33

تکبرکے بت

تکبرکے بت

جمہورکی آواز
ا یم سرورصدیقی

درویش خلاف ِ معمول دیرسے اپنی کٹیا سے باہر آئے وہ انتہائی تعلیم یافتہ اور صاحب ِ نصاب تھے کئی شہروںمیں ان کی متعدد فیکٹریاں تھیںوہ شروع ہی سے اپنا الگ مزاج رکھنے کی وجہ سے عام لوگوںجیسے نہیں تھے ہنس مکھ، ہمدرداور چپکے سے انسانیت کی خدمت کرنے والے۔انہیں کچھ اللہ والوںکی صحبت ایسی ملی کہ وہ ان کے رنگ میں رنگتے چلے گئے تو شہرسے دور کئی ایکڑ جگہ خریدی اور دنیا کے بکھیروںسے بے نیازہوکر ایک دو دن وہاںعبادت کے لئے چلے جاتے انہوںنے اپنے لئے ایک کٹیا بنوائی جو سادگی کامظہرتھی ابتدا میں سارے کام خود کرتے تھے ماہ ِ صیام میںکئی کئی روز وہاں قیام کرتے انہیں دیکھ کر اب بھی عام آدمی اندازہ نہیں لگاسکتاکہ وہ شہرکے ایک بڑے صنعتکارہیں

شہرسے دور کھیتوں کے آس پاس سڑک کنارے ایک کٹیا اور چھوٹی سی مسجد دیکھ کر پہلے پہل لوگ بہت حیران پریشان ہوتے کبھی اکا دکا مسافرروایتی نلکے سے پانی پیتے کچھ دیر سستاکراپنی اپنی منزل کی طرف بڑھ جاتے کچھ چور بھی واردات کے لئے آئے لیکن درویش بابا کے پاس کھانے پینے کے سوا کچھ بھی نہ ملتا تو مایوس ہوکر چلے جاتے پھر کچھ مقامی لوگوںکا فطری تجسس جاگا تو بڑے بوڑھوںنے آناشروع کردیا جو بھی ان کو ملنے آتا درویش کی حکمت سے لبریز باتیں ان کادل موہ لیتیں پھر نہ جانے کہاں سے ایک حالات کا ماراشخص سکندر وہاں آن نکلا وہ فقط نام کا ہی سکندر تھا

ورنہ حالات نے اسے پریشان کرکے رکھ دیا تھا اس نے کہا اگر آپ مجھے یہاں رہنے کی اجازت دیدیں تو میں مسجدکی خدمت کرتارہوں گا انہیں بھلاکیا اعتراض ہوسکتا تھا اب مسجد میں آذان کی سرمدی آوازبھی گونجنے لگی تو درویش نے مستقل امام صاحب کو بھی رکھ لیا جو باجماعت امامت کے فرائض انجام دینے لگا پھر مہمان خانہ بنا درویش کی ہدایت تھی کہ وہاں آنے والے ہرشخص کی ضروریات کا خیال رکھا جائے

اسی دوران درویش کی شہرت پھیلتی چلی گئی تو ہفتہ وار نشست میں کبھی کچھ دل کی باتیں ، کبھی معرفت کے رموز اسرار تو کبھی امت ِ مسلمہ کے حالات کی منظرکشی اس اندازسے کرتے کہ ان کی باتیں دل میں ترازو ہوجاتیں انہوںنے عبادات پر زوردینے کی بجائے عملی طورپر تربیت دینے کا عزم کررکھا تھا درویش نے بارہا کہا باتیں تو ہرکوئی دلفریب کرنا جانتاہے اورسننا بھی چاہتاہے لیکن عملاً قول و فعل کے تضاد کے باعث کسی پر باتیں اثرانداز اس لئے نہیں ہوتیں کہ وہ روح سے عاری ہوتیں ہیں

۔ اس روزجمعتہ المبارک کی نمازسے ادا کرنے بعد کسی نے درویش سے سوال کرڈالا حضرت ! آپ کے خیال میںآج کا سب سے بڑا مسئلہ کیاہے؟ ۔۔انہوںنے ایک لمحہ توقف کئے بغیر جواب دیا دور ِ حاضرکے مسلمانوںمیں حرام و حلال کی تمیزختم ہوگئی ہے حالانکہ مذہب اسلام کا حرام اور حلال کے بارے میں بڑا واضح حکم ہے اگر رشوت ،شراب ،سود حرام ہیں تو حرام کی کمائی سے خریدا گیا بکرے،گائے

،مرغی کاگوشت حلال کیسے ہوگیا جناب وہ بھی حرام ہے اور حرام کی کمائی کا ایک لقمہ برسوںکے اعمال کو غارت کردیتاہے لیکن لوگوںکو اس کا خیال ہے نہ احساس ۔ اور اگر غورکریں تو روشن ضمیروں پر حلال و حرام کے معانی کاایک دفترہے جو کھلتا چلا جاتاہے جس طرح نماز کی ادائیگی کے لئے وضو شرط ہے بعینہ‘ آخری الہامی کتاب سے صرف اس کو ہدایت ملتی ہے جو متقی اور پرہیزگارہے

اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ قرآن حکیم سے ہدایت لینی ہے تو آپ کو متقی بننا پڑے گا یعنی ہرشخص اس سے ہدایت نہیں پاسکتا متقی ہونے کی شرط پوری کرنا لازمی ہے اس کے بغیراللہ کے احکامات کی گہرائی تک نہیں پہنچاجاسکتا اس لئے اس کتاب ِ مقدس کو اپنی اپنی زبان میں ترجمہ کے ساتھ پڑھا کریں تاکہ احکام ِربانی سمجھ میں آسکیں پھر مطالب پر غورکریں کہ قرآن ہم سے کیا تقاضا کرتاہے اس کا ادراک ہوگیا

تو پھر سمجھ لیں بندگی کا حق اداہوگیا۔درویش نے کہا دنیا بھر کے علماء کرام،مفتی اور لوگوںکی اکثریت عبادات پر زور دیتی ہے عبادات بھی ضروری ہیں لیکن اس سے بھی ضروری حقوق العباد ہیں آخری الہامی کتاب، نبی آخرالزماں ﷺ کی پوری زندگی اور تعلیمات کااگراحاطہ کیا جائے تو انہوںنے صلہ رحمی کی تلقین کی ہے،

حقوق العباد کا خیال رکھنے پرزوردیاہے، ہمسائے کے ساتھ بہترین سلوک کا حکم دیاہے غورکریں سارے کا ساراپور کا پوراا قرآن انسان کو مخاطب کرتاہے ا نسان کو زندگی گذارنے کے طریقے وضاحت سے کھول کھول کربیان کرتاہے، وراثت،والدین کے حقوق، تہذیب و تمدن کے ضوابط، جنگ کے اصول ، امن، سماجی ،سیاسی،ثقافتی سرگرمیوںکا محور ،تعلیم الغرض کہ ہر شعبہ ٔ زندگی سے متعلق احکامات کی تشریح قرآن میں موجود ہے ۔ دنیا کی سب سے عظیم شخصیت آں حضرت ﷺ کی حیات ِ طیبہ ہماری قدم قدم پررہنمائی کے لئے موجودہے کوئی شخص پوری پوری رات عبادت کرتارہے

صوم کا پابند،صلواۃ و تہجد گذارہی کیوں نہ ہو اگر لوگوںکے ساتھ اس کا رویہ بہترنہیں اس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے دوسرے محفوظ نہیں،بیوی پرتشدد کرتاہو، بچے بھی اس سے خوفزدہ رہتے ہوںیاصلہ رحمی کرنے والانہیںتوجان لیجئے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺایسے کسی فرد سے خوش نہیں ہیں حیات ِ طیبہ ﷺکا ورق ورق کھنگال لیںنبی ٔ پاک نے کبھی اپنی کسی اہلیہ پرہاتھ نہیں اٹھایاکبھی گالی گلوچ نہیں کی ہمیشہ حسنِ سلوک کا عملی مظاہر کیا یہ بھی تو ہمارے پیارے نبی کی سنت ہے بیشتر کیوں غورنہیں کرتے

دوسروںکی زندگیاں تلخ کرکے جنت کے طالب کیوںنہیں سوچتے،معاملات میں بہتری، کمزور وںسے صلہ رحمی،پڑوسیوں،راہگیروں،بچوں،گاہکوں سے خوش اخلاقی،خواتین کااحترام بھی تو نبی پاک ﷺ کی سنتیں ہیں یادکرو فتح مکہ کے روزکیا ہوا تھا اللہ کے آخری نبی ﷺ نے غالب آنے کے باوجود اپنے دشمنوںکو معاف فرمادیا تھا ہم ایسا کیوںنہیں کرتے آپ سرکار ﷺ نے تو ماحول کو بتوں سے پاک کردیا تھا ہمارے اندر تکبرکے کتنے بت براجمان ہیں یہ ہم بھی نہیں جانتے،تکبر،انا،خود ستائشی،لالچ ،نفرت ،ظلم،اختیارات اور طاقت کے بتوںنے ہماری پوری شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیاہے

پھر بھی کمال حیرت ہے کسی کو اس کا مطلق احساس ہے نہ ادراک یہ ہوکیا رہاہے؟ حضرت محمد ﷺ کو اپنانبی تسلیم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی تعلیمات پر عمل کیا جائے ان کے اسوہ ٔ حسنہ کو رہبرمان کر معاملات ِ زندگی کو معمول بنالیں تو بات بن سکتی ہے ورنہ دعوے اور عمل میں کوئی تال میل نہیں یہ حقیقت جانے بغیرمسلمان ہونے کا حق ادانہیں ہوسکتا۔یقین جانو انسان ہروقت اللہ کا شکر اداکرے تب بھی اس کی دی ہوئی نعمتوںکا شکرانہ ادا نہیں ہوسکتا جو لوگ احساسات سے عاری ہورہے ہیںیا جن کے دلوںمیں اضطراب دم توڑرہاہے

ان کیلئے مخلصانہ مشورہ ہے وہ اپنے معامالات پر ازسرنو غورکریں وہ اپنے آپ کو مصروف کرلیں اس کا آسان حل یہ ہے کہ اپنی ذات کو سماجی کاموںکیلئے وقف کردیں جس کے پاس وسائل نہیں ہے پھر بھی وہ انسانیت کی خدمت کرسکتاہے اپنی گلی محلے میںلوگوںکے چھوٹے موٹے مسائل حل کرنے کیلئے کوشش کریں یا کسی سماجی تنظیم میںشامل ہوجائیں بہت سے لوگ آ پ کی توجہ کے منتظرہیں

اس کے ساتھ ساتھ عبادات میں اپنا دل لگانے کی کوشش کریں اورخودکو ایک اچھا انسان بنانے کی تحریک پیداکریں اس ضمن میں ایک نسخہ یہ ہے کہ وعظ و تلقین کی بجائے اپنے کردار سے دوسروںکیلئے مثال بنیں یقین کریں یہی ایک طریقہ سے جس سے تکبرکے بت پاش پاش ہوسکتے ہیں

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں