2 فروری 1835 کو لارڈمیکالے نے برطانیہ کی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’’میں نے ہندوستان 44

معاشرے کا زوال

معاشرے کا زوال

تحریر راجہ فرقان احمد

کچھ عرصہ سے پاکستان میں ایک ایپ نے ہلچلی مچارکھی ہے چاہے وہ سیاسی شخصیات ہو یا عوامی لوگ سب ہی اس کے نرغے اور نشانے پر ہے. شخصیات اپنی غلطی سے نجات حاصل کرنے میں مگن ہیں اور اپنے تجربے سے اس مشکل سے نکلنا چاہتے ہیں جبکہ عوام اس کو انٹرٹینمنٹ کی نظر سے دیکھتے ہوئے

اپنے قیمتی وقت کا ضیاء کرنے میں مصروف ہے. مگر یہ عوام بھی کیا کرئے آئے روز ملکی حالات کے پیش نظرعوام کو انٹرٹینمنٹ حاصل کرنے کے لئے اسی کا روح کرنا پڑتا ہے. جہان نت نئی ایجادات سے دنیا مفید ہوتی ہے وہی ان ایجادات سے معاشرے کی ساخت بھی کسی حد تک متاثر ہوتی ہے.
2016 چین نے سوشل میڈیا کے میدان میں ایک نئی ایپ متعارف کروائی جس کا نام ٹک ٹوک ہے. یہ ایپ دنیا بھر میں اپنے منفرد کنٹیکٹ کے باعث مقبول و مشہور ہوئی. یہ ایپ 2016 میں چین میں لانچ ہوئی اور تقریبا ایک سال بعد 2017 میں اسے دنیا کے سامنے متعارف کروایا گیا. یہ ایپ دو سو دنوں کی محنت و مشقت سے بنائی گئی. 9 نومبر 2018 کو ٹک ٹوک نے دوسری ایپ میوزیکی کو ایک بلین ڈالر میں خرید لیا

. وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ ایپ دنیا بھر میں مشہور ہوگی. ایک تحقیق کے مطابق 2018 میں صرف امریکہ میں 80 ملین صارفین نے اسے ڈاؤنلوڈ کیا جبکہ 2018 میں ہی 800 ملین صارفین نے اسے ڈاؤن لوڈ کیا. یہ ایپ دن دگنی اور رات چگنی ترقی کر رہی ہے.اکتوبر 2018 کے اعداد و شمار کے مطابق یہ ٹک ٹوک دنیا کے 150 ممالک کی زبانوں میں دستیاب ہے. ایک بار بڑے بھائی کے اصرار میں اس ایپ کو استعمال کرنے کا موقع ملا.

اس ایپ میں پندرہ سیکنڈ کی ویڈیو بنائی جاتی ہے اور بولنے کے بجائے ہونٹ حلانے ہوتے ہیں. ویڈیو ریکارڈ کرکے اسے سوشل میڈیا میں ڈال دیا جاتا ہے اورکچھ وقت میں ہی ہزاروں لوگ اس ویڈیو کو دیکھتے ہیں.
جہاں اس ایپ کے فائدے ہیں وہی اس کے نقصانات بھی کئی گنا ہے. بنگلہ دیش, انڈونیشیا سمیت کئی ممالک نے اس ایپ پر پابندی لگائی ہوئی ہے. کچھ دنوں پہلے سیالکوٹ میں ایک نوجوان ٹک ٹوک ویڈیو میں اسٹنٹ کرتے ہوئے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا. اسی طرح نہ صرف پاکستان میں بلکہ دوسرے ممالک میں بھی کئی لوگ اس کی زد میں آکر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے. اس ایپ میں نہ تو عمر کی کوئی حد مقرر ہے اور نہ ہی چیک اینڈ بیلنس. اس ایپ سے راتوں رات شہرت کی بلندیوں کو بھی چھو سکتے ہیں.

ایپ کو استعمال کرتے ہوئے نہایت ہی نازیبا الفاظ استعمال کیے جاتے ہیں جس کو نہ صرف بچے بلکہ فیملی کے سامنے بھی سن کر شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے. ہمارے معاشرے کو اس غلیظ مرض نے نچوڑ کر رکھ دیا ہے.
ہمیں سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ ہمارا یہ معاشرہ کس جانب گامزن ہے. اس ٹیکنالوجی نے ہمیں غلط راہ کی جانب گامزن کردیا ہے. اس طرح کی ایجادات کو سوچ سمجھ کر استعمال کرنے کی اشد ضرورت ہے.
ہمارے حکمرانوں کو چاہیئے کہ وہ اس طرح کی نئی ایجادات کا جائزہ لیں اور اس قوم کو سیدھے راستے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کریں. والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں پر نظر رکھیں اور ان کی بہتر مستقبل کے لیے سخت فیصلہ کریں.

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں