سیلاب سے درپیش صنفیت کے مسائل
کومل شہزادی
٢٠٢٢ ءکا سیلاب جو ابھی تک تباہی مچاتا ہوا نظر آرہا ہے ۔پاکستان کا آدھا حصہ اس کی زد میں ہے۔مالی ،جانی اور دوسرے نقصانات کا ازالہ تو ممکن ہی نہیں۔جس قدر تباہی سیلاب سے ہوچکی ہے شاید بہت وقت لگ جائے کہ ہم اس نقصان سے نکل سکیں۔سوات سے کراچی اور کراچی سے لیکر چمن اور ژوب تک ہر طرف بارشوں سے تباہی اور بربادی کے علاؤہ کچھ نہیں۔اور یہ تباہی اس قدر ہے جس سے ہمارے ملک کو نکلنے میں کتنے سال لگ جائیں اس کا بھی اندازہ نہیں ہے۔بے شمار علاقے متاثرہوچکے ہیں۔
اس مشکل وقت میں بہت سی این جی او اور فاونڈیشن اور چند اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدگان کے لیے امداد اکھٹی کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ دن و رات کی مشقت سے یہ لوگ امدادی کیمپس پر کام بھی کررہے ہیں ۔اور پیکنگ کے بعد یہ سامان ان متاثر لوگوں تک پہنچانا۔بلاشبہ یہ محض بنا مفاد سب رضاِئے الہٰی کے لیے کررہے ہیں۔یہ سب بہترین کام تو ایک طرف لیکن خواتین کے مسائل و بدحالات جس قدر ہیں ان علاقوں میں وہ شاید تحریر میں بیان نہ کرسکوں۔
چند نکات کو مدنظر رکھیے تاکہ دوسرے افراد کےاور بچوں کے مسائل کے ساتھ ان متاثرہ خواتین کے مسائل پر بھی نظر ثانی کی جاسکے۔
خواتین اور نوجوان بچیوں کے مسائل بھی ایک طرف جس سے ہم نظر نہیں موڑ سکتے۔بلکہ اس حوالے سے فیلڈ میں کام کرنے والی خواتین ان مسائل پر نظر ثانی کریں۔کیونکہ ان دنوں وہاں ایسے حالات نہیں کہ ان کے مسائل کو وہ اپنے لیے حل کرسکیں۔خواتین کے مخصوص ایام اور رفع حاجت اور امید سے جو خواتین ان کے بے شمار مسائل ہیں جو نیچرلی ہیں جس میں کوئی ہچکچاہٹ والی بات نہیں۔بلکہ خواتین ہی خواتین کے مسائل کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتی ہیں۔جہاں دوسری اشیاء کی امداد کی جاتی ہے وہیں ان خواتین کے ذاتی سامان کا خیال بھی رکھیں کہ اُن کو پیکنگ میں لازم شامل کیا جائے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ خواتین جو کپڑے امداد کررہی ہیں وہ تھوڑا سا احساس رکھ کر ایسے کپڑے کیجیے جو اچھی حالت کے ہوں کہ ان خواتین کا کچھ عرصہ ان کپڑوں میں نکل سکے۔پہلے ہی ردی کپڑے ہوں گے تو ان کا بھی بہت کم عرصہ ایسے کپڑے چلیں گے۔
کپڑوں کو بوسیدہ حالت میں نہ پیک کرکے دیں بلکہ اچھے طریقے سے تہہ کیجیے چاہے پرانے ہی ہیں اور شاپر میں پیک کردیجیے۔
ان لوگوں کی تقریبا تمام چیزیں کپڑے وغیرہ سب کچھ سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔تو بالکل جیسے روزمرہ میں جو چیزیں ذاتی طور پر خواتین استعمال کرتی ہیں یا روزمرہ استعمال میں ضروری ہیں وہ بھی ڈونیٹ کرتے ہوئے خیال رکھیں۔بچیوں کے جوتے اور خواتین کے جوتے بھی اس میں شامل کیجیے۔
ان علاقوں میں جیسے حالات ہیں یہ اپنا ذاتی سامان نہ کسی سے مانگ سکتی ہیں اور نہ ہی ادھر صورت حال ایسی ہے کہ یہ چیزیں مہیا ہوسکیں۔پوشیدہ مسائل بھی ویسےہیں جیسے ظاہری مسائل نظر آتے ہیں۔ان متاثرہ علاقوں میں جاکر دیکھنے سے ہی ان خواتین کی کنڈیشن کا اُن کو اندازہ ہوسکتا جن کے وہم وگمان میں بھی نہ ہوکہ ان کے کس کس طرح کے مسائل سے سامنا ہے۔ خواتین Volunteers کو بھی وہاں جانا چاہیے وہاں کی خواتین اور بچیوں کی ہیلپ کرنی چاہیے۔آپ لوگوں کو اندازہ نہیں کہ سیلاب میں کیا کیا مسائل ہیں۔ خواتین بچیاں لڑکیاں کس قدر اذیت میں ہیں یہ صرف وہی سمجھ سکتی ہیں۔یہ بات بہت تشویشناک
خاص طور پہ عورتوں کے لیے کہ اگر گندی و غلیظ حالت میں مزید رہیں تو خواتین بہت بیماریوں کا شکار ہوجائیں گی۔یہ کوئی چھوٹا مسئلہ نہیں ذرا خود پر رکھ کر سوچا جائے کہ کھانا نہیں پانی نہیں چھت نہیں واش روم نہیں کھلی فضا اوپر سے بارش چھوٹے بچے اور خواتین کے اپنے ذاتی مسائل اور نیچے 3 فٹ پانی ہے۔
سیلاب زدہ علاقوں کے اطراف میں شدید بارش سے جو مسائل جنم لے رہے ہیں حکومت کا دور دور تک کوئی پتہ نہیں کہ ان لوگوں کے لیے کچھ حکمت عملی اپناِئی جاِئے تاکہ مزید بیماریوں سے بچ سکیں ۔.سوائے فوٹو سیشن یا ایک دوسرے پر تنقید کرنے کے علاوہ کچھ کرنے یا سوچنے سے قاصر ہیں ۔کم از کم سیلاب پر تو سیاست کرکے ایسے لوگوں کی مزید تذلیل نہیں کرنی چاہیے۔
اللہ پاک جلد ان متاثرین کے مسائل حل کرے اورسب کو اپنی حفظ و امان میں رکھے.