ملک کے اہم ادارے خسارے کا شکار ہوں، ملک قرضوں میں جکڑا ہو ،عوام بھوک اور افلاس کے عذاب سے گزررہے ہو ں 47

ہم بدلیں گے تو سب بدلے گا !

ہم بدلیں گے تو سب بدلے گا !

ملک میں عجیب وغریب صورتحال بنی ہوئی ہے ،ہر پاکستانی سو چنے پر مجبور دکھائی دیتاہے کہ آگے چل کر کیا ہونے والا ہے، یہ صورتحال ملک کے معاشی اور سفارتی معاملات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہے،سیاسی محاذآرائی میں مفاہمت کے کھیل تماشے نے سیلاب زدگان اور معاشی بہتری کی ساری کائوشوں کو پیچھے دھکیل دیا ہے،ملک میں ہر طرف سائفر، آڈیولیکس اور دھمکی آمیز بیانات کا شور بر پا ہے

،مجال ہے کسی کو ملکی حالات کی ذرہ بھر سی بھی کوئی پرواہ ہے ،یہاں سب خود کو بچانے اور اپنے مفادات کے حصول میں لگے ہیں ،یہ کیسے سیاستدان اور بے حس رہنما ہیں کہ جو اپنے مفادات کے حصول میںملک کی سلامتی وبقاء اور قومی مفادات قربان کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
اس میں شک نہیں کہ سیاسی قائدین پر ملک و عوامی مفادات سے زیادہ ذاتی مفادات کا غلبہ ہے ،اس لیے ہی توجہ کامرکز عوام کی بجائے ذاتیات ہی نظر آتی ہیں، ہر کوئی عوام کی بجائے خود کو بچانے میں لگا ہے

، اس اعتبار سے سیاسی رہنمائو کیلئے عدالتی فیصلے بھی حوصلہ افزا ہی آنے لگے ہیں ، ایک طرف سابق وزیر اعظم عمران خان کی تو ہین عدالت کیس میں معافی قبول ہوئی ہے تو دوسری جانب مریم نواز کو ایون فیلڈ ریفرنس میں بریت کے ساتھ پا سپورٹ بھی مل گیا ہے ،جبکہ مسلم لیگ( ق)کے رہنما مونس الٰہی کے خلاف بھی منی لا نڈرنگ کا مقدمہ خارج کردیا گیا ہے ،یہ مذکورہ مقدمات تینوں رہنمائوں کے سیاسی مستقبل کیلئے انتہائی اہمیت کے حامل تھے ،اس کے نمٹنے کے بعد سیاست کے میدان میں ہر ایک کی اپنی دوڑ ہے

،جو کہ لگانے کیلئے تینوں ہی تیار نظر آتے ہیں۔اس بدلتی سیاسی صورت حال کو ملکی سیاست کی بہتری کیلئے استعمال کرناچاہئے ،لیکن یہ تبھی ممکن ہے کہ جب سیاسی اختلافات کو ذاتی عناد میں تبدیل کرنے سے باز رکھا جائے ،سیاست میں اختلاف بری چیز نہیں ،لیکن ہمارے ہاں اختلافات کی حد بندی نہ ہونے کی وجہ سے سیاسی اختلافات عداوت میں تبدیل ہو جاتے ہیں ،اس کا اثر صرف سماجی سطح پر ہی نہیں

،بلکہ پارلیمان میں بھی شدت سے ظاہر ہوتا ہے ،یہ جمہوریت کا حسن نہیں ،بلکہ جمہوریت کیلئے بد نما داغ ہے ،سیاسی قیادت کے ایک دوسرے پرذاتی حملے اور بد اخلاقی سیاسی وقار کے شایان شان نہیں ،ان روئیوں سے اتنا نقصان ہوا ہے کہ ہمارے ایوان پارلیمان سیاسی مکالمے سے ہی محروم ہو چکے ہیں ۔
یہ امر انتہائی قابل غور ہے کہ ہم قومی زندگی کی پون صدی مکمل کرنے کے باوجود بے سمت ہیں ،ہم بحیثیت قوم ابھی تک اپنی سمت درست کر نے کے ساتھ اپنے اہداف اور اپنی منزلو ں کے رُخ کا تعین ہی نہیں کر پائے ہیں ،اس فکر کی جوت جگانے کیلئے سیاسی رہنما ئوں کاکردار مثالی ہوتا ہے ،مگر ہمارے رہنمائوں کی توجہ کبھی وسیع قومی مفاد کی جانب نہیں رہی ہے ،وہ ایک دوسرے کو برے القاب سے پکارنے

، الزامات لگانے اور ایک دوسرے کو گرانے میں ہی مصروف ہیں ، کیا ہمارے سیاسی رہنما ئوں کی سر شت میں فکر انگیز تبدیلی کی کوئی امید کی جاسکتی ہے ؟کیا ہمارے رہنما بھی مہذب دنیا کی سیاسی قیادت کا وتیرہ اختیار کرتے ہوئے جمہوری سوچ پروان چڑھا سکتے ہیں ؟یہ ناممکن نہیں ،مگر اس کیلئے سیاسی قیادت کو اتفاق رائے کے ساتھ موافقت پیدا کر نا ہو گی ۔ہماری سیاسی قیادت نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے اور بار بار پرانی غلطیاں ہی دہرائے جارہے ہیں ،اس وقت بھی حکومت حزب اختلاف پر اور حزب اختلاف حکومت پر برتری حاصل کرنے میں لگی ہے ،اس کے لیے طاقت کے تمام حربے اختیار کیے جارہے ہیں اور ملک انتشارکی سیاست کی جانب بڑھتا ہی چلا جارہا ہے،

اس کا ذمے دار کوئی ایک فریق نہیں ،سب ہی ذمے دار ہیں ،ایسی غیر یقینی صورت حال میں بہتری کا عمل کیسے شروع ہوگا اور کون شروع کرے گا ،عوام ریاستی اداروں کی جانب دیکھ رہے ہیں ،مگر وہاں بھی انہیں عجب پراسرار سی خاموشی دکھائی دیتی ہے ،اس صورتحال میںکوئی سننے والا ہے نہ ہی کوئی بیٹھا کر بات کرنے والا ہے، ملک کو جب سیاسی بونوں اورعوام کے ناپسندیدہ لوگوں کی مدد سے چلانے کی کوشش کی جائے گی

تو کبھی بہتر ی کی جانب نہیں بڑھ پائیں گے ، اگر آج ہم آگے نہیں بڑھ پارہے ہیں تو ہمیں خود ہی اپنے معاملات کا درست انداز میں تجزیہ کرنا ہوگاکہ ہم اس مقام پر کیسے پہنچے اور کیسے اس مقام سے باہر نکل کر اپنے لیے ایک محفوظ ترقی کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں ،ہم خود کو بدلیں گے تو ہی سب کچھ بدلے گا!

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں