انہیں ایک ایسا بیا نیہ
بھی مل گیا ہے کہ جو پہلے انہی کے خلاف استعمال ہو رہا تھا ،اتحادی حکومت کو ملنے والا ترپ کا پتہ چلے گا نہ ہی ادھار کا بیانیہ کام آئے گا ،کیونکہ عوام اپنا ذہن بنا چکے ہیں اور عوامی ردعمل کے سامنے سارے فیصلے اور الزامات ریت کی دیوارہی ثابت ہو رہے ہیں،اس صورتحال میں حکومتی اتحاد میں شامل بیشتر ارکان پارلیمان شدیدذہنی دباو کا شکار ہیں اور جان چکے ہیں کہ جس برادری ازم مذہبی منافرت گروہ بندی اور جوڑ توڑ کی سیاست کے ذریعے کم از کم پانچ دہائیوں تک اس قوم کے ساتھ کھلواڑ کیا،

وہ مزید چلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ہے، کیو نکہ اس نظام سے نالاں عوام کی غالب اکثریت سارے کھیل تماشے کو رد کرتے ہوئے نظام کی تبدیلی چاہتے ہیں،عوام ایک ایسا نیا نظام چاہتے ہیں کہ جس میں عوام کو حقیقی طورپرطاقت اور فیصلوں کا سر چشمہ مانا جائے، اگر نئے نظام کو لانے میںمزید دیر کی گئی تواس نظام سے نالاں عوام سیاسی و طاقتور اشرافیہ کے محلات پر ٹوٹ پڑیں گے اور پھر انہیں بچانے والا کوئی نہیں ہو گا

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں