ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 32

آڈیو لیک کا ہنگامہ اور سیکورٹی پر تحفظات

آڈیو لیک کا ہنگامہ اور سیکورٹی پر تحفظات

دنیا بھر میں حکومتی عہدیداروں کی مختلف امور سے متعلق کی جانے والی گفتگو کو محفوظ بنانے کے لیے سکیورٹی ادارے کئی طرح کے اقدامات کرتے ہیں،پاکستان میں بھی سکیورٹی ادارے دن رات ایسے ہی اقدامات کرتے رہتے ہیں ،لیکن دو روز قبل وزیراعظم ہائوس میں ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں اور وفاقی وزراء کے اجلاس کی مبینہ آڈیو ریکارڈنگ منظرِ عام پر آنے سے وزیراعظم ہائوس کی

سکیورٹی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں،اس معاملے پروزیر اعظم شہباز شریف نے فوری تحقیقات کا حکم دے دیا ہے ،اس کی تہہ تک پہنچنے اور ذمہ داروں کا کھوج لگانے کا کام آئی بی کے سپرد کیا گیا ہے اور دوسری ایجنسیاں بھی اس ٹاسک میں شامل ہوں گی ،تاہم حکومت جس طرح اپنے مخالفین کے خلاف ایسے ایشوز پر سیاست کرتی ہے،اس طرح حکومت مخالف حلقے بھی اسے اپنے حق میں پوائنٹ اسکورنگ کے

طور پر استعمال کرر ہے ہیں۔ملک بھر میں ایک ہنگامہ برپاہے کہ وزیراعظم ہائوس سے آڈیو لیک ہوگئی ہے ،لیکن حکمران طبقہ کیلئے آڈیو لیک ہونا کوئی اہم مسئلہ نہیں ، یہاں پہلے بھی اہم لوگوں کی آڈیو لیک ہوتی رہی ہیں ،اس ملک میںآڈیو لیک روکی نہ آڈیو میں ہونے والی گفتگو پر کوئی کاروئی کبھی ہوئی ہے

،ہر دور اقتدار میں حکمرانوں کا دعویٰ رہا ہے کہ ایسی سیکڑوں آڈیوز آ بھی جائیںتوانہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا ،اس لیے ہی آنے والی آڈیو پر کوئی وضاحت یا صفائی پیش کی جارہی ہے نہ شر مندگی کا اظہار کیا جارہاہے ،بلکہ وزیر داخلہ راثنا اللہ کا کہنا ہے کہ بغیر انکوائری آڈیو لیک معاملے کو سیریس نہ بنایاجائے، اگر انکوائری میں ثابت ہوا کہ پی ایم ہائوس میں کوئی ریکارڈنگ ڈیوائس لگی تھی تو یہ سیریس معاملہ ہوگا۔
ہمارے حکمران اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کی ریکارڈنگ کرنے والے لوگ کون ہیں ؟ اس بات کوزبان پر لائے بغیراسے خفیہ اداروں کی ہی شرارت سمجھتے ہیں، اس کا اقرار حکمران کریںگے نہ ادارے تسلیم کریں گے کہ ایسا کرتے ہیں اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ ایسا نہیں کرتے ہیں تو معاملہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے

کہ پھر ایسا کون کررہا ہے؟اس کی بھی ذمہ داری سیکورٹی اداروں پر ہی آتی ہے ،جہاں تک آڈیو کے مواد کا تعلق ہے تو اس سے بھی زیادہ غیر محتاط گفتگو حکومتی وزراء کرتے رہتے ہیں، اس آڈیو میں جو کچھ کہا گیا اور آئندہ آنے والی آڈیوز میں کہا جائے گا ، وہ قانون کی گرفت میں آنے والاہے نہ قانونی گرفت میں لایا جائے گا

،اس کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ جس طرح پی ٹی آئی کے سر پر تلوار لٹکائی گئی ہے،اس طرح ہی پی ڈی ایم کے سر پر بھی ایک تلوار لٹکا دی جائے، تاکہ دونوں کا معاملہ برابر رہے۔یہ حقیقت حکمران اور عوام اچھی طرح جانتے ہیں کہ اس ملک میں ایسی سازشی تھیوری بارہا بروئے کار لائی جاتی رہی ہیں،ایک بار پھر نیا تماشا لگایا جارہا ہے

،تاکہ یک بعد دیگرے آڈیو لیک ہونے پرسارا دن ساری رات قوم اس بحث میں ہی اْلجھی رہے اور عوامی مسائل پس پردہ چلے جائیں ،ملک میں ایک طرف برھتی مہنگائی اور سیلاب کی تباہ کاریاں ہیں تو دوسری جانب عوام کو دانستہ طور پر آڈیو لیک کا تماشا دکھانے میں الجھایا جارہا ہے ، وزیر اعظم ہائوس میں ہونے والی گفتگو کیسے ریکارڈ ہوئی، کس نے کی اور اس کے پس پردہ محرکات کیا تھے؟

یہ بات سنجیدہ غور و فکر اور موثر اقدامات کی متقاضی ہے کہ وزیر اعظم ہائوس کی سکیورٹی کیسے بریک ہوئی؟ یہ ملک کا سب سے بڑا اہم ترین دفتر ہے، اگر یہ بھی غیر محفوظ ہے تو حکومت اور متعلقہ ادارے کیا کر رہے ہیں؟یہ سیکورٹی اداروں کا بہت بڑا فیلیئر ہے ،جسے نظر انداز کرنا خود کو خطرات کے سپرد کرنے کے مترادف ہے۔یہ سیکورٹی ادراروں کے لیے جہاں لمحہ فکرہے ، وہیںحکومت اور اپوزیشن کو بھی معاملے کی نزاکت کا احساس کرنا چاہئے، حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں، لیکن حساس معالات

پر سیاسی پوئنٹ سکونگ کر نی چاہئے نہ غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنانا چاہئے ، ملک اور قوم کا مفاد اسی میں ہے کہ سیاست بازی کیلئے دیگرموضوعات پڑے ہیں، اس معاملے پر سیاست کی جائے نہ سیاسی فائدہ اُٹھایا جائے ،بلکہ اس معاملے کو اتفاق رائے سے منتقی انجام تک پہنچایا جائے ،اس معاملے میں ملوث لوگوں کو

عبرت کا نشان بنانے کے ساتھ اس میں ہونے والی گفتگو پر بھی کارئی ہونی چاہئے ،تاکہ آئندہ آڈیو لیک کے سد باب کے ساتھ سازشی عناصر کی سازشوں کا بھی خاتمہ ممکن بنایا جاسکے ،یہ بظا ہر مشکل ضرور ،مگر ناممکن نہیں ہے

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں