آنچہ گزشت
تحریر: بنت خلیل
حالیہ دنوں سب سے بڑے صوبے میںپنجاب اسمبلی کے 20 حلقوں میںضمنی انتخابات ہوئے جس میں پی۔ٹی۔آئی نے15 نشستیں حاصل کر کے تاریخی فتح حاصل کی۔ پی۔ٹی۔آئی نے اس سفر کا آغاز اس وقت کیا جب عمران خان کو بقول ان کے بیرونی سازش کے ذریعے مسند اقتدار سے ہٹا دیا گیا۔عمرا ن خان عوام میں اپنا بیانیہ کہ’’ کیا
ہم کوئی غلام ہیں ؟‘‘ بہت حد تک مقبول کرا چکے ہیں۔جس کا منہ بولتا ثبوت ان کی حالیہ ضمنی انتخابات میں کامیابی ہے۔موجودہ سیاسی حالات سے دو باتیں تو واضع ہیں کہ اصل حکمران وہی ہے جو عوام کے ووٹوں سے آے ۔دوسرااب ملک کے اندر 90 کی دہائی کو کوئی بھی گنجائش نہیں رہی ۔
ن لیگ جس مہنگائی کے بیانیے کو عمران خان کی
حکومت کے خلاف بنیاد بنایا ،رجیم چینج کے بعدوہی بیانیہ پی ۔ڈی۔ایم کی حکومت کے گلے کی ہڈی بن گیا ۔عمران خان کو تحریک عدم اعتماد سے گھر بھیجنے کے بعد اقتدارکی مسند پر براجمان ہوئے ۔پنجاب میں وزیر اعلی عثمان بزدار کو ہٹا کر حمزہ شہباز کو وزارت اعلٰی کے منصب پر بیٹھانے کے لیے پی۔ٹی۔آئی کے منحرف ارکان کو مستعفٰی کروانے کی بجاے ان کو لوٹا بنا لیا جو ملکی سیاست میں انارکی پھیلانے کا باعث بنے۔ جس کے نتیجے میں حمزہ شہباز تو وزیراعلٰی بن گئے لیکن لوٹے اپنی سیٹوں سے ہاتھ دھو بیٹھے
۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پنجاب کے 20 حلقوں میں انتخابات کروانے پڑے جس میں ایک با رپھر ن لیگ کو پھر منہ کی کھانا پڑی۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ن لیگ کو شکست سے دوچار کیوں ہونا پڑا؟ اس کی بڑی وجوہات میں سے مہنگائی سر فہرست ہے۔ خود نواز شریف نے بھی اعتراف کیا ہے ان کے مشکل فیصلوں نے انہیںنقصان پہنچایا ہے ۔ن لیگ نے ان حلقوں میں تمام پی ۔ٹی۔آئی کے منحرف ارکان کو وعدے کے مطابق ٹکٹ دیے
۔حالانکہ انہی حلقوں میں ن لیگ کے تگڑے امیدوار موجود تھے۔عوام نے ان لوٹوں کو مسترد کر کے سیاست کی تاریخ میں جہاں ان کو نشان عبرت بنا دیا وہاں پنجاب کی سیاست کو بھی ایک نیا رخ ملا۔
عوام نے ن لیگ کے بیانیے کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کو آخر کا ر عزت بخش ہی دی اوراس نعرہ کو سچ کر دکھایا ۔
عوام کو اپنے حق تسلیم کروانے کے لیے ایک ایسے شعور کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ ایسے نمائندے کو اقتدار میں لائیں جو عوام کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشش کریں چاہے وہ کسی بھی جماعت سے ہو۔حالیہ انتخابات کا نتیجہ مجموعی طور پر اس لیے بھی خوش آئند ہے کہ یہ جمہوریت کی جیت ہے۔
الیکشن کے نتائج جہاں ملک کی سیاست پر اثر انداز ہوئے ہیں وہاںہمارے ملک کی لڑکھڑاتی معیشت پر بھی بری طرح اثرانداز ہوئے ،بین الاقوامی ریٹنگ ایجنسی ’’فچ‘‘نے پاکستان کے مسقبل کی آوٹ لک ریٹنگ کو مستحکم سے منفی کر دی۔جس سے سرمایہ کا ر ہیجان کا شکار ہیں ۔اس طرح ڈالر کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہوا جس سے سٹاک مارکیٹ بد ترین مندی کا شکار ہوئی۔ اس حقیقت کو نہیں جھٹلایا جا سکتا
کہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںاضافے سے براہ راست اثر عوام پر ہوتا ہے۔مہنگائی تو دوسرے ترقی پذیر ممالک میں بھی ہے لیکن پاکستان میں مہنگائی کو روکنے کے لیے کوئی پیمانہ ہی نہیں ہے جس سے مہنگائی کے جن کو قابو کیا جا سکے۔تخت پنجاب کی جنگ میں دونوں جماعتیں ایک دوسرے پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگا رہی ہیں ۔ایسے میں پی۔ٹی آئی کے رکن مسعود مجید کے بارے میں یہ کہا جا رہا ہے
کہ وہ ن لیگ سے پیسے لے کر ترکی فرار ہو گئے ہیں۔دوسری طرف ن لیگ بھی پی۔ٹی۔آئی پر ہارس ٹریڈنگ کے الزامات لگا رہی ہے۔وزارت اعلی کے امید وار پرویز الٰہی اپنی جیت کے لیے پر امید ،ان کا کہنا ہے کہ ان کو188 ارکان کی حمایت حاصل ہے اس لیے ان کی جیت یقینی ہے۔ادھر حمزہ شہباز بھی اپنی جیت کے لیے پر یقین ہیں۔
22 جولائی کو وزارات اعلیٰ کے لیے پنجاب اسمبلی میں ووٹنگ ہوئی جو کافی تاخیر سے شروع ہوئی ۔جس میں (ق)لیگ کے سربراہ چوھدری شجاعت نے پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری کو خط کے ذریعے اپنی جماعت کے دس ارکان کوزارت اعلی کے امید وار پرویز الٰہی کو ووٹ دینے سے روک دیا ۔
جس سے پرویز الٰہی کو ملنے والے 186میں سے 10 ووٹ نکال کرباقی 176 ووٹ ملے اور حمزہ شہباز 179 ووٹ لے کر بھی کامیاب قرار پائے۔عجب جمہوریت کی غضب کہانی ہے کہ 186 ووٹ لینے والا امیدوار ہار گیا اور 179 ووٹ لینے والا امید وار جیت گیا۔عوام اب موروثی سیاست سے بیزار ہو چکے ہیں۔
تقریباً ہر دور میں افلاس زدہ عوام کو ریلیف کے نام پر لالی پوپ دے دیا جاتا رہا ہے۔جب کہ عوام کے مسائل کہ جو ں کہ توں ہیں۔ خدارا سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی مفادات کو ایک طرف رکھ کر سب مل کر عوام کے مسائل کا حل نکالیں تاکہ ترقی یافتہ اور روشن پاکستان کی نوید مل سکے اور پاکستان کی معاشی خود مختاری کا خواب پورا ہو سکے۔