49

اسلام کے سپاہی

اسلام کے سپاہی

تحریر:فخرالزمان سرحدی ہری پور

پیارے قارئین کرام! عنوان اپنی جامعیت و اکملیت کے باعث اتنا جامع اور بسیط ہے کہ اس پر بات کرنا میرے بس کی بات نہیں لیکن جذبہ اظہار مجھے مجبور کرتا ہے کہ کچھ تو عرض کروں.ابتدائے نگارش یہی ہے کہ انسانیت کی کامیابی کا انحصاراسلامی تعلیمات پر عمل کرنے پر ہے.معلم انسانیتﷺ جب اسلام کا عالمگیر نظام لائے تو ایک عالمگیر انقلاب رونما ہوا.اسلام سے پہلے کا منظرنامہ انسانیت کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے

کہ اسلام کی روشنی سے قبل انسانیت کس قدر پستی کا شکار تھی.بھائی ,بھائی کا دشمن تھا.انسانیت پستی کا شکار اور حیات انسانی بحر ظلمات میں غرق ,انسان کی پیشانی رب کریم کے بغیر خود ساختہ بتوں کے سامنے سجدہ ریز تھی.اخلاقیات کا نام ونشاں تک مٹ چکا تھا.یہ رب کریم کی خصوصی مہربانی کے عرب کی سرزمیں میں آپ ﷺ کی ولادت ہوئی تو عالم کفر پر لرزہ طاری ہوا اور عالم انسانیت کے لیے رشدوہدایت کا اہتمام حکم ربی سے ہوا.بقول شاعر:-وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا….مرادیں غریبوں کی بر لانے والا.

…بعثت نبویﷺ سے کلمہ حق کا پرچار ہوا.ابتدائی عرصہ میں آزمائشوں کا آپ نے سامنا فرمایا لیکن بفضل خدا ثابت قدمی کے جوہر قیمتی سے کوئی چیز پائے ثبات میں لغزش نہ پیدا کر سکی.اور ایسی تبدیلی رونما ہوئی کہ بقول شاعر…یہ غازی یہ تیرے پر اسرار بندے…جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق خدائی…دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا ودریا…سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی…دوعالم سے کرتی ہے بیگانہ دل کو..

.عجب چیز ہے لذت آشنائی…اسلام کے سپاہی ایسے تیار ہوئے کہ عشق رسول ﷺ کی یگانہ مثالیں رقم کر ڈالیں اور رضائے الٰہی کی خاطر سب کچھ قربان بھی کر دیتے.حضرت بلال کا عشق کامل آج بھی زندہ جاوید ہے.ازان میں ایک سوز اور وجد کی کیفیت ہوتی تھی.حضرت ابو بکر صدیق غار ثور کی تاریکیوں میں بھی ہجرت مدینہ کے سفر میں ہمراہ رہے.حضرت عمر فاروق جب حلقہ بگوش اسلام ہوئے

تو نئے عہد سے انسانیت کو اور تسکین ملی اور حضرت عثمان غنی کی سخاوت اور حضرت علی کرم اللہ وجہ کی بہادری اور جراءت کا تذکرہ آج بھی سنہری الفاظ سے ہوتا ہے.عشرہ مبشرہ اور عظیم فرزندان اسلام کی قربانیاں اور اسلامی واقعات سنہری حروف سے کندہ ہیں.اسلام کے پیروکاروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا گیا بقول شاعر:-صدق خلیل بھی ہے عشق,صبر حسیں بھی ہے عشق….

معرکہ وجود میں بدروحنین بھی ہے عشق…اسلامی غزوات وسرایا کا تذکرہ قیمتی الفاظ کے ساتھ ہر محفل اور نشست میں کیا جاتا ہے.تاریخ مشاہیر اسلام کی قربانیوں اور شجاعت و بہادری پر خراج تحسین آج بھی پیش کرتی ہے.اس ضمن میں اتنی سی بات کی جا سکتی ہے کہ آخری رسول کریمﷺ کی زندگی ہمارے سامنے موجود ہے.آپ حسن اخلاق کی معراج پر فائز تھے اور اسی کا درس بھی امت کو دیا.اقراء سے تعلیم کا آغاز فرمایا

.احکام الٰہی کی شریعت کا تحفہ امت کو دیا.قوانین الٰہی کی ترجمانی ایسے خوبصورت انداز سے فرمائی کہ عکس و آئینہ بن گئی.بقول شاعر..کمال اخلاق ذات اس کی…جمال ہستی حیات اس کی…عاجزی کا درس امت کو دیا اور اسلام کے پیروکاروں کی زندگیوں کو بھی مثالی بنا دیا.جس قدر اسلام کے سپاہی آپ سے محبت کرتے تھے وہ بھی ایک خوبصورت داستان ہے.آپ نے جانثاروں کو جب بھی پکارا تو سب نے اپنا سب کچھ قربان کرنے سے دریغ بھی نہ کیا.ان کے ہاں آپ کی اطاعت اللہ کی اطاعت اولین ہوتی تھی.عصری تقاضوں کے مطابق آئیڈیل زندگی آپ کی ہی ہے.آپ کی طرف سے پیش کردہ اسلامی نظام پیش کیا گیا

اس پر عمل کرنے سے زندگی سنور سکتی ہے.یہاں یہ بات زور دے کر کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی عزت و کردار کا دارومدار اس کے فکروکردار پر ہے.اسلامی تعلیمات کی تجلیات سے ہی کامل مومن اور مکمل انسان بن سکتا ہے.حب الٰہی مومن کی معراج ہے.سچے مومنین کی نشانی بھی یہی بتائی گئی ہے کہ وہ سب سے زیادہ محبت اللہ سے کرنے والے ہوتے ہیں.آپ کی زندگی بحثیت معلم انسانیت مثال ہے.

آپ نے کائنات کے ذرے ذرے کو تعلیم وتربیت سے بقعہ نور بنا دیا.ہمدردی,مساوات,اخلاق کے پیمانوں سے زندگی کی عبارت میں خوشنما رنگ آمیزی فرمائی کہ نمونہ کامل بن گئے.بقول شاعر….وہ دانائے سبل,ختم الرسل,مولائے کل جس نے..غبار راہ کو بخشا فروغ وادیء سینا…انسانیت کی کامیابی کا انحصار اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل کرنے میں پوشیدہ ہے.ریاست مدینہ کا قیام ایسے خطوط پر عمل میں لایا کہ زندگی کا انداز ہی بدل گیا.حسن معاشرت مثال بن گیا.عدل و انصاف مساوات کے پیمانے مقرر فرمائے.رنگ و نسل کا امتیاز مٹ گیا.محبت اور خلوص سے زندگی اور خوبصورت دور میں داخل ہوئی جو آج بھی انسانیت کی رہنمائی و رہبری کے لیے مثال ہے.

یہ بات روز روشن کی طرح عیاں بھی ہے کہ جو انسان تعلیمات حق اور سیرت رسول کے مطابق عمل کرتے ہوئے زندگی بسر کرتا ہے اس کی نجات ممکن ہو پاتی ہے.کتاب انقلاب قرآن مجید کی تعلیمات سے ہی زندگی بنتی اور سنورتی ہے.اگر زندگی کے سفر میں تبدیلی مقصود ہے تو پھر اسوہ رسول پر عمل کرنا ہی سب سے بڑی کامیابی ہے.

آج اخلاقیات میں ہم کہاں کھڑے ہیں ….یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب عصر حاضر کے حالات کی روشنی میں بہتر انداز سے پیش کیا جا سکتا ہے.دنیا کی رنگینیوں اور تہذیب مغرب سے متاثر ہو کر ہم اخلاقی طور پر پستی کا شکار ہیں.ہمارے پاس اسلام کا خوبصورت نظام موجود ہےاس کی روشنی میں زندگی کا سفر طے کرنے سے کامیابی کی نوید مل سکتی ہے.خوف خدا جب ہمارے دلوں میں جاگزیں ہوتا ہے

تو عمل جیسی سعادت ملتی ہےبقول شاعر عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی,جہنم بھی….یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری …تمام تر دنیاوی اختلافات کو ختم کرنےسے,اعتدال کی راہ اختیار کرنے سے فلاح کی راہیں کھلتی ہیں.اسلام کے سپاہی بننے کے لیے اسلامی تعلیمات حاصل کرنے اور عمل درآمد کرنا ہے.زندگی کے سفر میں نفس کی غلامی نہیں بلکہ اسلام کی ترجیحات کے مطابق زندگی بسر کرنا ہے.عدل و انصاف اور مساوات کے اصولوں کو فروغ دینا ہے.تب کامیابی کی راہیں کھلتی ہیں.

اس وقت ملت اسلامیہ کو بے شمار چیلنجوں کا سامنا ہے.باہمی اتفاق اور اتحاد سے ملت اسلامیہ کی بنیادوں کو استحکام مل پاتا ہے.محبت اور الفت کے موسم کو سچائی,امانتداری,بھلائی سے خوبصورت بنایا جا سکتا ہے.بڑوں کا ادب اور چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا اسلام کے سپاہیوں کی سب سے بڑی پہچان ہوتی ہے.امیر اور غریب کی تمیز ختم کرنے سے معاشرتی اور اخلاقی قدروں کو فروغ ملتا ہے.

نگاہ بلند,سخن دلنواز,جاں پرسوز جیسی صفات اجاگر ہوتی ہیں.حقوق اللہ اور حقوق العباد کا احترام اور متوازن زندگی کا تصور ہی احترام انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے.دوسروں کے حقوق کا خیال رکھنا اور احترام سب سے خوبصورت انداز ہے جو ہمیں اسلام کی روشن تعلیمات سے ملتا ہے.اگر دینی تعلیمات کی روشنی میں زندگی بسر کی جائے تو دنیا و آخرت میں کامیابی نصیب ہو پاتی ہے ….

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں