ریاست کی بقاء میں سیاست کی بقاء
اس وقت پاکستانی سیاست میں عمران خاں نہ صرف اپنی مقبولیت کے بام عروج پر ہیں، بلکہ ان کے چاہنے والے انہیں سیاسی میدان میں کامیاب کروانے کیلئے بھر پور ساتھ بھی دیے رہے ہیں ،اس لیے ضمنی انتخاب میں کا میابی کے بعد تحریک انصاف قیادت کے مطالبے میں مزیدشدت آنے لگی ہے
کہ اتحادی حکومت فوری طور پر عام انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرے، وگرنہ وہ لاکھوں لوگوں کے ساتھ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کرینگے اور اس کے بعد پھر عوام ہی سڑکوں پر خود فیصلہ کرینگے کہ وہ کیا چاہتے ہیں ؟
ہمارے خیال میں اس موقع پر ، جب کہ تحریک انصاف قیادت انتخابی کامیابی سے سرشار ہیں ، لانگ مارچ کے نتائج اور اثرات کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر ایک بار پھر سنجیدگی سے غور کر لینا چاہئے کہ مجوزہ لانگ مارچ کے ہونے اور حکومت کی جانب سے اسے روکنے کے ضمن میں جو بیانات سامنے آرہے ہیں،
وہ کسی بھی طرح ملک کے مفاد میں نہیں ہیں،سیاست میں تصادم،محاذ آرائی اور طاقت کے استعمال سے مطلوبہ اور مثبت نتائج کی امید رکھنا کسی بھی فریق کی جانب سے درست نہیں ،اس کیلئے افہام وتفہیم اور مزاکراتی عمل شروع کر نے کی ضرورت ہے ،لیکن اس بڑھتی سیاسی محاذ آرائی میں مفاہمتی کائوشیں کچھ زیادہ اثر انداز ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہیں ۔اتحادی حکومت اور تحریک انصاف قیادت سیا سی معاملات کو سیاسی انداز میں سلجھانے کی زبانی کلامی باتیں تو بہت کرتے رہتے ہیں ،بیک ڈور ڑابطے بھی ہورہے ہیں ،
مگر کو ئی مثبت پیش رفت ہوتی دکھائی نہیں دیے رہی ہے ،کیو نکہ سیاسی اختلافات نے ذاتی دشمنی کی شکل اختیار کر لی ہے اور کوئی ایک فریق دوسرے کو قبول کرنے کیلئے ہی تیار نہیں ہے ، سیاسی جماعتوں میں اصولی اختلاف رائے کو رد نہیں کیا جاسکتا ،مگر قومی مفادات کے پیش نظر مکالمے کا ماحول برقرار رہنا چاہئے
،یہ جمہوریت کا حسن ہے کہ جمہوری نظام میں حزب اختلاف حکومت پر کڑی تنقید کرے ،مگر حکومت کے ہر اقدام کو رد کرنا بھی لازم نہیں ہے ،ہمارے ہاں الزام تراشیوں کے زیر سایہ ایسا ماحول بنا دیا گیا ہے کہ اب ہرمعاملے میں بے یقینی ہی نظر آنے لگی ہے۔یہ سیاسی بے یقینی ملک میں ایک طرف معاشی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہی ہے تو دوسری جانب اس کے سماجی اثرات بھی ظاہر ہو نے لگے ہیں
،ملک بھر میں آئے روز بڑھتی مہنگائی اور بے روز گاری نے سماجی توزن برباد کرکے رکھ دیا ہے ،ملک کی 65فیصد نوجوان آبادی کو برسر روز گار کر نے کیلئے سالانہ جس شرح سے ترقی درکار ہے ،اس کے ایک چوتھائی سطح پر بھی نہیں ،ایسے حالات میں سماجی جرائم میں اضافے کے اندیشے بڑھنے لگے ہیں
، حکومت کی ذمہ داری ہے کہ تر جیحی بنیاد پر عوامی مسائل کا تدار کرے ،عوام کو مہنگائی سے نجات دلائے ، بے روز گاروں کوروز گار فراہم کرنے کی اقدامات کرے ،لیکن حکومت کی تر جیحات میں عوامی مسائل کہیں نہیں، حکومتی قیادت کی تر جیحات میں پہلے حصول اقتدار اور پھر طول اقتدار ہی رہاہے اور وہ اس کیلئے ہی صبح و شام کوشاں دکھائی دیتے ہیں ۔ملک کی سیاسی قیادت کو ادراک ہونا چاہئے کہ ملک وقوم کی ترقی و خوشحالی ہی سیاسی اور حکومتی مضبوطی کی دلیل ہے ،غربت وافلاس میں معتدل حالات کا تصور خام خیالی کے سوا کچھ نہیں ،ہم قومی سطح پر جن مسائل سے دوچار ہیں
،ساری سیاسی جماعتوں کو سنجیدگی سے ان کے حل کی جانب توجہ دینا ہو گی ،سیاسی قیادت کی جانب سے جو زبانی کلامی مل کرمسائل حل کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں ،ان پر عملی طور پر بھی کچھ کرنا ہو گا ،سیاسی قیادت کو خود پسندی اور انانیت کے رویئے سے نکل کر کھلے ذہن اور کھلے دل کے ساتھ کام کرنا ہو گا ،اگر چہ انتہائی اختلافات میں یک دم سے تبدیلی آسان کاکام نہیںہے ،مگر سیاسی قیادت کیلئے ایسا کرنا ناگزیر ہوچکاہے
،بصورت دیگر سیاسی قیادت کے بڑھتے اختلافات خود سیاسی قیادت کے ساتھ جمہوریت کیلئے بھی تباہی کاباعث بن جائیں گے۔اس وقت ملک سیاسی ومعاشی طور پر دن بدن بد حالی کی جانب گامزن ہے ،اس صورت حال سے نمٹنا سیاسی قیادت کے اتفاق رائے کے بغیر ممکن نہیں رہا ہے ،اس لیے ضروری ہے
کہ وقت ضائع کیے بغیر سیاسی اتفاق رائے کی کوشش کی جائے ،یہ کائوش خواہ بیک دور پا لیسی سے کی جائے یا کھلے بندوں مذاکرات کے ذریعے،مگر یہ ملک کی اہم ضرورت بن چکی ہے ،کیو نکہ گزرتے وقت کے ساتھ مسائل مزید شدت اختیار کرتے جارہے ہیں ،اس سے پہلے کہ ناقابل اصلاح حدتک جاپہنچیں ،سیاسی قیادت کو دانشمندی سے کام لیتے ہوئے معاملات سلجھالینے چاہئے ،سیاست دانوں کو ریاست کی بقا اور اس کے بہتر مستقبل کے لئے افہام و تفہیم کا راستہ اپنانا ہی ہو گا، کیو نکہ ریاست کی بقا میں ہی ان کی سیاست کی بقا ہے۔