47

آزادی کی جھلک

آزادی کی جھلک

تحریر : سہیل حسن بھٹی

یوم آزادی پاکستان یا یوم استقلال ہر سال 14 اگست کو پاکستان میں آزادی کے دن کی نسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ وہ دن ہے جب پاکستان 1947ء میں انگلستان سے آزاد ہو کر معرض وجود میں آیا۔ 14 اگست کا دن پاکستان میں سرکاری سطح پر قومی تہوار کے طور پر بڑے دھوم دھام سے منایا جاتا ہے پاکستانی عوام اس روز اپنا قومی پرچم فضا میں بلند کرتے ہوئے اپنے قومی محسنوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔

ملک بھر کی اہم سرکاری عمارات پر چراغاں کیا جاتا ہے۔اسلام آباد جو پاکستان کا دارالحکومت ہے، اس کو خاص طور پر سجایا جاتا ہے، اس کے مناظر کسی جشن کا سماں پیدا کر رہے ہوتے ہیں۔ اور یہیں ایک قومی حیثیت کی حامل تقریب میں صدر پاکستان اور وزیرآعظم قومی پرچم بلند کرتے ہوئے اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ ہم اس پرچم کی طرح اس وطن عزیز کو بھی عروج و ترقی کی بلندیوں تک پہنچائیں گے۔

ان تقاریب کے علاوہ نہ صرف صدارتی اور پارلیمانی عمارات پر قومی پرچم لہرایا جاتا ہے بلکہ پورے ملک میں سرکاری اور نیم سرکاری عمارات پر بھی سبز ہلالی پرچم پوری آب و تا ب سے بلندی کا نظارہ پیش کر رہا ہوتا ہے۔ یوم اسقلال کے روز ریڈیو، ٹیلی ویژن اور انٹرنیٹ پہ براہ راست صدر اور وزیراعظم پاکستان کی تقاریر کو نشر کیا جاتا ہے اور اس عہد کی تجدید کی جاتی ہے کہ ہم سب نے مل کراس وطن عزیز کو ترقی،

خوشحالی اور کامیابیوں کی بلند سطح پہ لیجانا ہے۔سرکاری طور پر یوم آزادی انتہائی شاندار طریقے سے مناتے ہوئے اعلیٰ عہدہ دار اپنی حکومت کی کامیابیوں اور بہترین حکمت عملیوں کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنے عوام سے یہ عہد کرتے ہیں کہ ہم اپنے تن من دھن کی بازی لگا کر بھی اس وطن عزیز کو ترقی کی راہ پر گامزن رکھیں گے اور ہمیشہ اپنے رہنما قائد اعظم محمد علی جناح کے قول “ایمان، اتحاد اور تنظیم” کی پاسداری کریں گے۔

لیکن لمہ فکریہ یہ ہے کہ 14 اگست 1947، جس دن پاکستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ جس کے پیچھے ہمارے عظیم رہنماؤں کی کوشش اور ہمارے بزرگوں کی قربانیاں ہیں۔ جنہوں نے ہمیں یہ ملک دیا کے ہم سیاسی، مذہبی، معاشی اور معاشرتی لحاظ سے آزاد ہوں اور آزاد رہ کر اپنی زندگی گزاریں۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 73 سال ہو گئے لیکن ہم اب بھی آزادی کا مطلب نہیں سمجھ سکے، ملک کے حالات، سیاسی نظام اور عوام کی سوچ اور رائے دیکھ کر یہ بات ذہن میں آتی ہے

کے ”پاکستان تو آزاد ہے“ اور ہم بھی آزاد کہلاتے ہیں لیکن کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟1 : پاکستانی سیاست نے جمہوریت اور آمریت کی آنکھ مچولی بھگتی ہے۔ اب بھی ایسے حکمران موجود ہیں جو اقتدار میں آنے کے لیے جمہوریت کے پیچھے چھپ کر اپنے ہی ملک کے قانون کے ساتھ کھلواڑ کرتے ہیں اور اس مقصد میں ان کا ساتھ وہ خفیہ لوگ دیتے ہیں جو بظاہر خفیہ لیکن ہوتے پاکستانی ہی ہیں۔

ایسے جمہوری حکمران میں اور آمر میں فرق صرف الفاظ کا رہ جاتا ہے۔ یہ سب لوگ مل کے پاکستان کو پیچھے لے گئے ہیں۔2 : تو جہاں سیاست میں آنے کے لیے میرٹ نہیں بلکہ خفیہ طاقتیں اور پیسے چلتے ہوں، جہاں کرسی اور اقتدار کی بھوک اندھا کردے اور مخالفوں پہ غداری اور بے دین ہونے کے فتوے لگائے جائیں، دین کا بھی اپنے مقاصد کے لیے غلط استعمال کیا جائے تو وہ ملک بھی آزاد کہلا سکتا ہے؟
3 : جہاں قانون کی حکمرانی نا ہو، قانون نہیں بلکہ ظلم اور ظالم آزاد ہو، جہاں کے عوام کو اپنے ہی آزاد ملک میں کبھی انصاف نا ملنے کا یقین ہو، تو کیا وہ ملک آزاد کہلا سکتا ہے؟4 : جہاں کا میڈیا آزاد نہ ہو، میڈیا میں سے بھی اقرباپروری کی بو آتی ہو، میڈیا بٹا ہوا نظر آئے، جو بولے اسے چپ کروانے اور اسے اٹھا لینے کا رواج ہو،

جہاں کے عوام صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط نہ کہتے ہوں، اپنے ہی منتخب کردہ نمائندوں سے سوال نہ کرتے ہوں ان کے غلط ہونے کا جواز پیش کرتے ہوں، اپنا ووٹ پسند نا پسند کی بنیاد پہ دیتے ہوں تو ایسا ملک اور لوگ بھی آزاد کہلا سکتے ہیں؟5 : جس ملک کی معیشت سود اور قرضوں میں جکڑی ہو،

اس پہ آئی ایم ایف کئی حکمرانی ہو، معیشت قید ہو تو کیا وہ ملک آزاد کہلا سکتا ہے؟ایسا لگتا ہے پاکستان آزاد ہو کر اپنے ہی لوگوں کے ہاتھوں میں قید ہے۔ ہم خود ہی اس کی ترقی میں رکاوٹ ہیں یہ آزادی ہم خود اپنے ملک کو دے سکتے ہیں۔آئیں آج آزادی کے دن اپنے آپ کو بدلیں اور آزاد کریں ہر اس چیز سے ہر اس کام سے جو ہمیں اور ہمارے ملک کو پیچھے لے جا رہے ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں