46

شہدائے کربلا کی قربانی مشعل راہ

شہدائے کربلا کی قربانی مشعل راہ

ماہ ِمحرم شروع ہوتے ہی عالم اسلام کے دل سوگواری میں ڈوب جاتے ہیں،اس بات کا شدت سے احساس ہونے لگتا ہے کہ وہ زمانہ مسلمانوں کے عروج کا زمانہ تھا،اس زمانے میںنواسہ رسول پر ظلم ڈھانے والے کوئی اور نہیں، رسول ﷺکا کلمہ پڑھنے والے ہی تھے، وہ اخلاقی لحاظ سے بہترین مسلمان اور دین اسلام زیادہ جاننے والے تھے، وہ نواسہ رسول ﷺکی اہمیت جانتے تھے ،لیکن جس چیز نے ان کی آنکھوں پر ظلم کی پٹی باندھ دی، وہ اقتدار کی ہوس تھی کہ جس کے باعث خوف ناک بھیڑیے بن گئے تھے،

یہ لڑائی دو ایسے مسلمان گروہوں کے درمیان تھی کہ جن میں ایک حسینی گروہ کہ جس کی تمنا اللہ کے احکامات کا غلبہ نافذ کرنا تھا،جبکہ دوسرا یزیدی گروہ، دنیا کی فریب کاریوں میں مبتلااقتدار کی ہوس کا شکار تھا ،سیدنا حسین ؓے محض ڈیڑھ سولوگوں کے ساتھ یزیدی فوج کے چالیس ہزار لشکر کے سامنے کھڑا ہونا منظور کرلیا ،لیکن باطل کے سامنے جھکنا قبول نہیں کیا،سیدنا حسین ؓنے اپنی جان قربان کر دی،

لیکن یزید جیسے بدکردار انسان کی بعیت قبول نہیں کی تھی۔اسلام میں کبھی موروثی حکمرانی کا تصور نہیں رہا ہے،آپ ﷺکے بعد خلافت کا فیصلہ ہمیشہ شوریٰ کے ارکان کرتے رہے ہیں، اگر اسلام میں نسلی حکمرانی کا کوئی وجود ہوتا تو آپ ﷺکے جانشین سیدنا علی ؓہوتے، لیکن سیدنا ابوبکر صدیق کو خلافت دینے کا فیصلہ اس وقت کے چند برگزیدہ صحابہ کرام نے مشورے سے کیا ،کیونکہ ان صحابہ کرام کی نظر میں

ابو بکرسے زیادہ متقی کوئی دوسرا نہیں تھا، حضرت ا بوبکرؓکی وفات کے بعد خلافت بالترتیب سیدنا عمرؓ، سیدنا عثمانؓ اور سیدنا علیؓ کو صحابہ اکرام کی مجلسِ شوریٰ کے فیصلے پر ملی، مجلس ِ شوریٰ میں خلیفہ کا انتخاب کسی حسب نسب کی بنا پر نہیں ،بلکہ صرف تقوے، علم و حکمت کی بنا پر کیا جاتا رہا ہے ۔
اسلام کی تاریخ میں پہلی بار سیدنا معاونے جرات کی ہے کہ بغیر مجلس شوریٰ کے فیصلے کے اپنے بیٹے یزید کا نام امیر کے لیے منتخب کر لیا اور تمام سرداروں کو یزید کی بیعت پر مجبور کیا، اکثر لوگوں نے وقت کا تقاضا اور مصلحت سمجھ کر یذید کی بیعت کر لی ،لیکن سیدنا حسینؓ نے بیعت سے انکار کر دیا اور اس باطل کے

خلاف ڈٹ گئے، سیدنا حسینؓ جانتے تھے کہ اس بیعت کا مطلب آمریت اور نسبی بادشاہت کو قیامت تک کے لیے درست قرار دینے پر نواسہ رسول کی مہر لگ جائے گی اور پھر کوئی اس نظام کے خلاف بول نہیں سکے گا، خلیفہ وقت، خلیفہ نہیں بادشاہ اور آمر بن جائے گا، وہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ اور عوام کا جواب دہ نہیں سمجھے گا۔
سیدنا حسینؓ نے باطل کے سامنے ساری زندگی اپنا سر نہیں جھکایا ،لیکن آج پورے عالم اسلام میں یزیدیت سرایت کر چکی ہے،ہمیں کہیں دور دیکھنے کی ضرورت نہیں، اپنے ہی ملک کی سیاسی حالت زار دیکھیںتو صاف دکھائی دیتا ہے کہ سیاسی قیادت نے اپنے اقتدار کی ہوس میں ملک میں ایک اودھم مچا رکھا ہے ،

پاکستان جب سے وجود میں آیا ہے، ایک مخصوص اشرافیہ اقتدار پر قابض ہے ،انتخاب اقتدار پرکوئی تقویٰ نہ کوئی فہم و فراست دیکھی جارہی ہے،عوام کے ووٹ کے نام پر موروثی قیادت عرصہ دراز سے عوام پر مسلط کی جارہی ہے ،اس کے باعث ملک روز بروز تنزلی کی طرف جارہا ہے،لیکن ہم بار بار آزمائے ہوئی قیادت کا ہی انتخاب کررہے ہیں ۔
سیدنا حسینؓ کا بھی ایک ووٹ ہی تھا کہ جو انہوں نے یزید کو نہیں دیا تھا،سیدنا حسین نے اپنا اور اپنے خاندان کے سر کٹوا لیے، لیکن باطل کو اپنا ووٹ نہیں دیا، ادھر ہم سید نا حسینؓ سے محبت کا دعویٰ تو بہت کرتے ہیں، لیکن اپناووٹ اقتدار اور لوٹ مار کی ہوس کے پجاریوں کو آسانی سے دے دیتے ہیں،

جبکہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے نزدیک اسلام کے نام پر بننے والے پاکستان کی کوئی قدرو قیمت ہی نہیں ہے ،یہ صرف اپنی تجوریاں بھرنے اور اقتدار پر قابض ہونے کیلئے
آتے ہیں اور اقتدار کی چھینا جھپٹی میں ایسی بچگانہ حرکتیں کرتے ہیں کہ جنہیں دیکھ کر شرم سے سر جھک جاتا ہے ،ہماری سیاسی قیادت کا دین و مذہب اقتدار ہے اور اس کے حصول کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار رہتے ہیں۔
اگر ہم واقعی سیدنا حسینؓ سے محبت کے دعوے دار ہیں تو ان کے مشن محمدﷺکو پورا کرنے کے لیے کھڑے ہوجانا چاہئے کہ جس کو پورا کرنے کے لیے سیدنا حسین ؓنے اپنے خاندان سمیت جانوں کا نذرانہ پیش کردیا تھا، ہمارے لیے شہدائے کر بلا کی قر بانی مشعل راہ ہے،ہمیں اپنا ووٹ سید نا حسینؓ کی پیروی میں دینا چاہئے ،ہمیں آزمائے کو بار بار آزمانے کے بجائے ایسی نئی قیادت کا انتخاب کر نا چاہئے

کہ جو خود متقی پرہیزگار ہونے کے ساتھ دین اسلام کو اچھی طرح سمجھنے والا اور اس پر عمل کرنے والا ہو، جو پاکستان کو عملی طور پر ریاست مدینہ بنانے کی کو شش کرے ،اگر عوام تھوڑی سی نظر دوڑائیں گے تو انہیں ایسے سیدنا حسینؓ کے پیروکار ضرور مل جائیں گے جو کبھی خودباطل کے سامنے جھکیں گے نہ ہی کبھی اپنی عوام کو جھکنے دیں گے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں