گلشن حیات
بقول اقبال
.ہو حلقہ یاراں تو ابریشم کی طرح نرم
رزم حق وباطل ہو تو فولاد ہے مومن
پیارے قارئین کرام!تاریخ اسلام کی ورق گردانی کریں تو حیرت ہوتی ہے کہ اسلام کی روشنی سے قبل انسان کس قدر پستی کی زندگی بسر کرتا اور اخلاقیات کے پیمانے کس قدر شکستہ کہ ہر طرف حیوانیت کی زندگی کا تصور نمایاں تھا.انسانیت قابل رحم کیفیت کا شکار خواہشات کا غلبہ اور من پسند زاویہ حیات سے زندگی بسر ہوتی.اخلاقیات,سماجیات,عاشرت اور مذہبی لحاظ سے انسانیت کا وقار مجروح تھا.
اک نسخہ کیمیا ساتھ لایا گویا کہ کلمہ حق کی بلندی سے ایک عالمگیر تبدیلی رونما ہو ئی.اسلام تعلیمات کے روشن چراغ سے باطل کے خاتمہ کا آغاز ہوا.وہ بیقراری اور پریشانی جو انسانیت میں پائی جاتی تھی وہ اختتام پذیر ہوئی.وحی الٰہی کی روشنی میں تعلیم کا آغاز اقراء سے ہوا تو اگرچہ عرب کے سرداروں پر گراں گزرا لیکن آپ ﷺ کی ثابت قدمی سے فرزندان اسلام کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہوتا چلا گیا
یہی خوبیاں شجر انسانیت کو ایسا سایہ فراہم کرتی ہیں کہ کفروشرک کی سیاہ رات دم توڑ تی محسوس ہوتی ہے.اسلام چونکہ امن کا درس دیتا ہے اس لیے اس کی تعلیمات میں بھی ایک روشنی اور چاہت کے خوبصورت اصول پائے جاتے ہیں.اچھے اخلاق کا مالک ہونا معراج انسانیت کی سب سے بڑی دلیل ہے.اخلاق حسنہ سے انسان کی عزت اور قدر میں اضافہ ہوتا ہے.خوش اخلاقی اور عجز وانکساری ایسی صفات ہیں
جن سے حیات انسانی کے گلشن میں بہار آتی ہے.چاہتوں اور محبتوں کے پھول کھلتے ہیں.قربتوں کی فضا پیدا ہوتی ہے.ہمدردی اور مساوات کے جذبات پیدا ہوتے ہیں.مسلمان بھائی کو دیکھ کر مسکراہٹ بکھیرنا بھی حسن اخلاق کا اعلٰی ترین نمونہ ہے.رب کائنات اگر کسی چیز کو پسند فرماتے ہیں تو وہ نرمی اور بردباری ہے.اخلاقیات سے انسان کے اندر صبر ورضا اور محبت و ہمدردی پیدا ہوتی ہے
.اس سے گلشن حیات کے گوشے مہکتے ہیں.الفت کی کلیاں مکراہٹوں کی خوشبو بکھیرتی ہے.گویا کہ ایک ایسی بہار محسوس ہوتی ہے کہ اطمینان قلب ملتا ہے.آپ نے فرمایہ کہ:-ہر بھلائی صدقہ ہییہ دنیا چونکہ آخرت کی کھیتی ہے اس لیے اچھے اعمال کا اہتمام سب سے بڑی سعادت ہے.زندگی کے رنگ کا حسن اور بھی نکھرتا ہے جب نسانیت کی مدد کی جاتی ہیبقول شاعر:
– ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے..آتے ہیں جو کام دوسروں کے